ایک جعلی، غیر فطری اورغیر منطقی سی بے یقینی ہے کہ ملک بھر کی سیاسی فضا پر طاری ہے۔ کچھ بھی نہ ہونے یا بہت کچھ ہونے کے وسوسوں کی صلیبیں اٹھائے لوگ ایک دوسرے سے دست و گریباں دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان کے اداروں کو مہارت او ر جانفشانی سے انتہائی سائنسی طریقے سے اِس مقام تک لایا گیا ہے جہاں پاکستان کے نوجوان کو اپنے اداروں سے بدظن کرنے کی ابھی تک کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ آپ نے انقلاب لانا ہے تو کریں کہ یہ پاکستانی عوام کے دکھوں کا واحد حل ہے ۔ آپ نے مستحکم جمہوریت کی بنیادرکھنی ہے تو بھی کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ آپ وطنِ عزیز کو کوئی مذہبی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو بھی آپ کو لاکھوںنہیں کروڑوں انسانوں کی حمایت حاصل ہے۔ کون ہے اورکیا ہے جو آپ کے رستے کی رکاوٹ بنا ہوا ہے؟ میری سمجھ سے باہر نہیں تو ابھی بہت دور ہے ۔ کیا یہ طے ہے کہ پاکستانی عوام کبھی سکھ کا سانس نہیں لے پائے گی؟ کیا اِس پر سیاسی جماعتوں اوراداروں کا اجتہاد ہو چکا کہ پاکستانیوں کو مہنگائی کی چکی کے دو پاٹوں میں رکھ کر گیہوں کی طرح پیس کر رکھ دینا ہے یا پھر اس بات پر ”بات ہوچکی ہے“ کہ اس جغرافیے میں بسنے والوں کو ہمیشہ انسانی حقوق سے محروم رکھنا ہے؟ افلاس کی آگ ہے کہ پاکستان کے گھروں کی اکثریت کو بھسم کرنے پر تلی ہے لیکن سیاسی جماعتوں کے چونچلے ختم نہیں ہو رہے۔ حقیقت تک پہنچنے کیلئے پہلے حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پاکستان کی سب سے بڑی حقیقت پاکستان کے عوام ہیں جو اِس وقت اپنی زندگی کے بدترین دن گزار رہے ہیں۔ وہ جن کے پاس کھانے، پہننے اور سر ڈھانپنے کیلئے کچھ نہیں وہ تو آزادی کے پہلے دن سے ہی نسل در نسل ایک ذلت آمیز زندگی گزار رہے ہیں۔ جن کے پاس چھوٹا سا گھر اورکاروبار ہے وہ آہستہ آہستہ خطِ افلاس کے نیچے دبنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ نواز شریف نے وزیر اعظم نہیں بننا، شہباز شریف بنے گا۔ بلاول وزیر اعظم نہیں بنے گا لیکن آصف علی زرداری کی صدارت کے رستے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ آزاد تحریک انصاف یا سنی اتحاد کونسل حکومت نہیں بنائے گی بلکہ بقول بیرسٹر گوہر وہ بشریٰ بی بی کی رہائی کیلئے ہر حد تک جائیں گے جب کہ حامد رضا نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی بیان نہیں داغا۔ مولانا فضل الرحمان روزانہ کوئی تماشا لگا لیتے ہیں جس کا واحد مطلب اپنا بھاری حصہ طلب کرنا ہوتا ہے۔ ایم کیوایم نے سیاسی اتحاد کا عہد ن لیگ سے کر رکھا ہے لیکن سندھ حکومت سے انہیں کراچی میں مکمل اختیار چاہیے سو ایسا پاکستان پیپلز پارٹی کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں۔ اِن تمام قائدین اور سیاسی جماعتوں کے مطالبے اورخواہشات اپنی جگہ درست ہو سکتے ہیں لیکن اِن 25 کروڑ کے لگ بھگ بھیڑ بکریوں کا کیا کرنا ہے جن کے ووٹ حاصل کرنے کے بعد آپ سب ان مطالبات کے قابل ہوئے ہیں۔ اُن کے بارے میں ابھی تک کسی نے کچھ نہیں کہا۔ میرا پاکستان :”اجڑیاں باغاں دے گالڑ پٹواری“ کی مثال بن کر رہ گیا ہے۔ میں نے الیکشن سے پہلے بھی لکھا تھا کہ 1970 ء کے انتخابات سے لے کر 2018ء کے انتخابات تک پاکستانی عوام نے ہمیشہ کچھ نہ کچھ کھویا ہے اور 2024ء کے انتخابات بھی پہلے انتخابات سے مختلف نہیں ہو ں گے اور آج نتیجہ آپ کے سامنے ہے ۔
اِس تمام بے یقینی کے باوجود مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، استحکام پاکستان پارٹی اور دیگر چھوٹی جماعتیں مرکز میں حکومت بنا لیں گی اس کیلئے اُن کو مولانا فضل الرحمان کی بھی ضرورت نہیں لیکن مولانا کو اقتدار سے باہر رہنے کی عادت ہی نہیں۔ وہ تو ریمنڈ ڈیوس کے ایشو پر بھی اسمبلی سے باہر جائیں تو چند دنوں بعد واپس لوٹ آتے ہیں سو وہ ہر بننے والی حکومت کے ساتھ ہی ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف یا سنی اتحاد کونسل حکومت کا حصہ صرف آصف علی زرداری کی کوشش یا مہربانی سے بن سکتی ہے وگرنہ شاید اگلے الیکشن سے بہت پہلے چند لوگ ہی سینے پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ وہ تحریک انصاف یا سنی تحریک کا حصہ ہیں کیونکہ ابھی جن نوجوانوں نے بہت سی امیدوں پر ان امیدواروں کو جتوایا ہے جب وہ اِن کے کسی کام کے نہیں نکلیں گے تو مایوسی کی ایک لہر پھر دیکھنے کو ملے گی جو یقینا اِن آزاد جیتنے والے امیدواروں کے خلاف ہو گی ۔مستقبل قریب میں سنی اتحاد کونسل میں جمع ہونے والے آزاد امیدواروں میں سے کچھ ابھی دوسری سیاسی جماعتوں میں جائیں گے اورایک جگہ اکھٹے ہونے والوں میں سے ایک چمکتا دمکتا فاروڈ بلاک ابھرتے سورج کی طرح نمودار ہو گا اور سارے سیاسی منظر نامے کو منور کردے گا ۔ یہ ہرگز میری خواہش نہیں تجزیہ ہے جس کے پیچھے کچھ سائنسی اصول، کچھ ہماری سیاسی تاریخ، کچھ خبریں اور کچھ ذرائع شامل ہیں ۔ نئی بننے والی اسمبلی کے بارے میں کوئی خوش فہمی میں نہ رہے وہ اپنی مدت پوری کرے گی البتہ اقتدار میوزکل چیئر بن سکتا ہے لیکن اُس سے اسمبلی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا جو بھی ہو گا باہمی رضا مندی سے طے پائے گا ۔ سب اپنا اپنا حصہ بقدرِ جثہ وصول پائیں گے سوائے پاکستانی عوام کے ۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے رستے میں کوئی رکاوٹ نہیں بالکل اُسی طرح جیسے تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کو خیبر پختون خوا میں سوائے تحریک انصاف کے کوئی دوسرا حکومت بنانے سے نہیں روک سکتا ۔بلوچستان کی حکومت کیلئے سیاسی سے زیادہ عسکری تجزیے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اگر مولانا فضل الرحمان کو مضبوط اتحادی کے طور پر ساتھ رکھنا ہے تو اُسے بلوچستان دیا جا سکتا ہے ورنہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن وہاں بھی حکومت بنا سکتی ہے کیونکہ بلوچستان کے آزاد امیدواروں پر آصف علی زرداری کا سیاسی اثر زیادہ ہے اگر آصف علی زرداری سے زیادہ اثر والے کام نہ کرگئے تو ۔ پنجاب حکومت کا ڈارک ہارس آج بھی عبد العلیم خان ہے اور جس رفتار سے آزاد امیدوار استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت کر رہے ہیں ممکن ہے پنجاب حکومت بنانے کیلئے استحکام پارٹی کے علاوہ کوئی ہتھیار کارگر نہ رہے کیونکہ ہر گزرتا دن استحکام پاکستان پارٹی کے ایم پی اے کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے اور دوسری طرف تحریک انصاف کے اندر سے بھی عبد العلیم خان کی حمایت میں وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں اور اگر مسلم لیگ ن محترمہ مریم صاحبہ کے بارے میں پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے فیصلے کو حتمی قرار دے چکی ہے اور مرکز اور پنجاب مسلم لیگ ن اپنے ہی پاس رکھنا چاہتی ہے تو یہ گھاٹے کا سودا اگر آج نہیں تو کل کبھی بھی مسلم لیگ ن کے حق میں نہیں ہو گا بلکہ مرکز میں بھی اُن کیلئے سوائے مشکلات پیدا کرنے کے اور کچھ نہیں کرے گا لیکن اِس میں مسلم لیگ کا تو جتنا نقصان ہونا تھا وہ تو اِس الیکشن میں ہی ہو چکا رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی۔ سیاست کی دوستیاں گلی محلے یا سکول کے پہلے دن کے دوستوں جیسی نہیں ہوتیں۔ یہ مفاداتی رشتے ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کو اپنے تمام فیصلوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے اس سے پہلے کہ اُس کے ہاتھ سے بہت کچھ نکل جائے۔ آصف علی زرداری سب سے رابطے میں ہیں اور پیپلز پارٹی کیلئے اچھی ڈیل تیار کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے اگر آصف علی زرداری پراندھا اعتماد کیا تو اِن کا حال بھی وہی ہو گا جو پاکستانی قوم کا پاکستان کے نالائق سیاستدانوں پر اندھا اعتماد کرکے ہوا ہے اور یہ اعتماد وہ ایک بار پھر کرچکے ہیں اور اب انہوں نے صرف اپنے اِس اندھے اعتماد کے مضمرات کا سامنا کرنا ہے۔ پاکستان ہمارا سب کچھ ہے خدا اِسے سلامت رکھے کہ یہ ہماری آخری پناہ گاہ ہے اور ایک جعلی، غیر فطری اورغیر منطقی سی بے یقینی کی آغوش میں ہے۔
تبصرے بند ہیں.