اسرائیل غزہ کوصفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے

68

فلسطینی محصور و مقہور ہونے کے باوجود وہ مسجد اقصیٰ کے تقدس کی خاطر ہنستے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے حریت و آزادی کی شمع فروزاں کیے ہوئے ہیں جبکہ غزہ کی پٹی پر صہیونی جنگی جرائم سے ہونے والی فلسطینیوں کی نسل کشی پر اقوام متحدہ اور عالمی بر ادری کی طرف سے خاموش تماشائی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے ۔سلامتی کونسل ہی نہیں، ان طاقتوں نے بھی کچھ نہیں کیا جنہوں نے چاہا ہوتا تو اسرائیل کو ایک ہفتے کے اندر جنگ بند کرنے پر مجبور کیا جاسکتا تھا۔ تاہم عالمی برادری کے جنگ بندی کے اقدامات محض علامتی اور نمائشی ہی ہیں، ان کا مقصد جنگ رکوانا ہر گز نہیں تھا ورنہ اسرائیل میں اتنا دم نہیں ہے کہ بیک وقت بہت سے ملکوں کی بات نہ مانے اور ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔ امریکہ نے ’’محدود جنگ‘‘ یا ’’محدود حملوں‘‘ کی بات کہہ کر اپنا اصل چہرا بھی دنیا کو دکھا دیا کہ اس کا معیارِ امن دو کوڑی کا ہے ۔غزہ میںصہیونی بر بریت کے پانچ ماہ میں شہدا کی تعداد 30 ہزار سے بڑھ چکی ہے ، 20 لاکھ سے زائد افراد فاقہ کشی، تحفظ، پانی، بجلی اور ادویات جیسی بنیادی ضرورتوں کے فقدان کا شکار ہیں۔ غزہ میں اشیاء خورونوش کی فراہمی روک دی گئی ہے ،ہسپتالوں میں صہیونی مظالم کا شکار ہونے والے زخمیوں کے علاج معالجہ کیلئے طبی سہولیات کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں، امریکہ اور برطانیہ کی پشت پناہی میں اسرائیلی افواج نے رفح سے اخراج کیلئے دی گئی ڈیڈ لائن سے قبل تابڑ توڑ حملے کئے۔ اس سے ایک نئے انسانی المیے نے جنم لیا ہے۔ غزہ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بھوک کی کیفیت شدید تر ہوتی جارہی ہے۔ بچے خوراک کی کمی سے جاں بحق ہو رہے ہیں۔ امدادی ٹرکوں کو اسرائیلی فوج نشانہ بنارہی ہے۔ ایسے کئی ویڈیو سامنے آچکے ہیںجن میں غزہ میں شہری اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کیلئے منہدم شدہ عمارتوں کے ملبے میں کھانے پینے کی اشیاء تلاش کررہے ہیں۔ ایک ویڈیو میں جسے الجزیرہ نے شیئر کیا، ایک شہری کو امدادی ٹرک سے سڑک پر گرا ہوا آٹا اکٹھا کرتے ہوئے دیکھا جا سکتاہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 5لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو پیٹ بھر کھانا میسر نہیں۔ خود اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ اگر جلد جنگ بندی نہ ہوئی تو غزہ میں بھوک کی صورتحال انتہائی سنگین ہو جائے گی۔
یو این فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق غزہ میں پانی کی فراہمی بھی محدود ہے۔ 7 اکتوبرسے قبل جتنا پانی اہل غزہ کو سپلائی کیا جارہاتھا،اس وقت اس کا محض 7 فیصد پانی ہی فراہم کیا جارہاہے۔ غزہ میں جس طرح کی تباہی مچائی گئی اور جنگی اْصولوں کو جس طرح پیروں تلے روندا گیا اس کی تفصیل کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ بزرگوں، خواتین اور بچوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ خون کے آنسو رلادیتا ہے۔ دنیا اتنی ظالم تو پہلے بھی تھی مگر تب وہ اکیسویں صدی میں نہیں تھی، جمہوریت اور امن کی اتنی باتیں نہیں کرتی تھی۔ آج اکیسویں صدی کی دنیا وہ سب کچھ کررہی ہے جو عالمی یوم امن، یوم ترک ِ اسلحہ، یوم مادر، یوم اطفال، یوم بزرگاں اور یوم حقوق انسانی منانے سے پہلے کیا کرتی تھی۔ یوم مدر منانے والے غزہ میں دیکھتے رہے کہ مائوں کی گود سے ان کے بچے چھین لئے گئے، یوم اطفال منانے والوں کو بچوں پر بمباری گو ارا ہوئی، ان کی غیرت نے جھرجھری تک نہیں لی جب ہسپتال تہس نہس کئے گئے، یوم بزرگاں منانے والے ٹس سے مس نہیں ہوئے جب بزرگ شہری اسرائیلی سفاکی کا نشانہ بنے۔اب تک کی جنگ میں کوئی دن نہیں گیا جب غزہ میں حقوق انسانی کی پامالی نہیں ہوئی۔ اسرائیلی فوجی غزہ میں غذائی امداد کیلئے قطار میں کھڑے فلسطینیوں پر فائرنگ کر رہے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف نے انہی حقائق کو دیکھتے ہوئے فلسطینیوں کی فوری نسل کشی روک کر اسرائیل کو ایک ماہ میں رپورٹ جمع کرانے کی ڈیڈ لائن دی اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد ہو گا یا نہیں۔ بہر حال نیتن یاہو انتظامیہ نے دو ٹوک الفاظ میں یہ دھمکی دی ہے کہ کوئی انہیں ایسا کرنے سے نہیں روک سکتا۔ فلسطینیوں پر ہر گزرتے دن کے ساتھ اسرائیلی مظالم میں خوفناک اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی استعماری قوتوں نے تمام فلسطینی آبادی کو مصر کے زیر انتظام صحرائے سینائی کی طرف دھکیلنے کا منصوبہ تیار کر لیا ہے۔ برما میں کچھ ایسا ہی ہوا تھا کہ قتل عام کے بعد جو مسلمان زندہ بچ گئے تھے انہیں رگید کر بنگلہ دیش پہنچا دیا گیاتھا۔اب اس کو غزہ میں دہرایا جا رہا ہے۔ یہ شاید انسانی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ دنیا کی گنجان ترین مختصر پٹی پر اتنے بم گرائے گئے ہوں یعنی ہر ڈیڑھ منٹ پر ایک بم گرایا جارہا ہے اور ہر بم سے ایک عمارت گرائی جارہی ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ حماس کے بہانے سارے فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹادے۔ اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ اور فلسطینیوں کے خلاف امتیازی سلوک تشدد کے تسلسل کی بنیادی وجوہ ہیں جس کا اقوام متحدہ نے بھی برملا اعتراف کیا لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ان مظالم کے اعتراف کے باوجوداب تک صرف لفظی مذمت ہی کی گئی جس سے عملی طور پر فلسطینیوں کی کوئی مدد ہوئی نہ ہی کبھی اسرائیل کے حملے رکے ہیں۔ فلسطین میں اسرائیلی مظالم پر جہاں عالمی برادری کی زبانیں خاموش ہیں وہیںسب سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں پر بھی سکوت کا عالم طاری ہے۔ او آئی سی ، عرب لیگ ا ور دیگر مسلم ممالک کا مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دینے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر نا بھی افسوسناک امر ہے جبکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 55ویں اجلاس میں سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے اسرائیل کی جبری بے گھر ہونے والے لاکھوں فلسطینیوں کی آخری پناہ گاہ رفح پر حملے کی دھمکیوں پر عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے سوال اْٹھایا کہ ہم یہاں کن حقوق کی بات کر رہے ہیں جب کہ غزہ راکھ اور ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ عالمی برادری اس پر کیسے خاموش رہ سکتی ہے جب کہ غزہ کے لوگ بے گھر اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے اجلاس میں سعودی وزیر خارجہ نے بین الاقوامی قراردادوں کے اطلاق میں دوہرے معیار اور پسند و ناپسند رویے کو مسترد کرتے ہوئے اسرائیل کے رفح پر حملے کے تباہ کن اثرات سے خبردار کیا۔ سعودی وزیر خارجہ نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے سنجیدہ، منصفانہ اور جامع اقدام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرے تاکہ معصوم شہریوں کی حفاظت کی جا سکے۔ چنانچہ اب وقت ہے کہ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو چین اور روس جیسے ممالک جو فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے صہیونی مظالم کی مخالفت کر رہے ہیں کی مکمل حمایت حاصل کرنی چاہیے۔تاکہ حقیقی معنوں میں اسرائیل کے جبر کا راستہ روکا جا سکے۔ بلاشبہ مسلم دنیا کو مصلحتوں کا لبادہ اتار کر الحادی قوتوں کا میدان عمل میں مقابلہ کر نا ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.