پاکستان کی جامعات میں خالص علمی اور ادبی سرگرمیاں شاذو نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مادیت پرستی کی دوڑ نے طالب علموں کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی علمی، ادبی اور تحقیقی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ کچھ برس سے ہماری سرکاری اور نجی جامعات میں یہ افسوس ناک رواج چل نکلا ہے کہ اکثر علمی، تعلیمی اور تحقیقی سرگرمیوں کو ذاتی تعلقات کی ترویج کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ محض تصویر اور تشہیر کے لئے با اثر شخصیات کو مدعو کیا جاتا ہے اور بے مغز تقاریر کروائی جاتی ہیں۔ اس صورتحال میں کسے فکر کہ مدعو مہمان کا زیر بحث موضوع سے براہ راست کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں۔ سچ پوچھیے تو بہت سی قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں کا مقصد بھی یہی دکھائی دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ خالص علمی و ادبی اور تحقیقی سرگرمیاں کم کم ہی ہماری نگاہ سے گزرتی ہیں۔ اس تناظر میں یہ خبر سن کر بہت خوشی ہوئی کہ جامعہ پنجاب میں ایک کتاب میلے کی تیاری ہے۔ اگرچہ پنجاب یونیورسٹی میں کتاب میلے کی روایت نئی نہیں ہے۔ تاہم گزشتہ 9 برس سے اس میلے کا انعقاد نہیں ہو سکا۔ آخری کتاب میلہ غالبا ڈاکٹر مجاہد کامران صاحب کے دور میں منعقد ہوا تھا۔
رئیس الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود طویل عرصہ کے بعد یہ عمدہ سرگرمی کروانے پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ڈاکٹر خالد محمود کا کتابوں سے گہراتعلق ہے۔ آپ کا شعبہ لائبریری سائنسز اور انفارمیشن مینجمنٹ ہے۔ چند دن پہلے پنجاب کے ڈی۔جی لائبریریز کاشف منظور بتا رہے تھے کہ ڈاکٹر خالد ایک زمانہ میں قائد اعظم لائبری کے لائبریرین ہوا کرتے تھے۔ سو کتابوں سے ا ن کی محبت ایک قدرتی امر ہے۔ ڈاکٹر خالد اپنے علم اور کتاب بینی کا چرچا نہیں کرتے، تاہم ان کی گفتگو سے یہ بات خود بخود عیاں ہو جاتی ہے۔ میں نے انہیں ڈرامے، فلم، میوزک، سیاست، صحافت جیسے موضوعات پر بات کرتے سنا ہے۔ ان کی گفتگو سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ صرف پڑھے لکھے نہیں، بلکہ پڑھنے لکھنے والے آدمی ہیں۔
کل اس تین روزہ میلے کا پہلا دن تھا۔ مجھے بھی اس میں جانے کا اتفاق ہوا۔ بیسیوں معروف بک پبلشروں کے سٹالز دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ ہر موضوع پر کتابیں دستیاب تھیں۔ نوجوانوں سمیت بڑی تعداد میں لوگ وہاں موجود تھے۔ ہم اکثر سنتے ہیں کہ آج کی نوجوان نسل کتاب سے بہت دور ہو گئی ہے۔ نوجوانوں کا زیادہ تر وقت ڈیجیٹل میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا کی نذر ہو جاتا ہے۔ اس میں کسی حد تک حقیقت بھی ہے۔ تاہم آج بھی سنجیدہ اور ذہین نوجوان کتاب پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ خواہ وہ کتاب کاغذ کی شکل میں ہو یا ای۔بک کی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آج کے دور میں کتاب چھپنا کم ہو گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کتاب بکتی ہی نہیں ہے۔ تاہم پاکستان کے بڑے بڑے کتاب میلوں کا جائزہ لیں تو یہ باتیں غلط ثابت ہوتی ہیں۔ کتاب میلوں میں جانے والوں کی تعداد دیکھیں اور بکنے والی کتابوں کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ کتاب چھپ رہی ہے، بک رہی ہے اور پڑھی بھی جا رہی ہے۔ آج بھی کتاب سے محبت بلکہ عشق کرنے والے لوگ موجود ہیں۔ میں نے کتاب میلوں میں لوگوں کو بوریاں بھربھر کر کتابیں خریدتے دیکھا ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں ایسے میلے کتاب سے محبت کرنے والوں کے لئے ایک نعمت ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی کے کتاب میلے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں کم و بیش ڈیڑھ سو پبلشر ز اور بک سیلرز شریک ہیں۔ کتاب میلے کے منتظمین کا کہنا ہے کہ یہاں کسی بھی دوسرے کتاب میلے سے کہیں زیادہ رعائتی قیمت پر (یعنی سستی ترین) کتابیں دستیاب ہیں۔ تین روزہ کتاب میلے میں ملک کی نامور علمی، ادبی، سیاسی، صحافتی اور دیگر شخصیات شرکت کریں گی۔مجھے یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ میلے میں کچھ نامور لکھاریوں کی کتابوں کی تقریب رونمائی کا بھی انتظام ہے۔ جامعہ پنجاب کے فلم اینڈ براڈ کاسٹنگ ڈیپارٹمنٹ نے بک ریڈرز کلب کا اہتمام بھی کر رکھا ہے۔”حلقہ یاراں“ کے نام سے جاری اس بیٹھک کا مقصد مختلف کتابوں کا تعارف اور تنقیدی جائزہ پیش کرنا ہے۔
قارئین اگر نہایت ارزاں داموں کتابیں خریدنا چاہتے ہیں، نامور علمی و ادبی شخصیات سے ملنے کے خواہاں ہیں یا وہ کسی ادبی مذاکرے یا مجلس کا حصہ بننا چاہتے ہیں، تو انہیں ضرور جامعہ پنجاب میں جاری کتاب میلے کا رخ کرنا چاہیے۔ خاص طور پر ہمارے نوجوانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کتاب میلے میں جائیں اور کتاب کے ساتھ دوستی کو مضبوط کریں۔ یقین جانیے، کتاب بینی کی عادت سوشل میڈیا کے ساتھ وقت ضائع کرنے سے بدرجہا بہتر ہے۔ کسی دانا نے بجا طور پر کہا ہے کہ کتاب بہترین ساتھی اور دوست ہے۔ جامعہ پنجاب کا کتاب میلہ مزید دو دن جاری رہے گا۔
پنجاب یونیورسٹی میں آخری کتاب میلہ جو 2015 میں منعقد ہوا تھا۔ اس میں تقریباً سوا لاکھ کتابیں فروخت ہوئی تھیں۔موجودہ کتاب میلے کی رونق اور تیاریاں دیکھتے ہوئے توقع ہے کہ اس مرتبہ پچھلی بار سے زیادہ کتابیں فروخت ہو ں گی۔ جامعہ پنجاب کتاب میلے کے تمام منتظمین کو اس عظیم الشان کتاب میلے کے انعقاد پر دلی مبارک باد۔
تبصرے بند ہیں.