کیا خواتیں کا دن منانا ضروری ہے؟

80

خواتین کا عالمی دن منانے کی ضرورت کیونکر پیش آئی، اس کی افادیت کیا ہے اور اس دن کو منا کر ہم کیا ٹارگٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں یا کر سکتے ہیں؟ اس کے علاوہ کیا ہم کسی ایک دن ہم سڑکوں پر بینر اور پوسٹر لگا کر یا میڈیا پر اشتہار چلا کر یا کچھ سیمینار اور ورکشاپس وغیرہ کا اہتمام کر کے خواتین کے حقوق کے حصول کا مقصد حاصل کر لیں گے یا اس سے بڑھ کر کچھ کرنا پڑے گا؟۔

کہا جاتا ہے کہ اس دن کو منانے کا مقصد خواتین کی کامیابیوں کو اجاگر کرنا اور صنفی مساوات کی وکالت کرنا ہے۔ لیکن کچھ لوگ اس بات کا جواب دیتے ہیں کہ کیا سالانہ بنیادوں پر کسی مقصد کے حصول کے لیے بات کرنا اتنا موثر ہو سکتا ہے کہ جتنی اس کی ضرورت ہے؟۔

خواتین کے عالمی دن کے ناقدین کا خیال ہے کہ خواتین کو درپیش مسائل کو حل کرنے کسی خاص دن یا وقت کی نشاندہی مناسب نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ خواتین کی کامیابیوں کا جشن منانا یا ان کے حقوق کی بات کرنے کے لیے کسی ایک دن کا وقف کرنا نادانستہ طور پر صنفی مساوات کے لیے جاری جدوجہد کو معمولی بنا سکتا ہے۔

خواتین کے دن کو منانے یا نہ منانے والوں کے اختلاف میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے کہ جس کا کہنا ہے کہ اس قسم کے دن کے حوالہ سے تقریبات وغیرہ منقد کرنے میں تو کوئی حرج نہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی ترجیحات کو دوبارہ ترتیب دیا جائے تاکہ توجہ کو جشن سے لے کر عمل کی طرف منتقل کیا جائے۔ ماضی کی کامیابیوں کو مکمل طور پر یاد کرنے کے بجائے، یہ دن بیداری بڑھانے اور صنفی مساوات کی جانب ٹھوس پیش رفت کو آگے بڑھانے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور استعمال کیا جانا چاہیے۔ مجھے تو خیرانسانی رشتوں میں انگریزی سٹائل میں کوئی خاص دن منانا اچھا نہیں لگتا۔ میرے حساب سے تو ہمیں رشتوں بالخصوص ماں، باپ، بہن، بھائی، بیوی، شوہر یا اولاد کے حوالہ سے ہر دن کو خصوصی اہمیت دینی چاہیے اور اپنے پیاروں سے محبت اور خلوص کا اظہار کر کے لیے کسی خاص دن کا انتطار نہیں کرنا چاہیے۔ میڈیا ذرائع سے معلوم ہوا کہ آٹھ مارچ کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کا دن منایا جا رہا ہے۔ ویسے تو ہر سال ہی یہ دن منایا جاتا ہے اور اس سلسلہ میں مختلف قسم کے پروگراموں کا اہتمام بھی ہوتا ہے اور اس دن کو منانے کے سلسلہ میں مختلف مکتبہ ہائے فکر کے لوگوں کی سوچ کا ٹکراؤ بھی رہتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہمیں یہ دن منانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے اور اس دن کو منانے سے ہم کیا فوائد حاصل کر سکتے ہیں؟

اگرچہ یورپ اور امریکہ خواتین کے حقوق اور تحفظ دینے کے معاملات میں ہر وقت اپنا جھنڈا اوپر ہی رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے ہمارے مذہب اور معاشرے میں خواتین کو جو عزت، مقام اور حیثیت دی گئی ہے اس کو اجاگر کرنے کے لیے ہمیں گوروں کی ہدایت پر کوئی خاص دن منانے کے بجائے اپنے دین اور اپنی علاقائی ثقافت پر توجہ کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اگر ہم صرف اتنا کر لیں تو پھر کم از کم ہمارے معاشرے میں تو ہر دن ہی خواتین کا دن ہو سکتا ہے۔
ویسے تو خواتین کے حقوق کا مسئلہ ہمیشہ ہی عالمی سطح پر گفتگو کا موضوع رہا ہے، خاص طور پر اسلامی اور ایشیائی معاشروں میں، جہاں ثقافتی اصول، مذہبی عقائد، اور روایتی طریقے اکثر خواتین کے معاشرے میں کردارکو تشکیل دیتے ہیں۔ اگرچہ ان خطوں میں خواتین کے حقوق کو آگے بڑھانے میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے لیکن چیلنجز بھی بدستور برقرار ہیں۔
اسلامی معاشرے میں تو تقریباً ڈیڑھ ہزار سال پہلے ہی خواتین کو مکمل حقوق اور خودمختاری، جیسے جائیداد کی ملکیت اور وراثت میں حصہ، کاروبار اور دیگر سماجی معاملات حتیٰ کہ جنگوں میں شرکت کرنے کی اجازت وغیرہ، حاصل تھی۔ مغربی دنیا میں اسی قسم کے حقوق صدیوں بعد تسلیم کیے گئے۔ افسوس کہ ہم نے اپنی روایات کو برقرار نہیں رکھا اور آج ہم اپنی ہی نظر انداز کی گئی روایات کے دوبارہ حصول کے لیے مغرب اور امریکہ کی روایات کے محتاج ہیں۔

حالیہ دہائیوں میں اسلامی اور ایشیائی معاشروں میں خواتین کے حقوق میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ تعلیم، روزگار اور سیاسی شرکت جیسے شعبوں میں صنفی تفریق کو دور کرنے کے لیے قانونی اصلاحات نافذ کی گئی ہیں۔ خواتین کی شرح خواندگی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔خواتین کی بڑی تعداداعلیٰ تعلیم بھی حاصل کر رہی ہے اور افرادی قوت میں بھی شامل ہو رہی ہیں۔

بلاشبہ ترقی اور آگاہی کے باوجود خواتین کو بے شمار چیلنجوں کا سامنا ہے اور انہیں اپنے حقوق اور آزادیوں میں مختلف قسم کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب خواتین کے حقوق کی بات کی جائے تودلچسپ پہلو یہ بھی سامنے آتا ہے کہ اس مسئلہ میں طبقاتی تقسیم سے زیادہ ثقافتی تقسیم کا عمل دخل ہے۔ یعنی ہمارے ملک میں ہی کچھ معاشرتی حصوں میں تو خواتین ناصرف مردوں کے شانہ بشانہ بلکہ بعض معاملات میں ان سے بڑھ کر کام کر رہی ہیں لیکن یہیں بعض ایسے بھی معاشرتی حصے ہیں جہاں خواتین مردوں کی اجازت کے بغیر گھر تک سے نہیں نکل سکتیں اور ووٹ ڈالنے کے بنیادی حق تک سے محروم ہیں۔

اسلامی اور ایشیائی معاشروں میں خواتین کے حقوق کو آگے بڑھانے کے لیے ایک کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے جس میں قانونی اصلاحات، سماجی بیداری کی مہمات، تعلیم اور معاشی طور پر بااختیار بنانا شامل ہو سکتا ہے۔اس کام کے لیے حکومت اور این جی اوز کے ساتھ ساتھ مذہبی رہنماؤں، بااثر سیاستدانوں اور پالیسی سازوں کو شامل کیا جائے تو مطلوبہ تنائج کم وقت میں زیادہ آسانی سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.