اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ دنیا امن و سکون کے ساتھ زندگی گزارے گی تو یہ اس کی بھول دکھائی دیتی ہے کیونکہ زمانے کے طور اطوار بدلنے کے ساتھ روایتی جنگی طریقہ کار بھی بدلتا جارہا ہے، مستقبل ٹیکنالوجی کی برتری کا ہے جو اس میں خود کفیل ہو گا وہی دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کرے گا اس کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ جدید زمانے کے علوم کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے نت نئی مہارتوں کے حصول کی خاطر اپنی تمام صلاحیتیں اور وسائل صرف کرے، آگے چل کر آج کی تعلیم شائد متروک ہو جائے کیونکہ مستقبل بہر حال سائنس و جدید ٹیکنالوجی ومصنوعی ذہانت کا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز بھی سائنس و ٹیکنالوجی ہی ہے۔ کبھی ایٹم بم ،یا بھاری توپ خانے ،ٹینک بندوقیں، بحری و فضائی جہاز کی بہت اہمیت تھی لیکن وقت نے ثابت کیا ہے کہ اس سب سے زیادہ جدید ٹیکنالوجی اپنی جگہ بنا چکی ہے ورنہ روس سے بڑا اسلحہ ساز اور ذخیرہ رکھنے ولا ملک کوئی ا ور نہیں تھا اس کا انجام بھی سامنے ہے۔
مختلف رپورٹ میںبتایا گیا ہے کہ دنیا ہتھیار سازی کے ایک نئے دور میں داخل ہو گئی ہے جس میں مصنوعی ذہانت ایک کلیدی جزو ہے۔ آج ٹیکنالوجی کی بدولت عسکری صلاحیتوں میں اضافہ تو ہو گیا ہے تاہم اگر ان کی کڑی نگرانی نہ کی گئی تو عدم استحکام کا خطرہ ہے۔مصنوعی ذہانت پر مبنی ہتھیار سازی کی دوڑ شروع ہو چکی ہے۔ جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے یہ تنبیہ جرمنی کے بین الاقوامی نشریاتی ادارے کو ایک دستاویزی فلم کے لیے انٹرویو دیتے ہوئے کی۔ ان کے بقول یہ ایک ایسی حقیقت ہے، جسے سب کو قبول کرنا ہی پڑے گا۔ عالمی قوتیں ایک دوسرے پر برتری کی کوششوں میں ہیں اور مصنوعی ذہانت پر ہی اس بات کا دار و مدار ہے کہ کون سا ملک یا فوج کتنی طاقت ور ہے۔چین نے آئندہ پانچ برس کے لیے اپنی منصوبہ بندی میں مصنوعی ذہانت کو بھی شامل کیا ہے۔ پیپلز لبریشن آرمی کی مستقبل سے متعلق عسکری حکمت عملی کے لیے ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کی بنیاد مصنوعی ذہانت پر ہی ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے تو 2017 میں ہی کہہ دیا تھا، ”جو بھی اس میدان میں آگے ہو گا، وہی مستقبل کی دنیا میں قائدانہ کردار ادا کرے گا۔“ کئی اور ممالک بھی اس ٹیکنالوجی میں بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور عام طور پر ایسے پروگرام خفیہ رکھے جاتے ہیں۔سِلیکون وَیلی کے سٹار ایلون مَسک نے، جواسپیس ایکس اور ٹیسلا موٹرز کے بانی ہیں، گزشتہ سال موسمِ گرما میں خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ’مصنوعی ذہانت‘ کی صورت میں انسان نے اپنی بقا کے لیے سب سے بڑے خطرے کو جنم دیا ہے۔ سٹیفن ہاکنگ بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ’مصنوعی ذہانت‘ ممکنہ طور پر وہ سب سے بڑی غلطی ہے، جو انسان سے سرزد ہوئی ہے۔
نگورنو کاراباخ کے متنازع خطے میں گزشتہ سال آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین کھڑا ہونے والا مسلح تنازع اس سلسلے میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ یورپی کونسل برائے خارجہ امور کی رکن اور جنگوں میں ڈرونز کے استعمال سے متعلقہ امور کی ماہر اُلریکے فرانکے کہتی ہیں کہ اس تنازعے میں سب سے اہم بات ‘کامیکازے ڈرونز‘ کا استعمال تھا۔ بغیر پائلٹ کے پرواز کرنے والے یہ ڈرونز ایسے اہداف کو بھی نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جو ان میں نصب کیمروں کی پہنچ سے دور ہوں۔ فرانکے کے مطابق یہ ٹیکنالوجی اس سے قبل بھی استعمال ہو چکی ہے مگر حالیہ مسلح کارروائیوں میں اس ٹیکنالوجی کی صلاحیت کا کھل کر اندازہ ہوا۔ آورپی کونسل برائے خارجہ امور کی اس رکن کا کہنا تھا کہ دیگر عسکری قوتوں نے بھی یہ دیکھا اور یہی وجہ ہے کہ حالیہ مہینوں میں ’کامیکازے ڈرونز‘ اور ان سے منسلک ٹیکنالوجی میں خاصی دلچسپی دیکھی گئی ہے۔ اب کئی بڑی عسکری قوتیں یہ نظام خریدنے کے لیے کوشاں ہیں۔
اور یہ تو صرف آغاز ہے۔ واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ’سینٹر فار اے نیو امریکن سکیورٹی‘ کے مارٹن واسر کا کہنا ہے کہ مستقبل میں کئی ڈرون طیاروں کے تقریباً کسی جھنڈ کی مدد سے ’کامیکازے ڈرونز‘ پورے کے پورے فضائی دفاعی نظام کو تباہ کرنے کے اہل ہوں گے۔ ہارورڈ لائی سکول کی لیکچرار بونی ڈوکرٹی چاہتی ہیں کہ مسلح تنازعات میں خودکار روبوٹس کے ممکنہ استعمال کو ابھی سے روکا جائے۔ وہ ایک مہم کی سربراہ بھی ہیں، جس کا مقصد کسی ایسے معاہدے کو حتمی شکل دینا ہے، جس کے تحت ایسے ہتھیاروں پر پابندی لگا دی جائے۔ مگر اسرائیل، روس، امریکا اور برطانیہ ایسے خودکار روبوٹس کی تیاری میں مصروف ہیں اور ایسے کسی ممکنہ معاہدے کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس بونی ڈوکرٹی کی مہم کے حامی نہیں مگر معاہدے کے حق میں ہیں۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ایسے کسی معاہدے میں سبھی اہم ممالک شامل ہوں۔ وہ ان ممالک کی شمولیت چاہتے ہیں، جو خودکار روبوٹس کی تیاری اور کسی جنگی صورتحال میں ان کے استعمال کی صلاحیت رکھتے ہیں۔بیشتر ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے استعمال کی قانونی ریگولیشن لازمی ہے۔ اس شعبے میں قواعد و ضوابط کا طے کیا جانا وقت کی اشد ضرورت ہے۔
مندرجہ بالا رپورٹ ایک طرف اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مستقبل مصنوعی ذہانت اور سائنس و ٹیکنالوجی کا ہو گا اور جو اس میں زیادہ سے زیادہ مہارتیں حاصل کرے گا وہ سپر پاور ہو گا۔ لیکن خوش کن بات یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں ایسی توانا آوازیں اب بھی موجود ہیں جو اندھا دھند طاقت کے خلاف اور انسانیت کا درد رکھتی ہیں وہ کسی بھی ایسی اندھی طاقت کی حامی نہیں بلکہ اسے ظابطہ کار میں لانے کی حامی ہیں ۔لیکن ایک بات طے ہے کہ تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی اس دنیا میں سائنس و ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانتیں ہی ہر شعبے میں کلیدی کردار ادا کرتی نظر آئیں گی اب دیکھنا یہ ہے کون سے ممالک وقت کے بدلتے تقاضوں کے ساتھ چلتے ہوئے خود کو بدلتے اور جدید علوم کو اپنے ہاں رائج کرتے اور فروغ دیتے ہیں ۔
تبصرے بند ہیں.