ملاقاتوں کے بعد!

200

ہمارے ہاں بڑی بڑی باکمال شخصیات گزری ہیں اور آج بھی موجود ہیں جن کے فن کا ایک عالم معترف ہے۔ مگر ان میں سے چند ایک ہی ایسے خوش نصیب ہیں جن کو عوام و خواص میں شہرت کے ساتھ محبوبیت کا درجہ بھی ملاہو۔لوگوں میں مقبولیت کے بعد محبوبیت کے درجے پر فائز ہونا اور پھر اس نعمت کو مسلسل سنبھال کر رکھنا یقینا ایک غیر معمولی کارنامہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی خاص عطاء کے بغیر ہرگز ممکن نہیں ہے۔ ایک وقت تھا جب شعرو ادب بھی ہمارے ہاں کثیر لوگوں کی دلچسپی کا مرکز و محور تھا۔ اس شعبے سے وابستہ کئی ایسے نام تھے جن سے لوگ کھیل اور شوبز کے ستاروں کی طرح والہانہ پیار کرتے تھے۔ مگر اردو صحافت اور کالم نگاری جیسے خشک شعبے سے وابستہ کسی شخص کا اس بلند مقام اور مرتبے تک پہنچنا کل کی طرح آج بھی محال دکھائی دیتا ہے۔ لیکن کیا ہے کہ”یہ منصب بلند ملا جس کو مل گیا“ اردوادب و صحافت کے کم و بیش سبھی مشاہیر اس پر متفق ہیں کہ ہمارے ہاں کالم نگاری میں اگر عوامی درجے کی مقبولیت اور محبوبیت کسی کالم نگار کے حصے میں آئی ہے تو وہ واحد خوش نصیب ہستی عطاء الحق قاسمی ہیں۔ جو نصف صدی سے کالم نگاری میں اپنے منفرد اور دلکش اسلوب کی وجہ سے خواص کے ساتھ عوام میں بھی یکساں مقبول ہیں۔ قاسمی صاحب کی اس مقبولیت میں اُن کی کالم نگاری کے ساتھ یقینا اُن کے شہرہ آفاق ٹی وی ڈراموں ”خواجہ اینڈ سنز، شب دیگ“ اور مقبول عام سفر ناموں ”شوقِ آوارگی“ اور ”گوروں کے دیس“ کا بھی بڑا حصہ ہے لیکن میری اس بات سے شاید آپ بھی اتفاق کریں کہ اردو شاعری، ڈرامہ اور سفرنامہ نویسی میں بے پناہ کامیابیوں کے باوجود لوگوں میں قاسمی صاحب کی پہلی شناخت اُن کی کالم نگاری ہے۔یہ بات الگ ہے کہ قاسمی صاحب کے بے شمار کالم ادبی شاہپاروں کا درجہ رکھتے ہیں۔آپ اگر اردو کالم نگاری پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ قاسمی صاحب اب تک وہ واحد کالم نگار ہیں جن کے کالموں کے فقرے اور پیرے ہی نہیں پورے پورے کالم بھی قارئین کو مقبول عام شعروں اور گیتوں کی طرح زبانی یاد ہیں۔تکنیکی حوالوں سے قاسمی صاحب کے کالموں میں کیا خوبیاں اوراُن کے فنی محاسن ہیں اس پر اصل رائے تو کوئی سکہ بند نقاد ہی دے سکتا ہے لیکن میری یہ رائے ہے کہ جس کسی نے ایک بار قاسمی صاحب کا کالم چکھ لیا سمجھیں پھر اسے یہ کالم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لگ جاتا ہے۔ حتیٰ کہ قاسمی صاحب سے نظریاتی اختلاف رکھنے والے بھی اُن کے کالموں کو بڑے ذوق اور شوق سے مزے لے لے کر پڑھتے ہیں۔ قاسمی صاحب کے کالم پڑھتے ہوئے کبھی کبھی مجھے یوں محسوس ہوتاہے جیسے قاسمی صاحب ایک ایسے ماہرمعالج ہیں جو اپنے قلم سے نشتر کا کام لینے کی بجائے ہمارے سماج اور معاشرے کی بیماریوں کا علاج بڑی محبت اور شفقت کے ساتھ مسکراہٹوں اور قہقہوں جیسی میٹھی گولیوں سے کرتے ہیں۔ میرے جیسے وہ لوگ جو ”آستانہ قاسمیہ“ سے منسلک ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اُن کے فیض کا یہ سلسلہ صرف اُن کے قلم تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ دامے درمے سُخنے بھی محمود و ایاز کی طرح راقم سے لے کر حافظ جوس کارنر والے عذیر احمد گڑھی شاہوی جیسے مریدین تک بغیر کسی تفریق کے یکساں پھیلا ہوا ہے۔ میں قاسمی صاحب کو اس وقت سے پڑھ رہا ہوں جب میرے چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی مونچھ کے ساتھ گرمی دانے بھی نکلنے شروع ہوئے تھے جس کی وجوہات میں ایک اہم وجہ قاسمی صاحب کے ”بے شرم“ جیسے کالم اور ان کا سفرنامہ”شوقِ آوارگی“ پڑھنا بھی تھا۔ اُن دنوں والد صاحب کی نظروں سے چھپ چھپا کر جب کبھی مجھے قاسمی صاحب کا یہ سفرنامہ پڑھنے کا موقع ملتا توقاسمی صاحب پر بے تحاشا رشک کرنے کے ساتھ میرے دل میں یہ حسرت ضرورپیدا ہوتی کہ کاش میں بھی اُس سفر میں قاسمی صاحب کے ہمراہ ہوتا۔ قاسمی صاحب کا سفرنامہ”شوقِ آوارگی“ میں آج بھی اُسی شوق اور اُسی حسرت سے پڑھتا ہوں۔ بس یہ فرق پڑا ہے کہ پہلے اسے والد صاحب سے چھپ کے پڑھتا تھا اور اب اسے اپنے بچوں سے چھپا کے پڑھتا ہوں۔ آپ کو موقع ملے تو آپ قاسمی صاحب کے کالموں کے ساتھ ساتھ اُن کے سفرنامے بھی ضرور پڑھیے گا ان دلچسپ سفر ناموں میں ”ہاسے“ اور ”خاصے“ کی کئی چیزوں کے ساتھ آپ کی ملاقات خوبصورت جہانوں کی کھوج میں نکلے اپنے پسندیدہ اور ایک بڑے ادیب عطاء الحق قاسمی سے بھی ہوگی۔ اس ملاقات میں قاسمی صاحب آپ کو اپنے ہمراہ نئے جہانوں کی سیر کرواتے ہوئے سطر سطر ہنستے ہنساتے اورقہقہے بکھیرتے دکھائیں دیں گے۔ مگر خیال رہے کہ قاسمی صاحب کے کالموں، ڈراموں اور سفرناموں میں آپ کی اُن سے یہ جو ملاقات ہوگی وہ ایک بھرپور ملاقات کے باوجود اُدھوری ملاقات ہوگی۔قاسمی صاحب سے پوری ملاقات کرنی ہے تو پھر آپ کو اُن کی شاعری پڑھنا ہوگی۔ قاسمی صاحب کے شعری مجموعے”ملاقاتیں اُدھوری ہیں“ کے بعد اُن کے حالیہ شعری مجموعے”ملاقاتوں کے بعد“ کو پڑھ کر آپ کی ملاقات ایک ایسے درد مند شخص سے ہوگی جو اپنے دل میں سلگتے دُکھوں کو پسِ پُشت ڈال کر لوگوں میں قہقہے اور خوشیاں تقسیم کرتا ہے۔ قاسمی صاحب کو بہت قریب سے جاننا ہو تو ان کی شاعری پڑھیے اس لئے کہ بے شمار ”حاضر سروس“ شاعروں کے برعکس قاسمی صاحب کی شاعری محض شعر برائے داد یا شعر برائے امداد نہیں ہے بلکہ یہ آپ کے دل کی گہرائیوں سے نکلی آپ کی تنہائیوں کی گواہ ہے۔ قاسمی صاحب کے شعری مجموعے”ملاقاتوں کے بعد“ میں کئی ایسے شعر ہیں جواس مجموعے کی اشاعت سے پہلے ہی لوگوں میں زبان زدِ عام ہیں اس لئے کہ اس مجموعے کی اکثر غزلیں اور نظمیں قاسمی صاحب مختلف مشاعروں میں سنا چکے ہیں۔ ان مقبول شعروں کے علاوہ بھی اس مجموعے میں بے شمار ایسے شعر ہیں جنھیں پسندیدہ اور شاہکار قرار دیا جا سکتا ہے لیکن ذاتی طور مجھے قاسمی صاحب کا جو شعر سب سے زیادہ پسند ہے وہ یہ ہے ؎
سفر یہ واپسی کا ہولے ہولے طے کرو اُس نے
تمہیں آواز دینی ہے تمہیں واپس بلانا ہے

جب سے میں نے قاسمی صاحب کا یہ شعر پڑھا ہے ہے پتا نہیں تب سے مجھے یہ کیوں لگنے لگا ہے جیسے قاسمی صاحب اور میری زندگی کی کہانی میں کہیں نہ کہیں کوئی مماثلت ضرور ہے۔اب یہی دیکھ لیجیے قاسمی صاحب کی طرح میں بھی ایک کالم نگار اور شاعر ہوں بس معمولی سا یہ فرق ہے کہ میں ذرا بیمار شمار رہتا ہوں۔

تبصرے بند ہیں.