راولپنڈی، اسلام آباد کا انتخابی منظر نامہ…!

72

ضلع راولپنڈی کے قومی اسمبلی کے کل سات حلقوں میں سے NA-55 ، NA-56 اور NA-57 تین حلقے راولپنڈی شہر اور چھائونی کی آبادیوں پر مشتمل ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے PP-14 سے لے کر PP-19 تک چھ حلقے بھی اسی ذیل میں آتے ہیں۔ ان حلقوں کے انتخابی منظر نامے کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال کچھ اس طرح سامنے آتی ہے ۔ NA-55 جو راولپنڈی کینٹ کی گنجان آبادیوں پر مشتمل ہے یہاں سے مسلم لیگ ن نے اپنے ڈویژنل صدر اور روائتی طور پر مضبوط سمجھے جانے والے اُمیدوار ملک ابرار احمد کو ٹکٹ دے رکھا ہے۔ ملک ابرار احمد 2008ء اور 2013ء میں اس حلقے سے بطور ممبر قومی اسمبلی کامیاب ہوئے تھے جبکہ 2018 میں انہیں تحریکِ انصاف کے عامر کیانی کے مقابلے میں ناکامی سے دوچار ہو نا پڑا۔ تحریکِ انصاف نے اس حلقے سے سابقہ صوبائی وزیر راجہ بشارت کو اپنا اُمیدوار نامزد کر رکھا ہے تو مقابلے میں جماعتِ اسلامی کے ضلعی امیر سید عارف شیرازی اور تحریکِ لبیک پاکستان کے فیصل الحسن خان بھی موجود ہیں۔ ملک ابرار کے چھوٹے بھائی ملک افتخار احمد جو ماضی میں دو بار صوبائی اسمبلی کے ممبر رہے ہیں اس بار بھی اس حلقے کی ذیل میں آنے والے صوبائی اسمبلی کے حلقے PP-14 سے انتخاب لڑ رہے ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کے دوسرے حلقے PP-15 سے ملک منصو ر افسر مسلم لیگ ن کے ٹکٹ یافتہ ہیں جنہیں اس حلقے سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے ایک اور مضبوط خواہشمند راجہ حامد مختار پر فوقیت دے کر مسلم لیگ ن کا ٹکٹ دیا گیا ہے ۔ راجہ حامد مختار اپنے خاندانی پس منظر کی وجہ سے ایک مضبوط اُمیدوار گردانے جا سکتے ہیں کہ وہ تحریکِ انصاف کے اُمیدوار راجہ بشارت کے قریبی عزیز اور سابق تحصیل ناظم راولپنڈی رہے ہیں۔ پنڈی میں میری رہائش گاہ بھی اسی حلقے میں آتی ہے۔ میں گھر سے نکلوں تو مجھے ملک ابرار احمد، ملک منصور افسر، ملک افتخار احمد اور راجہ حامد مختار کے بینرز، ہولڈنگز اور پینا فلیکس اتنی بڑی تعداد میں سڑکوں کے آر پار بندھے اور کھمبوں پر لٹکتے نظرآتے ہیں کہ ماضی میں میں نے کسی انتخابی اُمیدوار کے اتنی بڑی تعداد میں بینرز یا پینا فلیکس نہیں دیکھے ہونگے۔ راجہ بشارت کے پینا فلیکس ضرور دکھائی دیتے ہیں لیکن اتنی تعداد میں نہیں البتہ جماعتِ اسلامی کے قومی اسمبلی کے اُمیدوار سید عارف شیرازی کے بینروں نے ضرور بہار بنا رکھی ہے۔ 8 فروری کو یہاں سے مسلم لیگ ن کے قومی اسمبلی کے اُمیدوار ملک ابرار احمد اور صوبائی اسمبلی کے اُمیدواروں ملک افتخار احمد اور ملک منصور افسر کی جیت کی توقع کی جارہی ہے۔ تاہم راجہ بشارت اور راجہ حامد مختار نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا معاملہ طے پا جاتا ہے جس کی توقع کی جاسکتی ہے اور اُس کے ساتھ تحریکِ انصاف کے نوجوان ووٹر جو اس حلقے میں بڑی تعداد میں موجود ہیں وہ ووٹ دینے کے لیے باہر نکل آتے ہیں تو پھر ملک ابرار اور ساتھیوں کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
NA-56 کی طرف آئیں تو راولپنڈی شہر کے گنجان آباد علاقوں پر مشتمل اس حلقے سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر محمد حنیف عباسی ، پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سمیرا گل، تحریکِ لبیک کے ٹکٹ پر سجاد اکبر عباسی، جماعتِ اسلامی کے ٹکٹ پر عمران شفیق ایڈووکیٹ، تحریکِ انصاف کے نامزد اُمیدوار شہریار ریاض اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ بلا شبہ مسلم لیگ ن کے حنیف عباسی ایک مضبوط اُمیدوار ہیں تو تحریکِ انصاف کے نامزد اُمیدوار شہریار ریاض بھی ایک مضبوط اُمیدوار گردانے جا سکتے ہیں کہ وہ زور شور سے اپنی انتخابی مہم چلائے ہوئے ہیں۔ عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد ماضی میں یہاں سے کئی بار قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہو چکے ہیں لیکن اس بار بظاہر اُن کے لیے حالات ساز گار نظر نہیں آتے کہ وہ خودسلاخوں کے پیچھے بند ہیں ۔ شیخ رشید احمد کی خواہش تھی کہ تحریکِ انصاف اس حلقے میں اپنا کوئی اُمیدوار نامزد نہ کرے لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور اب انہوں نے نیا یہ شوشہ چھوڑا ہے کہ شہریار ریاض کو تین کروڑ روپے کے عوض تحریکِ انصاف کا ٹکٹ ملا ہے۔ بہر کیف پنڈی کا یہ ایک ایسا روائتی حلقہ ہے جہاں سے حنیف عباسی کی کامیابی کے امکانات موجود ہونے کے باوجود حنیف عباسی ، شہریار ریاض میں سخت مقابلے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
NA-57 کا ذکر کریں تویہاں مسلم لیگ ن کے بیرسٹر دانیال چوہدری ، عوامی مسلم لیگ کے شیخ راشد شفیق، پیپلز پارٹی کے مختار عباس، تحریکِ لبیک کے چوہدری رضوان یونس، جماعتِ اسلامی کے خالد محمود مرزا اور تحریکِ انصاف کی سیمابیہ طاہر ستی مقابلے میں موجود ہیں۔ قومی اسمبلی کا یہ حلقہ جو راولپنڈی شہر اور چکلالہ کنٹونمنٹ کے علاقوں پر مشتمل ہے یہاں سے 2018ء کے انتخابات میں شیخ رشید احمد جنہیں تحریکِ انصاف کی مکمل حمایت حاصل تھی 1,17,719ووٹ لے کر کامیاب رہے تھے جبکہ اُن کے سب سے بڑے سیاسی حریف مسلم لیگ ن کے بیرسٹر دانیال چوہدری نے 91,312 ووٹ لیے تھے اب بھی دانیال چوہدری مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر مقابلے میں موجود ہیں لیکن شیخ رشید احمد کے نامزد اُمیدوار اُن کے بھتیجے شیخ راشد شفیق مقابلے میں موجود ہونے کے باوجود کسمپرسی کا شکار ہیں کہ شیخ رشید احمد اُن کے لیے اپنے کرتب اور جھوٹے سچے دعوے کرنے کے لیے موجود نہیں ہیں اور تحریکِ انصاف بھی اُن کی پشت پناہی نہیں کررہی ہے بلکہ اُس نے اپنی اُمیدوار نامزد کر رکھی ہے۔ اس حلقے سے تحریکِ انصاف سے تعلق توڑنے والے سابق ممبر صوبائی اسمبلی چوہدری عدنان بھی اُمیدوار ہیں وہ دانیال چوہدری جو مسلم لیگ ن پنڈی کے اہم رہنما سینیٹر تنویر چوہدری کے صاحبزادے ہیں کے روائتی حریف ہونے کے باوجود تحریکِ انصاف کے حامیوں کے ووٹ لینے میں کامیاب ہوتے ہیں تو اس کا فائدہ بیرسٹر دانیال چوہدری کو ہو گا۔ ویسے بھی دانیال چوہدری کی پوزیشن مضبوط سمجھی جاتی ہے کہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر سجاد خان جیسے متحرک اور برادری کا ووٹ رکھنے والے صوبائی اسمبلی کے اُمیدوار اُن کے ذیلی صوبائی اسمبلی کے حلقے سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
راولپنڈی اسلام آباد کے قومی اسمبلی کے حلقوں کا انتخابی جائزہ مکمل ہوا ۔ اسے حتمی نہیں سمجھا جاسکتا اس بات کے امکانات اور خدشات بہر کیف موجود ہیں کہ تحریکِ انصاف کے نوجوان ووٹرز اگر میدان میں نکل آتے ہیں تو پھر نتائج اس کے برعکس بھی ہو سکتے ہیں لیکن اس امرکو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ووٹنگ کے دن ووٹروں کو گھروں سے پولنگ اسٹیشن پر لانے اور اپنے حق میں ووٹ پول کرانے کے لیے جس طرح کی بھاگ دوڑ کی ضرورت ہوتی ہے تحریکِ انصاف سے وابستہ لوگ اس بار شاید اس کے تقاضوں کو پورا نہ کرسکیں۔ اس طرح تحریکِ انصاف کے نامزد اُمیدواروں کی کامیابی کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں ویسے بھی ملک کی مجموعی سیاسی فضا بھی اُن کی بجائے مسلم لیگ ن کے حق میں دکھائی دیتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.