آج 76 سال کی عمر کے وطن عزیز پاکستان میں 14ویں انتخابات کا انعقاد ہونے جارہا ہے۔ ان 76 سال میں یہ سرزمین چار مارشل لائی دور سے گزری، میجر جنرل سکندر مرزا، یحییٰ خان، ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے مجموعی طور پر تیس سال سے زائد عرصہ اس سرزمین پر حکمرانی کی، اگر یوں کہا جائے کہ جو بھی لنگڑی لولی جمہوریت کا دور رہا وہ صرف چالیس پینتالیس سے سال سے زائد نہیں ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔ ۔اور آج یہ ملک اپنے 14 ویں انتخابات کی طرف جا رہا ہے، کہا جاتا ہے کہ اب پاکستان کی سیاسی جماعتیں جمہوری ہو چکی ہیں، مگر فوجی آمروں کی پشت پر بھی اقتدار کی خواہش مند سیاسی جماعتیں یا افراد تھے جیسے پرویز مشرف کو وردی میں چند سیاسی جماعتوں نے ہی مسلط رکھا یہ سیاسی جماعتیں آج بھی موجود ہیں اور صبح سے شام تک جمہوریت کا راگ الاپتی ہیں اس سرزمین کے ساتھ بہت کھلواڑ ہوا ہے جس ملک میں چار موسم ہیں، عوام، کسان محنتی ہیں، جانباز ہیں، وہاں کی معیشت کا بیڑا غرق صرف اور صرف غیر مستحکم سیاست اور سیاست دانوںنے ہی کیا، سیاست دانوں کے اندر پوشیدہ اقتدار کی ہوس نے ہی فوجی آمروں کو مسلط ہونے کا موقع فراہم کیا جب اقتدار نہ ملے تو وہ افواج پاکستان کو ذمہ دار کہتے ہیں۔ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ سب سے بڑی جمہوریت کی دعویدار پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ شہید ذوالفقار علی بھٹو بھی ایک جمہوری مارشل لا کے وزیر اعظم رہے ”جمہوری مارشل لائ“ بھی ایک نئی ایجاد تھی۔ مرحوم پرویز مشرف کی بھی مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم و دیگر نے ہی وردی میں صدر بننے میں سرپرستی کی، آج کی مسلم لیگ ن بھی ایک جنرل کی پیٹھ پر سوار ہو کر آئی۔ تحریک انصاف کس طرح ساڑھے تین سال کیلئے اقتدار میں آئی وہ کہانی پرانی نہیں ہے۔ ان تین سال میں صرف حکومت نہیںکی گئی بلکہ ملک کی معیشت کو تباہی کے دھانے پر لانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو دوست ممالک سے دور رکھنے کے ایجنڈے پر بھر پور کام ہوا ، اور جب ہوا کا رخ تبدیل ہوا تو سارا الزام انہیںکے سر دھر دیا جن کے کندھے کا سہارا لیکر اقتدار میں آئے، پھر پاکستان کی افواج بھی اس بات پر اپنا ذہن بنا چکی تھی کہ سیاست کرنا سیاست دانوںکا کام ہے ماضی میںجوکچھ ہوا وہ صحیح نہیں تھا، تحریک انصاف نے وہاں بھی اپنی ٹانگ اڑائی کیونکہ ریفری کی انگلی پر کام کرنے والی جماعت نے فوجی سربراہ بھی اپنی مرضی کا لانا چاہا جو انکی سرپرستی کرتا رہے ، جب تحریک انصاف کی دال نہ گلی تو ایک آخری معرکہ کے طور پر 9 مئی کا مکروہ اقدام کر ڈالا، کتنے نوجوان خراب کر دیئے، گھروں کے اندر لڑائیاںپیدا کر دیں، انٹر نیٹ جو نوجوانوںکی تعلیم اور معلومات کا بہترین ذریعہ ہے ان نوجوانوں کو افواج پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنے پر مامور کر دیا اور سوشل میڈیا جو موبائل فون کے ذریعے ہر شخص کے ہاتھ میںہے، ذہنوں کو پراگندہ کیا۔ آج عسکری قیادت مکمل طور پر سرحدوں پر اپنے فرائض کی ادائیگی پر مامور اور اپنی جانوںکا نذرانہ دیکر پاکستان کے عوام کو سکون کی نیند فراہم کر رہے ہیں۔ ملک کے اندرونی حالات مخدوش ہوں تو چوہا بھی سر اٹھا لیتا ہے اور آنکھیں دکھاتا ہے۔ آج 8 فروری کو اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ عوام ملک کیلئے ایسی قیادت منتخب کریں جسے کسی کے ”کندھے“ کی ضرورت نہ ہو، ابتدا معیشت کی بحالی سے شروع ہو، جس پر نگران حکومت نے بھی کام کیا ہے اوراپنے اقتدار کے چند ماہ میں بیرون ملک بھی پاکستان کی خراب کی گئی ساکھ کو بہتر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ آج کروڑوں ووٹرز اگلی حکومت کے لئے اپنے نمائندوں کو ووٹ ڈالیں گے۔ پاکستان کو اس وقت جن نامساعد حالات اور چیلنجز کا سامنا ہے، اقتدار نئی حکومت کے لئے پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا ہار ہوگی۔ درپیش قومی مسائل و مشکلات پر قابو پانے کے لئے انتخابی مہم کے دوران کئے گئے پُرکشش دعوے اور وعدے کافی نہیں،انہیں عملی جامہ پہنانے کے لئے نہایت سنجیدہ اقدامات اور سخت محنت کی ضرورت ہوگی۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اس حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ معیشت کو قرار دیا ہے جو بلاشبہ تمام مسائل کی بنیاد ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ معیشت کے بعد دہشت گردی، سیاسی عدم استحکام اور خارجہ پالیسی پر توجہ دینا ہوگی۔ پاکستان میں اب تک ہونے والے ایک کے سوا تمام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے گئے جس سے بچنے اور صاف و شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لئے وفاق اور صوبوں میں نگران حکومتوں کے قیام کی گنجائش نکالی گئی تھی جو درحقیقت وقت کی منتخب حکومت کی نیت پر عدم اعتماد کے مترادف ہے۔ آئین میں نگران حکومت کی میعاد 90دن مقرر ہے جبکہ موجودہ نگرانوں کی مدت سیاسی عدم استحکام اور آئینی مسائل کی وجہ سے ایک سال سے بھی تجاوز کرچکی ہے نگران وزیر اعظم کا وعدہ ہے کہ جو بھی حکومت منتخب ہوئی اپنی کابینہ کے آخری اجلاس میں اس کے ساتھ بیٹھ کر سب کام اس کے حوالے کردیں گے۔ یہ ایک نئی روایت ہوگی۔ اس وقت پاکستان معاشی دیوالیہ پن کے قریب پہنچ چکا ہے جسے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرکے ٹالا جا رہا ہے۔ سیاست میں جس تحمل اور رواداری کی ضرورت ہے وہ نظر نہیں آ رہی اور یہ بات طے ہے کہ معاشی استحکام کے لئے سیاسی استحکام بنیادی ضرورت ہے اب یہ ووٹر کے ایمان اور دانش پر ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کیسے ادا کرتا ہے اور کسی بھی برادری ، دبائو ، لالچ سے بالا تر ہوکر ملک کی سالمیت کو سامنے رکھ کر اپنا ووٹ دے اوریہ تصور کرے کہ اسکا یہ ووٹ کسی برادری کو نہیں ۔ پاکستان اس تاریخ ساز الیکشن میں انتہائی عاجزی و انکساری سے التجا کرتا ہے کہ اس مرتبہ ووٹ کسی مخصوص خاندان اپنی برادری، پارٹی اور علاقے و زبان کو نہیں مجھے (پاکستان) کو دو یہ آپ سب کی پہچان آپ کے تشخص آپ کی پناہ گاہ، تحفظ آل اولاد اور آنے والی نسلوں کے فوری اور دوررس مفادات کا معاملہ ہے۔گو کہ سیاست دانوںنے اگر انکے خاندان کی کوئی تربیت تھی بد زبانی نہ کرنے کی اسکو بالائے طاق رکھ دیا جیسے بلاول اپنی خاندانی تربیت کو کھو چکا ہے۔ بلاول کو یہ سوچنا چاہئے کہ وہ تو وزیر اعظم شائد نہ بن سکے مگر ابا حضور کے صدر بننے کا مواقع ہیںانہیںضائع نہ کرے ۔ ووٹرز کو یہ جاننا ضروری ہے کہ اس تاریخی لمحے میں قوت، اخوت عوام کہاں مرتکز ہے اور کتنی مشکلات سے دوچار ہے آپ کا ووٹ معاشی و سیاسی عدم استحکام میں گھرے جکڑے پاکستان کو زور لگا کر نکالنے اور ہر صورت اسے قوت اخوت عوام کا فلاحی کرپشن فری اور مکمل عوام دوست پاکستان کی یقینی تشکیل کے لئے ہونا چاہئے آپکا یہ ووٹ کسی جماعت کو نہیں یہ تصور کریں کہ یہ ووٹ پاکستان کیلئے ہے۔ جب آپ یہ سوچیں گے تو آپ کی محب وطنی آپ کو صحیح فیصلہ کرنے کی قوت دیگی اور ان شأاللہ پاکستان مثبت راہ پر چل پڑے گا، آپ یہ سوچیںکہ ہمارے ساتھ بہت ہو چکا ہے اب طالع آزما بھی بس کریں اور قائداعظمؒ کی محنت کو رائیگا ںنہ کریں۔ آپ کو اللہ کا واسطہ ہے۔
تبصرے بند ہیں.