جس دن یہ تحریر قارئین تک پہنچے گی اس وقت انتخابات میں دو ہفتہ کا وقت رہ جائے گا اور انتخابی مہم اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہو گی۔پاکستان کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے انداز میں انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز جو ان انتخابات میں دو تہائی اکثریت کی کامیابی کا نعرہ لے کر میدان میں اتری تھی بوجہ انتخابی میدان میں قدرے تاخیر کے ساتھ اتری۔ اس کے بجائے نواز لیگ نے ڈھائی درجن کے قریب طویل اجلاسوں میں انتخابی امید واروں کے ناموں کی منظوری دی لیکن اس کے باوجود کئی جگہ پر اختلافات سامنے آئے۔ ان اختلافات کو لے کر نواز لیگ کے مخالفین اگر چسکے لیں تو انتخابی مہم کے عروج پر اور پاکستان کے سیاسی ماحول میں یہ ان کا حق بنتا ہے لیکن بڑی سیاسی جماعتوں میں ایسے مواقع پر اگر اتنے اختلافات بھی نہ ہوں تو پھر سیاست کے میدان کے رنگ تو ویسے ہی پھیکے پڑ جائیں ویسے دیکھا جائے تو ما سوائے پاکستان پیپلز پارٹی کے کوئی بھی جماعت اپنی انتخابی مہم ماضی کی طرح نہیں چلا رہی۔ پاکستان پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف تو ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں کہ جنھیں پورے ملک میں انتخابی مہم چلانے کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کے لئے وقت اور متحرک قیادت اور تنظیم سب کی ضرورت ہوتی ہے لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ متحدہ جیسی جماعت کہ جسے اپنی مہم فقط سندھ کے شہری علاقوں تک چلانی ہے وہ بھی سستی کا شکار نظر آئی اور ایک آدھ بڑے جلسے کے علاوہ کوئی بڑی سیاسی سر گرمی نظر نہیں آئی۔ یہی حالت جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی اور دیگر جماعتوں کی ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی کو اس میں ہم اس لئے شامل نہیں کر رہے کہ جس طرح دیگر سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت کے بل پر جماعتوں کا وجود قائم ہے استحکام پارٹی اس سے کچھ مختلف ہے۔ اس کے اندر ہیوی ویٹس ہیں اور وہ اپنی اپنی الگ مہم چلا رہے ہیں اور اس جماعت کے سربراہ جہانگیر ترین نے اب تک دو تین جگہ عوامی اجتماعات سے خطاب کیا بھی ہے اور یہ ان کے لئے کافی ہے اس لئے کہ اس جماعت کے امیدواروں کو دیگر جماعتوں کی طرح پارٹی لیڈر کے نام پر تو ووٹ نہیں ملنے بلکہ ہر بندے نے اپنی اپنی الگ ذاتی حیثیت میں ووٹ لینے ہیں۔
سب سے زیادہ مشکل صورت حال کا سامنا نواز لیگ کو کرنا پڑ رہا ہے اور اس مشکل کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ خود مسلم لیگ نواز کے دو تہائی اکثریت کے دعوے ہیں ۔ ان دعوئوں پر پورا اترنا اور ان کی تکمیل ہی در حقیقت مسلم لیگ نواز کے لئے اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ہم کسی کی مقبولیت پر بات نہیںکریں گے لیکن سیاست کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے اتنا اندازہ ضرور ہے کہ مقتدر قوتیں اب کسی کو دو تہائی حتیٰ کہ سادہ اکثریت دے کر بھی من مانی کرنے کی اجازت دینے کے موڈ میں نہیں ہیں اور اسی تناظر میں ہم نے کہا ہے کہ سب سے زیادہ مشکل میں مسلم لیگ نوازہے۔ کچھ اندرونی مشکلات کے باوجود بھی مسلم لیگ نواز نے مانسہرہ میں بہت اچھا جلسہ کر کے دکھا دیا لیکن خیبر پختون خوا میں سیاست کے چھوٹے کھلاڑی جن کے اپنے پاکٹس ہیں اور وہ ماضی میں وہاں سے کامیاب بھی ہوتے آئے ہیں ان کا بھی حصہ ہے جن میں آفتاب احمد شیر پائو، پرویز خٹک شامل ہیں جبکہ جمعیت علمائے اسلام اور اے این پی اورپاکستان پیپلز پارٹی بحیثیت جماعت اور تحریک انصاف آزاد امید واروں کے ساتھ ایک طاقتور فریق کی شکل میں میدان میں موجود ہے تو ان تمام چھوٹے بڑے سیاسی کھلاڑیوں میں سے نواز لیگ کو کتنا حصہ ملے گا یہ دیکھنا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے دیگر جماعتوں سے کافی پہلے اپنی انتخابی مہم شروع کر دی تھی اور سب سے پہلے انھوں نے خیبر پختون خوا کو فوکس کیا اور پھر بلوچستان میں اور اب پنجاب اور سندھ میں اپنے انداز میں بھرپور انتخابی مہم چلا رہے ہیں ۔ ہم نے بھرپور کا لفظ اس لئے استعمال کیا کیونکہ پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جو پوزیشن ہے اس کا علم سب کو ہے اور اس قدر کم مقبولیت کہ 2018 میں پورے صوبہ سے اس جماعت کو صوبائی اسمبلی کی کل 7 نشستیں ملی تھی لیکن اس کے باوجود بھی بلاول ہر جگہ جا رہے ہیں ۔ لاہور کے حلقہ این اے 127سے بلاول کا الیکشن لڑنا یقینا ایک چیلنج ہے اور کامیابی کی توقع تو بڑی بات ہو گی لیکن اگر پاکستان پیپلز پارٹی قابل ذکر ووٹ لے جاتی ہے تو یہ بھی پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے ایک حوصلہ افزا بات ہو گی ۔ اسی حوالے سے ایک اور اہم بات کہ بلاول بھٹو جس طرح تحریک انصاف کے لئے نرم گوشہ دکھا رہے ہیں تو کیا اس سے وہ تحریک انصاف کے ووٹر کو مائل کر پائیں گے یا کم از کم پاکستان پیپلز پارٹی کا وہ ووٹر جو ماضی میں اپنی جماعت سے ناراض ہو کر تحریک انصاف میں چلا گیا تھا اسے ہی واپس لانے میں کامیاب ہو جائیں گے یہ امر بھی پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کی واپسی میں اہم کردار ادا کرے گا۔
پاکستان تحریک انصاف اس وقت مشکل دور سے گذر رہی ہے اور اسے پورے ملک میں کسی جگہ ایک بھی جلسہ یا کسی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں ملی لیکن اس کے لئے یہ کوئی بہت زیادہ پریشانی کی بات نہیں ہے بلکہ یہ کام ”ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی آئے چوکھا“ سوشل میڈیا پر بھی کر سکتی ہے لیکن اس کے لئے اصل مسائل انتخابی میدان میں نواز لیگ کے انتہائی تجربہ کار اور طاقتور امیدواروں کے مقابلہ میں نا تجربہ کار اور کمزور حیثیت امید وارہوں گے اور اس سے بھی بڑھ کر انتخابات والے دن ان تجربہ رکھنے والے امیدوارں کے مقابلہ میں اناڑی امیدواروں کا ہونا تحریک انصاف کے مقبولیت کے دعوئوں پر پانی پھیر سکتی ہے ۔ دوسری اہم بات کہ جس کا ذکر ہم پہلے بھی کر چکے ہیں کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کہ جس کا ذکر ہر کوئی کرتا ہے اگر اس مقبولیت کے سارے ڈھول فقط سوشل میڈیا پر ہی پیٹے گئے اور ساتھ میں کمزور اور نا تجربہ کار امیدوار تو تحریک انصاف کی لٹیا ڈوبنے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔
تبصرے بند ہیں.