کسی بھی صوبے میں بیوروکریسی کی ٹیم محنتی اور متحد ہو، ایک اچھا کپتان انہیں ملا ہو تو صرف ایک سال میں ایسے ایسے رزلٹس ملتے ہیں جو اکثر حکومتیں کئی کئی سال کی سیاست اور ریاضت کے بعد بھی نہ دے سکیں،پنجاب کی نگران حکومت کی بیوروکریسی کویہ کریڈٹ ضرور ملنا چاہیے کہ انہوں نے ایک سال صرف ایک سال میں مثالی کام کیا۔پنجاب کے چیف سیکرٹری زاہد زمان ایک مثبت سوچ کے حامل فرینڈلی افسر ہیں اور وہ پچھلے ایک سال کے اندر پنجاب بیوروکریسی کی ٹیم کو جس انداز میں لے کر چلے،یہ اسی کا ثمر ہے کہ پنجاب کی نگران حکومت نے ایک سال میں وہ وہ کام کئے جو ناممکن دکھائی دیتے تھے۔ تعمیراتی کاموں کی بہتات کی وجہ سے بعض لوگوں نے اپنے خدشات کا بھی اظہار کیاکہ ایسے کاموں میں مالی منفعت کے دروازے بھی کھلے ملتے ہیں،اس کے باوجود پنجاب حکومت نے جس مالیاتی ڈسپلن اور عقلمندی کا مظاہرہ کیا وہ قابل تعریف ہے، خصوصی طور پر ہاتھ میں آئے ہوئے ایسے قرضے لینے سے انکار کرنا،جن کے لئے سیاسی حکومتیں بہت تگ و دو کرتی ہیں، اور دوسری طرف اپنے ذمے اربوں کے قرضے واپس کرنا بھی انتہائی احسن اقدام ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس ایک سالہ نگران حکومت نے ریکارڈ ترقیاتی کام ہی نہیں کرائے بلکہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ صوبے کو خود مختار بنانے اور اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کی کاوشیں بھی کی گئیں، مزید قرضے لینے سے اجتناب کیا گیا اور جو رقوم موجود تھیں ان کا نپا تْلا استعمال کیا گیا۔ اس زمینی حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ملکوں اور قوموں کی ترقی کا راز اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں ہے، پنجاب کی بیوروکریسی نے اس سلسلے میں ہونے والی کاوشوں میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا اور مثالی کام کیا، مزید قرضے لینے سے گریز کی پالیسی ہی نہیں اپنائی گئی بلکہ گزشتہ سالوں میں گندم خرید نے کے لیے ساڑھے چار سو ارب روپے کے قرضے مختلف بینکوں کو واپس کیے جو یقیناً ایک بڑا کارنامہ ہے، یہی نہیں ایشیائی ترقیاتی بینک نے پنجاب کے لیے پانچ سو ارب روپے کا جو قرضہ منظور کیا ہوا تھا وہ بھی لینے سے انکار کر دیا، لیکن ظاہر ہے کہ یہ کسی فردِ واحد کی کاوش نہیں بلکہ مشترکہ اور متحدہ کوششوں کا نتیجہ ہے مگر پنجاب میں سرکاری محکموں کے لئے نئے ٹاورز اور دفاتر کی تعمیر کے حوالے سے موجودہ چیف سیکرٹری یاد رکھے جائیں گے۔
پنجاب کی نگران حکومت نے اپنا ایک سال مکمل کر چکی ہے، پچھلے سال 14 جنوری کو پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت تحلیل کر دی گئی تھی جس کے بعد سید محسن نقوی نے 22 جنوری کو صوبے کے نگران وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھایا،نگران حکومت عموماً کم و بیش تین ماہ کے لیے بنائی جاتی ہے اور اس کا مقصد اگلے انتخابات شفاف انداز میں منعقد کروانا ہوتا ہے، اس ایشو پر اب تک خاصی بحث ہو چکی ہے کہ تین ماہ کے لیے قائم ہونے والی نگران حکومت ایک سال مکمل ہو جانے کے بعد بھی قائم کیوں ہے۔ فی الوقت پیش نظر معاملہ یہ ہے کہ اس نگران حکومت نے صوبے کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے، ترقی کی کئی منزلیں طے کرا دی ہیں، جنوری 2023 سے جنوری 2024 تک نگران حکومت نے متعدد میگا پروجیکٹس شروع اور مکمل کیے، کچھ پر تا حال کام ہو رہا ہے جن کی جلد تکمیل کی توقع کی جا رہی ہے۔
ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ شہباز شریف کے دور سے لے کر پرویز الٰہی کی حکومت تک کسی ایک سال میں اتنے پروجیکٹس مکمل نہیں ہوئے جتنے اس ایک سال میں نگران حکومت نے مکمل کر کے دکھا دیے ہیں، اس عرصے میں چار سپورٹس کمپلیکس مکمل ہوئے، پانچ پر اب بھی کام ہو رہا ہے، لاہور بریج منصوبے کو 31 مئی 2023 کو مکمل کیا گیا، یہ منصوبہ نگران سیٹ اپ کے آنے سے پہلے تاخیرکا شکار تھا، سمن آباد انڈر پاس ریکارڈ مدت میں مکمل ہوا، شاہدرہ کے مقام پر ٹریفک کی روانی کو بہتر بنانے کے لیے فلائی اوور ساڑھے سات ماہ میں مکمل کیا گیا، نواز شریف انٹرچینج پر بیدیاں انڈر پاس کو بھی مکمل کیا گیا جبکہ ٹاؤن شپ میں اکبر چوک پر فلائی اوور کو مکمل سگنل فری بنایا گیا اور کالج روڈ کی ری ماڈلنگ کی گئی۔ یہ تو صرف وہ کام تھے جو صوبائی دارالحکومت میں تکمیل پذیر کیے گئے صوبے بھر میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیا جائے اور ان کے اعداد و شمار اکٹھے کیے جائیں تو یقیناً ایک طویل فہرست بن جائے گی۔
ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ منتخب ہونے والی حکومتیں اور حکمران دعویٰ لے کر برسرِ اقتدار آتے ہیں کہ وہ ڈلیور کریں گے عوام کے مسائل حل کریں گے ان کی مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی انہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جائے گا لیکن ہوتا یہ ہے کہ جب وہ حکومت رخصت ہوتی ہیں تو عوام کے دل مطمئن نہیں ہوتے،نظریں کسی اور طرف اٹھتی ہیں کہ شاید وہ ان کے مسائل کا حل تلاش کر سکے ان کے درد کا درماں بن سکے لیکن یہ امید بر نہیں آتی۔ یہ غالباً پہلا موقع ہے کہ عوام نے کچھ کہا بھی نہیں کوئی تقاضا بھی نہیں کیا اور ان کے بہت سے کام ہو گئے، اب اگر آٹھ فروری کو انتخابات ہو جاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ پنجاب کی اس نگران حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا اور نئی منتخب حکومت اقتدار سنبھالے گی لیکن ایک بات پورے تیقن کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ نگران حکومت نہ صرف کارکردگی کی نئی سطحیں گراف اور مثالیں قائم کر کے جا رہی ہے بلکہ اس کی کارکردگی آنے والی حکومتوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی بن سکتی ہے کہ اگر مستقبل کی حکومتوں نے اس طرح کی کارکردگی نہ دکھائی تو ان سے عوام کا غیر مطمئن ہونا قدرتی امر ہو گا۔
گزشتہ ایک برس کے دوران شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو گا جب پنجاب کی نگران مشینری پوری طرح متحرک اور فعال نظر نہ آئی ہو، کبھی ہسپتال کا دورہ ہو رہا ہے، کبھی کسی سکول کی کارکرد کی کا جائزہ لیا جا رہا ہے، کبھی کسی ترقیاتی پروجیکٹ کا دورہ ہو رہا ہے اور اسے جلد از جلد مکمل کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے، کبھی کسی وفد سے ملاقات ہو رہی ہے اور کبھی صوبائی معاملات پر مشاورت اور فیصلے ہو رہے ہیں، پورا ایک سال یہی ہوتا مشاہدے میں آیا۔
یہ حقیقت بھی ہے کہ پنجاب میں پچھلے ایک سال کے دوران ترقی نظر آئی ہے، اس کی پہلی اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اس پر کسی بھی قسم کا سیاسی پریشر موجود نہ تھا اور اس نے آزادانہ کام کیا، یہ حقیقت ایک عالمی سچائی کی حیثیت اختیار کر چکی ہے کہ کوئی پریشر خصوصاً سیاسی پریشر نہ ہو تو بیوروکریسی کی بہترین صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں، پچھلے ایک سال میں یہی کچھ ہوا۔ بیوروکریسی کی اکثریت نے مثالی کام کیا بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ نگران حکومت بیوروکریسی کی بہترین کارکردگی کے سبب ہی ریکارڈ مدت میں ریکارڈ ترقیاتی کام کرانے میں کامیاب ہو سکی۔
تبصرے بند ہیں.