عام انتخابات 2024ء کے نتائج لگ بھگ مکمل ہوئے۔ ایسے میں کچھ خواب و خواہشات ہیں تو کچھ حقائق ہیں۔تاہم سچائی تو یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے اکثریت حاصل کرنے کے تمام دعوئوں کے باوجود پی ٹی آئی قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں موجود نہیں ۔ یعنی یہاں اپنا وجود کھو چکی ہے ۔ پی ٹی آئی چاہے آزاد اُمیدواروں کے ساتھ اپنی حمایت یافتگی کے لاکھ دعوے کرے تاہم یہ حقیقت بھی روز روشن کی مانند عیاں ہے کہ آزاد اُمیدوار بہرحال آزاد اُمیدوار ہی ہیں جو آنے والے دنوں میںاگر اسمبلی میں موجود دیگر سیاسی جماعتوں کی صفوں میں شامل ہوتے ہیں تو ان پر کوئی قانونی یا آئینی قدغن نہیں ہوگی۔
یہاں یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر انتخابات 2018ء اور انتخابات 2024ء کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو امر طشتِ ازبام ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے دعوئوں کے برعکس کہ اس نے ملک بھر میں اکثریت حاصل کی اور عوا م نے اس کے حق میں فیصلہ کردیا ہے، اعدادو شمار یہ بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اُمیدواروں کی تعداد پہلے سے کم ہوئی ہے۔عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے ووٹرز میں معمولی اضافہ ہوا جبکہ ن لیگ۔ پیپلز پارٹی کے ووٹرز میں 10 لاکھ سے زائد ووٹرز کا اضافہ ہوا۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی 24 سیٹیں کم جبکہ ن لیگ کی 5 اور پیپلز پارٹی کی 11 سیٹیں بڑھ گئی ہیں۔ پنجاب اور سندھ اسمبلی میں بھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی سیٹوں میں اضافہ ہوا۔
گزشتہ پانچ سال میں پاکستان میں اڑھائی کروڑ ووٹرز کا اضافہ ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف جو خود کو نوجوانوں کی نمائندہ جماعت سمجھتی ہے۔ اعدادوشمار سے وہ بات سچ ثابت نہیں ہوتی۔ الیکشن 2018 میں تحریک انصاف کو ایک کروڑ 68 لاکھ ووٹ ملے۔ جبکہ الیکشن 2024 میں ایک کروڑ 70 لاکھ ووٹ پڑے۔ اس حساب سے نئے بننے والے اڑھائی کروڑ ووٹرز میں سے تحریک انصاف کے صرف 2 لاکھ ووٹرز کا اضافہ ہوا ہے۔ الیکشن 2018 میں ن لیگ نے ایک کروڑ 28 لاکھ ووٹ حاصل کئے جبکہ الیکشن 2024 میں ن لیگ کو ایک کروڑ 47 لاکھ ووٹ ملے۔ اس طرح اڑھائی کروڑ نئے ووٹرز میں سے ن لیگ کے 12 لاکھ ووٹرز کا اضافہ ہوا۔ الیکشن 2018 میں پیپلز پارٹی کو 69 لاکھ ووٹ ملے تھے جبکہ الیکشن 2024 میں 85 لاکھ ووٹ لینے میں کامیاب ہوئی۔
اس طرح اڑھائی کروڑ نئے ووٹرز میں سے پیپلز پارٹی کے 11 لاکھ نئے ووٹرز کا اضافہ ہوا۔ الیکشن 2018ء میں قومی اسمبلی میں تحریک انصاف نے 116 سیٹیں حاصل کی تھیں ۔تاہم الیکشن 2024ء میں قومی اسمبلی میں تحریک انصاف/ آزاد کی 92 سیٹیں ہیں۔ اس طرح تحریک انصاف کی 24 سیٹیں کم ہوئیں۔ الیکشن 2018 میں ن لیگ کی قومی اسمبلی میں 74 سیٹیں تھیں جبکہ الیکشن 2024 میں 79 سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ اس طرح ان انتخابات میں ن لیگ کی 5 سیٹوں میں اضافہ ہوا۔
الیکشن 2018 میں قومی اسمبلی پیپلز پارٹی کی 43 سیٹیں تھیں جبکہ الیکشن 2024 میں پیپلز پارٹی 54 سیٹیں ہیں۔ اس طرح پیپلز پارٹی کی 11 سیٹوں میں اضافہ ہوا۔ الیکشن 2018 تحریک انصاف پنجاب اسمبلی میں 122 سیٹیںحاصل کرسکی۔ الیکشن 2024 پنجاب اسمبلی میں یہ نمبر 116 رہا۔ اس طرح 6 سیٹیں کم ہوئیں۔ الیکشن 2018 میں پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کی 127 سیٹیں تھیں جبکہ الیکشن 2024 میں پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کی 138 سیٹیں ہیں۔ اس طرح پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کی 11 سیٹوں میں اضافہ ہوا ہے۔
الیکشن 2018 میں پنجاب اسمبلی کی پیپلز پارٹی 6 سیٹیں تھیں جبکہ الیکشن 2024 میں پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی 10 سیٹیں ہیں۔ اس طرح پیپلز پارٹی کی پنجاب اسمبلی میں 4 سیٹوں کا اضافہ ہوا ہے۔ الیکشن 2018 سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کی 23 سیٹیںتھیں الیکشن 2024 سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کو 7 سیٹیں ملیں۔ اس طرح سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کی 16 سیٹیں کم ہوئیں۔
الیکشن 2018 میں سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی 76 سیٹیں تھیں الیکشن 2024 میں سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی 83 سیٹیں ہیں۔ اس طرح پیپلز پارٹی کی 7 سیٹوں میں اضافہ ہوا ہے۔ الیکشن 2018 سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کی 16 سیٹیں تھیں۔ الیکشن 2024 میں سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کی 27 سیٹیں ہیں۔ اس طرح ایم کیو ایم کی 11 سیٹوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے یہ بہتر ہوگا کہ مرکز میں پی پی پی اور نواز لیگ مل کر حکومت بنائیں ۔ یہ ایک مضبوط اور اکثریتی حکومت ہوگی جو ایک کمزور اپوزیشن کی وجہ سے ملک کے وسیع ترین مفاد میں بہتر فیصلے کرنے اور ان پر عملدرآمد کرانے میں کامیاب رہے گی ۔ بہتر ہوگا کہ آصف علی زرداری ملک کی صدارت سنبھالیں اور نواز شریف وزیر اعظم بنیں۔ چیئرمین سینٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کی سیٹیں دونوں پارٹیاں باہمی طور پر تقسیم کر سکتی ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے شہباز شریف موزوں ترین شخصیت ہیں۔ بلاول بھٹواور مریم نواز وفاقی کابینہ میں اپنا کردار اداکریں تو زیادہ بہتر ہو گا۔ اس طرح سندھ میں پی پی پی اور بلوچستان میں دونوں پارٹیاں مل کر حکومت بناسکتی ہیں۔ ایم کیو ایم اور جے یو آئی ف جہاں وفاق میں ساتھ شامل ہوسکتی ہیں تو وہاں پنجاب اور سندھ کی گورنری بھی ان جماعتوں کو دی جاسکتی ہے۔ جہاں تک خیبر پختونخوا حکومت کا تعلق ہے تو وہاں بھی پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اُمیدوار کسی نہ کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوکر حکومت بنا پائیں گے۔ عوام کو ایسے عناصر سے لاتعلقی کرنا ہوگی جو یہ کہتے ہیں کہ اگر انہیں اقتدار نہ ملا تو وہ ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے، سب کچھ جلادیں گے اور سب کچھ برباد کر دیں گے۔
تبصرے بند ہیں.