عام انتخابات کے پرامن انعقاد کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے دو تہائی اکثریت ملنے کے دعوے صرف دعوے ہی رہے آزاد امید واروں کے میدان مارنے پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے سیاسی ہانڈی پکانے کیلئے گھوڑے دوڑا دئیے ہیں اب ایک بار پھر چھانگا مانگا اور مری کی سیاست شروع ہو گئی ہے جو جتنا ”مول“ لگائے گا بکائو مال ان کے در پر زیادہ ”متھا“ ٹیکیں گے کیونکہ خریداروں کے اسلام آباد کے بعد لاہور ڈیرے ہیں ،الیکشن مہم میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے والی پیپلز پارٹی اور ن لیگ اب اقتدار کیلئے بغل گیر ہو گئی ہیں اور وہ چیچو چیچ گنڈیریاں دو تیریاں دو میریاں کے مصداق پی ڈی ایم ٹو کی طرز پر ایک بار پھر پانچوں گھی میں ڈال کر لٹ مار کرنا چاہتی ہیں، سطور کے چھپنے تک شائد کوئی کٹا کٹی نکال آئے گا اور انتقال اقتدار سیاست دانوں کا امتحان ہو گا، نئی حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہی بجٹ کی تیاری اور پہاڑ جتنے قرضے کی ادائیگی کا انتظام کرنا ہوگا جس کے لئے آئی ایم ایف کا نیا پروگرام ضروری ہوگا، تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے منشورمیں معیشت کواہمیت دی ہے اس لئے عوام کوامید ہے کہ نئی حکومت انھیں معاشی عذاب سے نکالنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات کرے گی، اس وقت مقامی اورغیرملکی قرضوں کی ادائیگی اور ان کا سود بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے، ان قرضوں کا حجم اور ان کا سود اتنا بڑھ چکا ہے کہ حکومت آپریشنل اخراجات کے لیے بھی قرضے لینے پر مجبور ہے، قرضوں کا حجم بڑھنے کی بنیادی وجہ ٹیکس سسٹم کی خرابی ہے، دوسری طرف نو مولود حکومت پھولوں نہیں کانٹوں کی سیج ہو گی اس لئے کہ ملک کا اصل مسئلہ مہنگائی ہے، بجلی گیس اور پانی کے بلز ہیں جبکہ پاکستان میں اکثریتی حکومت بنے یا اتحادی دونوں صورتوں میں مشکلات سوتے جاگتے پیچھا کریں گی اور آئی ایم ایف کے نئے بیل آئوٹ پروگرام کے سہارے کی ضرورت ہر صورت رہے گی ایک رپورٹ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو آئندہ 6 ماہ میں کئی بڑی ادائیگیاں کرنا ہو نگی ،جس کے لیے اسے لمبے عرصے کا بڑا قرض پروگرام چاہیے ہوگا، ملکی بیرونی قرضوں کی صورتحال غیریقینی اور غیرمستحکم ہے، شرح سود آئندہ 9 سے 12 ماہ میں کم ہوسکتی ہے،پاکستان سٹاک ایکسچینج حصص کی قیمتوں میں سیاسی، اقتصادی خدشات شامل ہونے اور عالمی مالیاتی بحران کے سبب تیزی سے کمی آئی ہے۔ ماضی میں حکمرانوں کی جانب سے سرمایہ پانی کی طرح بہانے کی وجہ سے قرضہ جی ڈی پی کے 82 فیصد کے برابر پہنچ گیا تھا جوکہ حکومتی محاصل سے 667 فیصد زیادہ ہے، یہ قرضہ ہماری برآمدات سے 328 فیصد زیادہ ہے، ملک کا قرضہ گزشتہ سات سال کے دوران دگنا ہوکر 124 ارب ڈالرتک پہنچ گیا ہے جس میں سے بائیس فیصد ایک سال سے کم عرصہ میں ادا کرنا ہے، ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے اب بھی اگر اصلاحات اور سخت فیصلے نہ کئے گئے تومعاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے، جمہوریت کی کامیابی اسی میں ہے کہ منتخب نمائندے روائتی اقدامات سے گریز کر کے آگے بڑھیں اور عوام مسائل پر توجہ دیں، عوام نے ووٹ ڈال کر اپنا فریضہ ادا کر دیا ہے اب اگلی باری حکومت سازی اور اس کے بعد اس حکومت کی ہے جو معرض وجود میں آ کر ملک کی باگ ڈور سنبھالے گی، معاشی حالات سدھارنے کے لئے ایک طویل جدوجہد اور پالیسی کی ضرورت ہو گی، جرأت مندانہ فیصلے کرنا ہوں گے اور روائتی اقدامات سے گریز کر کے آگے بڑھنا ہوگا تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے، سیاستدانوں کو ایک بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے مفاد کی خاطرملکی سلامتی کیخلاف کوئی بات نہ کریں جس طرح نو منتخب رکن سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ سیاسی مخالفین اپنی داڑھی کسی اور کے ہاتھ میں نہ دیں، بانی چیئرمین پی ٹی آئی کو رہا کیا جائے ،مشرقی پاکستان سے سبق سیکھنا چاہیے ،1971 سے سبق سیکھیں اس طرح کی گفتگو سے انارکی پھیلے گی جبکہ ملک اس طرح کے بیانات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ جب ملک انتشارکا شکار ہے اور ہمارے ہمسائے ہمیں نگل جانے کے درپے ہیں ایسی صورتحال میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کا خطاب تازہ ہوا کا جھونکا ہے جس میں کہا ہے کہ سب پارٹیوں، فرد واحد اور آزاد امیدواروں کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں اور انہیں دعوت دیتے ہیں کہ ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لیے ہمارے ساتھ مل کر حکومت بنائیں، ہم بار بار انتخابات کرانے کے متحمل نہیں ہو سکتے، یہ سب کا پاکستان ہے، اکیلا مسلم لیگ ن کا نہیں، سب کو مل کر یکجہتی کے ساتھ ملک کو مشکلات سے باہر نکالنا چاہیے، ہم ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر کریں گے نواز شریف کی تقریر خوش آئند ہے اسے سراہنا چاہیے، اگر آپ عوام کو بجلی، گیس، پانی کے بھاری بھرکم بلوں میں ریلیف نہیں دیں گے تو پھر عوامی ردعمل کے لئے ہر وقت تیار رہیں جو بھی حکومت آئے اس کو چاہیے کہ وہ عوام کو بجلی، گیس اور پانی کے بھاری بھرکم بلوں سے نجات دلوائے اگرعوام پر مہنگائی بم برسانے کا سلسلہ بند نہ کیا گیا تو پھر آپ کو عوام کے ردعمل کا اسی طرح سے سامنا کرنا پڑے گا، بجلی تیل اور گیس کی قیمتیں عوام کو زندہ درگور کر رہی ہیں ، ایک طرف آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے، نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہا ہے جبکہ دوسری طرف ایک دو خاندان دونوں ہاتھوں سے ملکی وسائل لوٹ رہے ہیں جنھیں روکنے والا کوئی نہیں ،دیگر ممالک اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے قرضے لیتے ہیں جبکہ پاکستان میں عیاشیوں کے لئے قرضے لئے جاتے ہیں جن کا سارا بوجھ عوام کو اٹھانا پڑتا ہے،قرضوں پر غیر ضروری انحصار نے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، اب ملک کو دانشمندانہ معاشی پالیسیوں کی ضرورت ہے، پاکستان آئی ایم ایف سے تئیس بار اور دیگر اداروں و ممالک سے سیکڑوں بار قرضے لے چکا ہے تاہم اگر ملکی نظام کو بہتر نہ بنایا گیا تو آئی ایم ایف کے مزید تئیس قرضے بھی ملک کو بچا نہیں سکیں گے، الیکشن آیا اور چلا گیا مگر سنگین اقتصادی مسائل اپنی جگہ کھڑے ہیں، مڈل کلاس ختم ہو رہی ہے، غریب کا زندہ رہنا دشوار ہو گیا ہے، نئی حکومت کو سیاست نہیں ملکی مفاد کو مقدم رکھنا ہو گا اور شہرت کمانے کے بجائے اکنامک مینجمنٹ پر توجہ دینا ہو گی، اقتصادی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی کے بغیر ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔
تبصرے بند ہیں.