ووٹ کی اہمیت

92

پاکستان میں عام انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں، ملک کے اہل ووٹروں میں سے ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے، جن کی عمریں 18 اور 35 سال کے درمیان ہیں، جن کی تعداد سب سے زیادہ 44فیصد ہے۔ الیکشن کمشن آف پاکستان (ای سی پی) کی آفیشل ویب سائٹ پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 11 ستمبر، 2023 تک رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ، 75 لاکھ، 27 ہزار، 87 ہے۔ ان میں خواتین ووٹرز کی تعداد پانچ کروڑ، 87 لاکھ، 40 ہزار، 453 جبکہ مرد ووٹرز کی تعداد چھ کروڑ، 87 لاکھ، 86 ہزار، 634 ہے۔ لہٰذاووٹ کی اہمیت کے حوالے سے اگر بات کر یں تو ووٹ معاشرتی، قومی اور اسلامی لحاظ سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جمہوری ملک میں یہ ’’اختیار‘‘عوام اْس وقت استعمال کرتے ہیں جب وہ اپنے لیے اگلی حکومت کا انتخاب کرتے ہیں۔ لہٰذااس جنرل الیکشن میں بھی اپنے ووٹ کا احتیاط سے استعمال ہی ملک کو ترقی کی جانب لے جائے گا۔ کیوں کہ آپ کے ووٹوں سے نئی حکومت نے وجود میں آنا ہے جس کی مدت پانچ سال ہو گی۔ ان پانچ برسوں میں یہ حکومت مختلف پالیسیاں بنائے گی۔ یہ پالیسیاں پاکستان کو مضبوط بھی کر سکتی ہیں۔ عوام میں خوشحالی بھی لا سکتی ہیں۔ انصاف بلاتاخیر کا خواب بھی پورا کر سکتی ہیں۔اس لیے کم از کم پرچی ڈالتے وقت تھوڑی دیر کے لئے اپنی وابستگیاں بھول کر غیر جانبدار ہو جانا ہے اور پھر اسی غیر جانبداری کے نتیجے میں آپ جس فیصلے پر پہنچیں اس کے مطابق اپنا حق رائے دہی استعمال کریں۔ لیکن افسوس کے ساتھ یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ ہر مرتبہ
ہمارے ہاں ووٹر ٹرن آؤٹ خطرناک حد تک کم رہتا ہے۔ خواتین کے لیے ووٹ ڈالنے میں سب سے زیادہ مسئلہ ہوتا ہے۔ گزشتہ انتخابات کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو بلوچستان ووٹر ٹرن آؤٹ کے حوالے سے سب سے پیچھے رہا ہے۔ دوہزار 18 کے انتخابات میں ٹرن آؤٹ 55 فیصد رہا۔ سب سے زیادہ 62 فیصد ٹرن آؤٹ اسلام آباد کا تھا، جہاں 3 لاکھ ووٹ کاسٹ ہوئے۔ دوسرے نمبر پر پنجاب رہا۔ 60 فیصد ووٹرز نے اپنا حق استعمال کیا جو 2
کروڑ، 87 لاکھ، 60 ہزار 265 بنتے ہیں۔ سندھ میں یہ تناسب 54 فیصد رہا، ووٹوں کی تعداد 97 لاکھ 82 ہزار 599 تھی۔خیبر پختونخوا میں 45 فیصد رہا، جہاں 54 لاکھ 76 ہزار ووٹ کاسٹ ہوئے۔ بلوچستان میں ٹرن آؤٹ 42.5 فیصد رہا اور 13 لاکھ سے زائد ووٹ کاسٹ ہوئے۔ فاٹا میں 5 لاکھ 8 ہزار لوگوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ یہ تناسب 36 فیصد بنتا ہے۔ اس کے برعکس دنیا بھر میںانتخابات کا ٹرن آؤٹ اگر دیکھا جائے تو بیشتر یورپی ممالک میں ووٹر ٹرن آؤٹ 70فیصد سے زائد رہتا ہے۔ حالیہ برسوں میں عام انتخابات جن ملکوں میں ہوئے ان میں ترکی ، ملائیشیا، میکسیکو وغیرہ شامل ہیں وہاں کا ٹرن آؤٹ حوصلہ افزا رہا اور نتائج بھی بہترین میسر آئے۔ دنیا بھر میں ووٹرز کو ’’پکڑنے ‘‘ اور ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جہاں ووٹ نہ ڈالنے والوں کو بھاری جرمانے، قید یا دونوں سزائیں بیک وقت دی جاتی ہیںلیکن ہمیں ان ممالک کے نقوشِ قدم پر نہیں چلنا۔ ہمیں ان لوگوں کو بھی ووٹ ڈالنے پر مائل اور قائل کرنا چاہیے جو کندھے اْچکا کر کہتے ہیں: ہم توووٹ کسی کو بھی نہیں دیں گے، اِس رویے اور سوچ کو بدلنے کا وقت ہے۔ جو شخص ووٹ نہیں ڈالتا، وہ اپنا قومی تشخص بھی کھو دیتا ہے۔ ابراہام لنکن نے خوبصورت بات کہی تھی: جو شہری ووٹ نہیں ڈالتا، اُسے یہ بھی حق نہیں ہے کہ وہ منتخب حکومت پر تنقید کرے۔ آپ ڈنمارک، کروشیا اور ناروے جیسے ملکوں کی مثال لے لیں وہاں جو لوگ ووٹ کاسٹ نہیں کرتے ان کی فہرستیں مرتب کی جاتی ہیں۔ وہ لوگ بینکوں سے قرضے نہیں لے سکتے، انہیں حکومتی سہولیات نہیں دی جاتیں اور ان کے لیے بہت سی مشکلات جان بوجھ کر پیدا کر دی جاتی ہیں کہ وہ آئندہ انتخابات میں لازمی اپنا ووٹ کاسٹ کریں۔ اسی سلسلے میں ووٹرز کو سہولیات دی جاتی ہیں۔ مثلاً جرمنی میں پارلیمانی انتخابات میں ووٹرز کو اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے الیکشن کی مختص شدہ تاریخ کا انتظار نہیں کرنا پڑتا ہے بلکہ اپنی سہولت کے حساب سے جرمن باشندے الیکشن سے ہفتوں پہلے بھی ووٹنگ دفاتر میں جاکر اپنا ووٹ ڈال سکتے ہیں۔جس دن الیکشن ہو، آپ اْس دن ملک سے باہر ہیں یا کسی اور وجہ سے آپ الیکشن کے دن ووٹ نہیں ڈال سکتے۔ ایسی صورت میں آپ کا ووٹ ضائع ہونے سے بچایا جانا چاہیے۔ جرمنی میں ہر ووٹ کی غیر معمولی اہمیت ہے اور ووٹرز بھی اپنے اس جمہوری حق کا پوری طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اگر اس ووٹ کی اہمیت کا اندازہ پاکستان میں ہو جائے تو یقینا یہاں بھی خوشحالی آسکتی ہے۔ یہاں بھی شفاف قیادت میسر آسکتی ہے۔ مگر افسوس یہاں وہ اقدام نہیں کیے جاتے جن سے ووٹر ٹرن آؤٹ میں اضافہ کیا جا سکے۔ یہاں بھی جو لوگ ووٹ کاسٹ نہیں کرتے ان کے لیے ہلکی پھلکی سزا کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔ ان کی فہرستیں مرتب کرکے ویب سائیٹس پر شائع کی جانی چاہئیں، انہیں بینک سے قرض کی سہولت سے محروم رکھا جانا چاہیے۔ اسے کسی قسم کی سرکاری نوکری پر پابندی عائد کرنی چاہیے۔ لیکن اس کے لیے سب سے پہلے حکومت کو ووٹرز کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ ووٹر کو پولنگ سٹیشن میں لانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ بہرکیف ووٹر کا اعتماد بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان دس کروڑ ووٹوں میں 44فیصد نوجوانوں کے ووٹ ہیں ،جن کی تعداد ساڑھے 5کروڑ سے زیادہ ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت اب اپنے ووٹ کی قوت سے ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کا عزم رکھتی ہے۔ خاص طور پر شہروں کی تعلیم یافتہ اور وسائل رکھنے والی نئی نسل عقل و تدبر سے کام لے کر ترقی یافتہ اور خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔گویا ان کو ملکی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے کا موقع ملے رہا ہے تو ضرور حصہ لیں اور نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کا حامی و ناصر ہو۔

تبصرے بند ہیں.