کوئی دو رائے نہیں کہ حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے کسی نوعیت کی پابندی دیکھنے میں نہیں آئی۔ امن و امان کو یقینی بنانے کے ساتھ اِس امر کو بھی یقینی بنایا گیا کہ ووٹر آزاد مرضی سے رائے دے سکیں جس کا نتیجہ ہے کہ انتخابی نشان بلا چھن جانے کے باوجود پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اُمیدوار اتنی بڑی تعداد میں منتخب ہوئے کہ دونوں بڑی جماعتوں کے اُمیدواروں پر برتری مل گئی ہے۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس سے کسی بھی جماعت کے لیے قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت ثابت کرنا مشکل ہو گیا ہے اور اب ہر جماعت زیادہ سے زیادہ سودے بازی کی کوشش میں ہے۔ مسلم لیگ ن کو پیپلز پارٹی حکومت بنانے کا مشورہ تو دے رہی ہے مگر وزارتیں لینے کے بجائے اپوزیشن نشستوں پر بیٹھا چاہتی ہے جس سے یہ تاثر گہرا ہو رہا ہے کہ حالیہ عام انتخابات سے سیاسی استحکام کی توقعات ادھوری رہ سکتی ہیں اور ایک کمزور سی حکومت تشکیل پانے کا امکان ہے۔ یہ صورتحال کسی طور مناسب نہیں ملک کو جن گمبھیر مسائل کا سامنا ہے انہیں حل کرنے کے لیے ایک کمزور حکومت مزید خرابیوں کا باعث بن سکتی ہے۔ سیاستدان کسی عالمی طاقت کا آلہ کار بننے کے بجائے ظرف کا مظاہرہ کریں اور سیاسی مفاد سے بالاتر ہو کر قومی مفاد کو پیشِ نظر رکھیں۔
اِداروں کا اولیں فرض ریاست مخالف قوتوں کی مذموم سازشیں ناکام بنانا ہے اِس حوالے سے قابلِ قدر اور قابلِ تعریف کام کیا جا رہا ہے مگر کچھ عرصہ سے مقتدرہ کے خلاف بیانیہ عوام میں پذیرائی حاصل کرنے لگا ہے جس میں سیاستدانوں کا کلیدی کردار ہے۔ میمو گیٹ سکینڈل اور آصف زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی لیکن جلد ہی زہر ناکی کا احساس ہو گیا اور کسی حد تک تعلقات بہتر بنا لیے۔ اقتدار سے محرومی کے بعد نوازشریف نے بھی عسکری قیادت کو مسلسل ہدفِ تنقید بنایا اور ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بلندکرتے رہے۔ اِس بیانیے کی بدولت مسلم لیگ ن نے ضمنی انتخابات میں کامیابیاں بھی حاصل کیں لیکن تحریکِ عدمِ اعتماد کی کامیابی کے بعد مسلم لیگ ن نے اپنے بیانیے پر نظرثانی کر لی اور اِداروں کی لاڈلی بن گئی۔ اقتدار کے دوران کچھ ایسے غیر مقبول فیصلے کیے جس سے عام آدمی کی زندگی ابتر ہوتی گئی، انہی فیصلوں کا نتیجہ ہے کہ حالیہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن اور پی پی کئی ایسی نشستیں بھی ہار گئیں جن کے بارے میں کبھی ایسا قیاس بھی نہیں کیا جا سکتا تھا جبکہ پی ٹی آئی انتخابی نشان سے محروم ہونے کے باوجود جیت گئی کیونکہ مسلم لیگ ن اور پی پی اِس وقت مقتدرہ کے قریب سمجھی جاتی ہیں۔ اسی لیے کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ مقتدرہ کا لاڈلا ہونا انہیں لے ڈوبا ہے حالانکہ یہ تاثر حقائق کے برعکس ہے اور سچی بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کی ناقص کارکردگی اور غیر مقبول فیصلوں کا ناکامی میں کلیدی کردار ہے۔ بہتر یہ ہے کہ مقتدرہ کے خلاف بننے والے تاثر کو دور کرنے کے لیے سیاستدانوں تعمیری کردار ادا کریں عالمی طاقتیں جب کسی ملک کو انتشار و افراتفری کا شکار کرتی ہیں تو ابتدا میں اِداروں کے خلاف نفرت کو ہوا دیتی ہیں جس کا محب الوطنی کے دعویداروں کو ادراک ہونا چاہیے۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان ایک سے زائد بار کہہ چکے ہیں کہ تحریکِ عدم ِ اعتماد سابق عسکری سربراہ قمر باجوہ کے ایما پر پیش کی گئی جسے پی ڈی ایم نے ہمیشہ جھٹلانے کی کوشش کی لیکن حالیہ عام انتخابات میں بُری طرح شکست سے دوچار ہونے والی جماعت جمعیت علمائے پاکستان ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا اب یہ کہنا ہے کہ جنرل (ر) قمر باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید کے کہنے پر عدمِ اعتماد کی قرارداد پیش کی گئی۔ اِس کے ساتھ ہی ایک احتجاجی تحریک کی تیاریوں میں ہیں مزید یہ کہ عمران مخالف سخت گیر موقف کے حوالے سے مشہور مولانا فضل الرحمن کا اچانک مسلم لیگ ن کی حکومت میں شامل ہونے سے انکار کرنے کو بھی سیاسی نبض شناس ایک ایسی اہم پیش رفت قرار دیتے ہیں جو باعثِ تعجب ہے۔ مولانا ہی نہیں جی ڈی اے کے سربراہ حروں کے روحانی رہنما پیر پگارہ بھی اپنی شکست کا ذمہ دار مقتدرہ کو قرار دیتے ہوئے احتجاج کا اعلان کر چکے ہیں جس سے حالیہ عام انتخابات سے ایک تو سیاسی استحکام کا خواب پورا ہونا مشکل ہو سکتا ہے بلکہ مقتدرہ سے قریبی روابط رکھنے کے دعویدار کئی اہم سیاستدان بدظن ہو سکتے ہیں۔ انتخابی نتائج کے اثرات کا ہمہ گیر جائزہ لیا جائے تو سب سے زیادہ نقصان مقتدرہ کو ہوا ہے نہ صرف پی ٹی آئی گرج برس رہی ہے بلکہ مقتدرہ کے پسندیدہ ترین ہونے کے دعویدار مولانا فضل الرحمن سمیت کئی اور اہم رہنما بھی مداخلت کا الزام لگا کر ہدفِ تنقید بنانے لگے ہیں، یہ روش بہت خطرناک ہے جس کا ادراک کرنا لازم ہے وگرنہ دیکھا دیکھی یا نادانستگی میں دیگر سیاستدان بھی کسی عالمی قوت کے ایجنڈے کا حصہ بن سکتے ہیں۔
عام انتخابات کے نتائج کے بعد دوسری بڑی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ پی ٹی آئی اور جمعیت علمائے پاکستان ف کے درمیان قربتیں بڑھنے لگی ہیں۔ مولانا کی جماعت نہ صرف عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہنے کا بیانیہ ترک کر چکی بلکہ ملک مخالف کہنے کے بجائے اب محب الوطن اور انتخابی فاتح ہونے کا اقرار کرنے لگی ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی بھی ڈیزل کا بیانیہ بھلا چکی ہے۔ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی طرف راغب ہونے کے لیے اِس قدر بے چین ہیں کہ پہلی ملاقات ہی انہیں قریب تر لے آئی ہے۔ یہ سیاسی منظر نامہ کافی حیران کن ہے۔ اِس سے ایک تو ثابت ہو گیا ہے کہ سیاستدان بغیر سوچے سمجھے بولتے ہیں اور ضرورت اور مفاد کے مطابق پشیمان ہوئے بغیر بیانیہ بدل بھی لیتے ہیں۔ فہمیدہ حلقوں کا خیال ہے کہ سیاسی فائدے کے لیے مقتدرہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ رجحان تشویشناک ہے۔ اغیار کا آلہ کار بن کر اپنے ہی اِداروں کے خلاف رائے بنانا ملک و قوم کے مفادکے منافی ہے۔
عیاں حقیقت ہے کہ ملک میں امریکہ مخالف رائے عامہ مستحکم ہو رہی ہے پی ٹی آئی بھی عوامی مزاج بھانپ کر ہی امریکہ مخالف قوتوں کا حصہ بننے والی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی حمایت سے منتخب ہونے والے ممبرانِ قومی اسمبلی جلد ہی مجلس وحدت المسلمین میں شامل ہو نے والے ہیں اِس کا مقصد سیاسی وزن امریکہ مخالف قوتوں کے ساتھ ملا کر اُنہیں مضبوط اور طاقتور بنانا ہے۔ قبل ازیں جماعتِ اسلامی کا حصہ بننے کی کوشش بھی ہوئی مگر بات نہ بنی کیونکہ اول تو جماعت نے ایسی کسی کوشش کی زیادہ حوصلہ افزائی نہ کی، دوم پی ٹی آئی کو ایسا محسوس ہوا کہ جماعت کی قیادت شاید مقتدرہ کے مخالف جانے سے گریز کرے اور ممکن ہے کسی بھی وقت دھوکہ دے جائے۔ اس لیے مجلس وحدت المسلمین کی طرف جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ شاید ایسا کرنے سے ایران کی طرف سے ہمدردی ملنے کی آس ہو کیونکہ وہ امریکہ مخالف ممالک میں نمایاں ترین ہے۔ پی ٹی آئی نے سوچ سمجھ کر مجلس کی طرف جانے کی چال چلی ہے جو نہایت خطرناک ہے اِس سے ملک میں بے چینی، بے یقینی اور بدامنی کا خدشہ ہے۔ فہمیدہ حلقوں کا موقف ہے کہ چین اور امریکہ کی محاذ آرائی پاکستان تک آ پہنچی ہے اور دونوں قوتوں کے حمایتی صفیں درست کرنے لگے ہیں۔ اِس دوران اِداروں کے خلاف منظم مُہم چلائے جانے کا خدشہ بھی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ کسی کا آلہ کار بننے کے بجائے سیاستدان مل بیٹھ کر ایک ایسی وسیع تر حکومت تشکیل دیں جس سے نہ صرف سیاسی استحکام آئے بلکہ ملک کو معاشی دلدل سے بھی نکالا جا سکے۔
تبصرے بند ہیں.