دیگر مسائل تو اپنی جگہ لیکن اب اس مسئلہ کا کیا کریں کہ ”میں نہیں تو کوئی نہیں“۔ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کوئی پہلی مرتبہ تو نہیں لگ رہے یہ کار خیر تو ہر الیکشن کے بعد ہوتا آیا ہے لیکن کچھ مختلف انداز میں ۔ 1977کے انتخابات میں دھاندلی پر قومی اتحاد نے تحریک چلائی تو اس تحریک میں شامل 9ستاروں کو بھی بخوبی علم تھا کہ انھیں روشنی کہاں سے مل رہی ہے اور ان سب کو اس بات کا بھی بخوبی ادراک تھا کہ جن غیر جمہوری قوتوں کی انھیں سر پرستی حاصل ہے وہ ان کے دامن کو تار تار تو کر سکتی ہیں لیکن اقتدار کا ہما ان کے سر پر نہیں بیٹھنے دیں گی اور پھر یہی ہوا کہ جنرل ضیاء 90 روز کے وعدے پر مارشل لاء لگا کر گیارہ سال اس ملک پر مسلط رہے اور وہی جماعتیں جنھوں نے بھٹو حکومت کے خلاف تحریک چلائی تھی انھیں ہاتھوں سے لگائیں گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑیں لیکن اس دوران ملک و قوم کا جو نقصان ہوا وہ آج تک پورا نہیں ہو سکا اور انتہا پسندی کے جن زہریلے پودوں کی اس دور میں آبیاری کی گئی وہ عرصہ ہوا تن آور درخت بن کر ملک و قوم کو ڈس رہے ہیں ۔ ہم ہمیشہ بغیر کسی لگی لپٹی ایک بات کہتے ہیں کہ ماضی سے اگر کسی جماعت نے کچھ سبق سیکھا ہے تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہے یہی وجہ ہے کہ 1988میں حکومت میں آنے کے بعد اس نے افواج پاکستان کو تمغہ جمہوریت دیا اور 1990کے انتخابات پر تمام تر تحفظات کے باوجود بھی اس نے نظام کو چلنے دیا ۔ اس وقت اس کے پاس احتجاج کی طاقت بھی تھی اور وہ ملک کی مقبول ترین جماعت بھی تھی ۔ اس کے برعکس 2013 کے انتخابات کے بعد جس طرح 35پنکچرز کے نام پر ملک میں ڈیڈ لاک پیدا کیا گیا اور ایک نیوکلیئر پاور کے ملک کے دارالحکومت کو 126دن تک جام کیا گیا اور اسی دوران چین جیسے دوست جو دنیا کی ایک بڑی معاشی طاقت بھی ہے اس کے صدر کو انھی دھرنوں کی وجہ سے اپنا دورہ منسوخ کرنا پڑا۔ میاں نواز شریف کو بھی پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن سے بالا بالا سپریم کورٹ سے نا اہل قرار دے کر وزارت عظمیٰ سے فارغ کر کے گھر بھیجا گیا تو انھوں نے یقینا جی ٹی روڈ پر احتجاج کرتے ہوئے گھر کی راہ لی تھی لیکن اس کے بعد نظام کو چلنے دیا تھا لیکن اس کے بر عکس 2022 میں عمران خان کو ایک آئینی طریقے عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فارغ کیا گیا تو اس کے بعد ہر دوسرے دن جلسہ اور سب سے بڑھ کر آئی ایم ایف سے معاملات میں بگاڑ پیدا کرنے کے لئے جس طرح شوکت ترین سے پنجاب اور خیبر پختون خوا کے وزرائے خزانہ کو کالیں کرائی گئیں تو یہ ایک عملی ثبوت تھا کہ ”میں نہیں تو کوئی نہیں“۔ انتہائی حیرت کی بات یہ ہے کہ کالز کرنے والے کے خلاف آج تک کسی کو کوئی اقدام کرنے کی جرأت نہیں ہوئی ۔
اب 2024 کے انتخابات میں ایک لمحہ کے لئے مان لیتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے تو کیا اس کے لئے الیکشن کمیشن سے لے کر اعلیٰ عدلیہ تک فورمز موجود نہیں ہیں ۔ ہم نے اپنے گذشتہ سے پیوستہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ 2022 میں دو مرتبہ ہوئے ضمنی انتخابات میںتین چوتھائی اکثریت کے ساتھ جیتنے کے باوجود بھی خان صاحب نے الیکشن کمیشن پر دھاندلی کے الزامات لگائے تھے اور موجودہ الیکشن میں بھی سب سے زیادہ نشستیں جیتنے کے باوجود بھی دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ دھاندلی نہیں ہوئی بالکل ہوئی ہو گی لیکن اب تو یہ آوازیں بھی اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ ایک مرتبہ خیبر پختون خوا کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں میں بھی دوبارہ گنتی کرائی جائے تاکہ وہاں بھی پتا چلے کہ کس حد تک شفافیت تھی لیکن یہاں تو مسئلہ یہ ہے کہ راولپنڈی کا کمشنر ایک بیان دیتا ہے تو ہمارا پورا نظام تھر تھر کانپ اٹھتا ہے۔ پورے میڈیا پر بریکنگ نیوز کا سیلاب آ جاتا ہے لیکن بندہ پوچھے کہ کیا کمشنر صاحب نے کوئی ٹھوس رہنے دیں عام ثبوت بھی میڈیا کے سامنے پیش کئے تھے ۔ اس کا مطلب میڈیا اور نظام کو تو ایک طرف رکھیں کہ میڈیا کے بھی اپنے مفادات ہوتے ہیں اور اس کا پیٹ انہی بریکنگ نیوز سے بھرتا ہے لیکن بحیثیت قوم ہمارا اپنا کیا رویہ رہا ہے ۔ کیا ہم بھی عقل و دانش کے حوالے سے اسی مقام پر نہیں کھڑے ہوئے کہ جہاں وہ شخص کھڑا تھا کہ جس کو بتایا گیا تھا کہ اس کے کان کتا لے گیا ہے۔ ہمیں ہر وہ بات کہ جو ہمارے مطلب کی ہوتی ہے وہ کوئی کالا چور بھی آ کر بتاتا ہے اور بنا کسی ثبوت کے آ کر بتاتا ہے تو ہم آنکھیں بند کر کے صرف یقین ہی نہیں کرتے بلکہ یقین محکم کی منزل پر پہنچ کراس کے فضائل بھی بیان کرنے شروع کر دیتے ہیں۔
پاکستان اس وقت جن مشکل ترین معاشی مسائل سے دو چار ہے انھیں مکمل طور پر نظر انداز کر کے ایک مرتبہ پھر 2013 کے انتخابات کے بعد والا ماحول بنایا جا رہا ہے ۔ تحریک انصاف کا مختلف مذہبی جماعتوں سے اتحاد بلا وجہ نہیں ہے بلکہ اگر بات دھرنوں تک پہنچی تو ان جماعتوں کے پاس مدارس کے بچوں کی صورت میں جو طاقت ہے اس سے وہی کام لیا جائے گا جو 2013 کے دھرنوں میں علامہ طاہر القادری سے لیا گیا تھا لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ 2014 اور اس کے بعد 2022 میں بھی ہماری معیشت کچھ بوجھ برداشت کر سکتی تھی لیکن اس وقت ہماری معیشت مکمل طور پر بستر مرگ پر ہے اب اگر ملک میں ڈیڈ لاک پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو خاکم بدہن ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا مشکل ہو جائے گا اور شوکت ترین کی کالز کو ذہن میں رکھیں تو ”میں نہیں تو کوئی نہیں“ والی ذہنیت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ وہ اس بات کو بھی اپنی فتح کا بیانیہ بنا کر مخالفین کی تذلیل کا سامان پیدا کرنے کی کوشش کریں گے ۔جو صورت حال بن چکی ہے اس میں کسی کے ساتھ زیادتی بالکل بھی نہیں ہونی چاہئے لیکن ملک و قوم کے ساتھ کھلواڑکی اجازت بھی کسی کو نہیں ہونی چاہئے۔
تبصرے بند ہیں.