ترقی پذیر ممالک میں پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں خواتین نے اپنی لگن، ہمت اور جد و حہد سے اعلیٰ ترین مقام پر پہنچنے کی داستانیں رقم کی ہیں ان میں پہلے وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کی بیگم رعنا لیاقت علی خان ہیں جنہیں پاکستان کے ایک صوبے کی پہلی خاتون گورنر کا اعزاز حاصل ہوا آپکا تعلق صوبہ سندھ سے تھا۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کا موقع ملا آپ دو مرتبہ وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئیں۔ پاکستان آرمی کی میڈیکل کور سے تعلق رکھنے والی نگار جویر پاکستان کی پہلی خاتون ہیں جو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچیں اور اب مریم نواز کو پاکستان کے سب سے صوبے پنجاب کی وزیر اعلیٰ بننے کا اعزاز ملا ہے۔ پاکستانی خواتین عام انتخابات جیت کر قومی اسمبلی میں آئیں اور مختلف شعبوں کی وزیر رہیں۔ اسی طرح ایک خاتون گورنر سٹیٹ بنک رہیں اور متعدد خواتین ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی جج تعینات ہوئی ہیں۔
دنیا بھر میں جو خاتون سب سے پہلے وزیر اعظم منتخب ہوئیں وہ سری لنکا یعنی سیلون کی سرماؤ بندرانائیکے تھیں وہ 1960 میں اس منصب پر آئیں، دنیا میں پہلی صدر مملکت بننے والی خاتون ارجنٹائن کی از بیل پیرون ہیں آپ 1974 میں صدر بنیں، ان سے پہلے انکے شوہر صدر تھے۔ اسی طرح آئس لینڈ کی ویگڈاس فنبوگاڈوٹیر 1980 میں صدر منتخب ہوئیں اور سولہ برس تک صدر رہیں۔ اس طرح وہ تاریخ میں طویل ترین عرصہ تک صدر رہنے والی خاتون کا ریکارڈ رکھتی ہیں۔ نیوزی لینڈ کی جیسنڈا آرڈن بھی وزیر اعظم رہیں، بنگلہ دیش کی حسینہ واجد مختلف ادوار میں وزیراعظم رہیں انکا عہد 20 برس سے زیادہ طویل ہے۔ بارباڈوس واحد ملک ہے جہاں حکومت کی سربراہ اور ملک کی سربراہ خواتین ہیں۔ انجیلا مرکل جرمنی کی چانسلر رہیں یہ عہدہ صدر مملکت کا ہے، مارگریٹ تھیچر برطانیہ کی وزیراعظم رہیں، برطانیہ کی ایک اور وزیر اعظم تھریسامے بھی بھی رہی ہیں۔ بھارت میں اندرا گاندھی وزیراعظم رہیں جو سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی بیٹی تھیں، مسنر گولڈا میئر اسرائیل کی وزیراعظم بنیں، ایلن جونسن سر لیف لائبیریا کی صدر منتخب ہوئیں، پارک جینو ھائی ساؤتھ کوریا کی صدر بنیں۔ تھائی لینڈ میں وزیر اعظم بننے کا اعزاز ینگ لک شینا ورتا کے حصے میں آیا۔ کملہ پرساد بسیار وزیرا عظم ٹو باگو رہیں، ملین کلارک بھی نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم رہیں اسی طرح جولیا گلراڈ کو آسٹریلیا کی وزیر اعظم کا اعزاز حاصل ہوا۔
خواتین صدور اور وزرائے اعظم کے عہد میں انکے ملکوں نے خاصی ترقی کی، حیرت انگریز ترقی کرنے والے ممالک میں بنگلہ دیش، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، جرمنی شامل ہیں، برطانیہ پر چھوٹے ممالک کا عرصہ حیات تنگ کرنے اور انہیں لوٹنے کا الزام ہر زمانے میں رہا۔ یہ چلن خواتین وزرائے اعظم کے زمانے میں عروج پر رہا بعض ممالک سے تعلق رکھنے والی وزرائے اعظم پر کرپشن اور بے قاعدگیوں کے سنگین الزامات لگے ان میں ارجنٹائن، باربا ڈوس اور بھارت کی وزرائے اعظم کے نام آتے ہیں، اسرائیلی وزیر اعظم مسز گولڈ امیئر کے زمانے میں فلسطینیوں پر ظلم و ستم انہیں اپنے ملک اور حقوق سے محروم کرنے کے منصوبے کی بنیاد رکھی گئی جس پر انکے بعد آنے والے ہر وزیر اعظم نے بڑھ چڑھ کر کام کیا، یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ مختلف ادوار میں اپنے اپنے ملک کی صدر یا وزیر اعظم بننے والی تمام خواتین نے اپنی اپنی بساط کے مطابق خوب کام کیا لیکن نیوزی لینڈ کی جیسنڈرا آرڈن اور جرمنی کی انجیلا مرکل کے حصے میں جو عزت آئی وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوئی۔ ان دونوں خواتین کے دامن پر ایک روپیہ کرپشن کا الزام نہ آیا، دونوں نے سربراہ مملکت ہونے کے باوجود اپنے عہد میں انتہائی سادہ زندگی بسر کی۔ اپنا اپنا عہد ختم ہونے کے بعد اپنے چھوٹے چھوٹے گھروں میں منتقل ہو گئیں جنہیں آپ دس مرلے کا گھر کہہ سکتے ہیں۔ آج دونوں خواتین کے پاس نوکر موجود نہیں وہ اپنے اور اپنے گھر کے کام اپنے ہاتھ سے کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔ دونوں خواتین کو آج عام لوگوں کے ساتھ بازاروں میں چھوٹا سا تھیلا اٹھائے ضروریات زندگی خریدتے دیکھا جا سکتا ہے۔ دونوں اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتی ہیں۔ دونوں کی کاریں اپنے ملک کی بنی ہوئی ہیں اور بلٹ پروف نہیں دونوں کو اپنے ملک میں کسی کی طرف سے جان کا خطرہ درپیش نہیں، پس دونوں کے آگے پیچھے درجن ویگو ڈالے اور ان میں دو درجن بھر مشٹنڈے ساتھ نہیں ہوتے، دونوں میں کبھی کسی کی کوئی جائیداد بشمول پلاٹ پلازے فارم ہاؤس یا فیکٹریاں اپنے ملک میں نہ کسی غیر ملک میں، انجیلا مرکل کے زمانہ اقتدار میں ان کے شوہر کو کوئی پروٹوکول حاصل تھا نہ ہی وہ کسی تقریب میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیے جاتے تھے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈرا آرڈن نے اپنا عہد برائے وزیراعظم ختم ہونے پر شادی کی اور آج کل خوش و خرم زندگی گزار رہی ہیں۔ دونوں خواتین کا کوئی جنسی سکینڈل، آڈیو یا ویڈیو سامنے نہیں آئی، دونوں کا زمانہ اقتدار ختم ہونے کے بعد آج ان کی فقط ایک پہچان ہے وہ انسان دوست، غریب پرور، دیانتدار اور راست گو کی حیثیت سے جانی پہچانی جاتی ہیں، دونوں ملکوں کے بسنے والے ان کا بے پناہ احترام اور ان سے محبت کرتے ہیں۔ ان کے عہد میں حزب اختلاف کے ارکان بھی انہیں بے حد احترام دیتے تھے، دونوں نے اپنے وزراء اپنے نائبین کی عزت نفس کا ہمیشہ خیال رکھا اچھی کارکردگی پر ان کی حوصلہ افزائی کی، کسی سے ملکی معاملات اور پرفارمنس پر کبھی رعایت نہ برتی۔ ان کی ذات سے کبھی کسی کو نقصان نہ پہنچا، دونوں خواتین لیڈروں نے ہمیشہ قانون کی پاسداری کی۔ زندگی کے ہر معاملے میں انصاف کو یقینی بنایا، دونوں ہمیشہ ایک بات کیلئے پریشان رہتی تھیں کہ وہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے اور کیا نیا کام کر سکتی ہیں۔ انہوں نے اپنے اپنے عہد میں کبھی پولیس سٹیشنوں پر، ہوٹلوں پر کھانے کی کوالٹی چیک کرنے کیلئے یا بازاروں میں اشیائے صرف کی قیمتیں چیک کرنے کیلئے چھاپے نہیں مارے۔ انہوں نے ایک نظام قائم کیا اور ذاتی مثالیں قائم کیں۔ جن کی وجہ سے کسی عام شہری کو نظام کے خلاف ایک قدم اٹھانے کی جرأت نہ ہوئی، جرمنی اور نیوزی لینڈ دونوں ممالک میں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں اس کا سہرا دونوں وزرائے اعظم کے سر ہے۔ دونوں ممالک میں کوئی مافیا کوئی قبضہ گروپ نہیں کسی عدالت کا جج کیس دیکھنے کے بجائے فیس نہیں دیکھتا، کسی بھی عدالت کے کسی بھی جج کا کیا گیا فیصلہ اتنا جامع اور اتنا حق پر ہوتا ہے کہ ایک عدالت کی طرف سے دی گئی سزا اعلیٰ عدالت میں بھی برقرار رہتی ہے، دو درجن قتل کرنے والا، ایک ہزار ارب کی کرپشن کرنے والا اگر ایک عدالت سے سزا پاتا ہے تو دوسری عدالت سے باعزت بری نہیں ہوتا۔ کاش ہمیں کوئی ان سا مِلے، مگر ہماری ایسی قسمت کہاں۔
تبصرے بند ہیں.