الیکشن 2024 اور کرپشن کا گرشی قرضہ

66

وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی روایات بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں۔ آنے والا الیکشن اس بات کا ثبوت ہے پنجاب کے کلچر میں ناچنے والوں پر پیسے پھینکنا انتہائی کھلنڈرا پن سمجھا جاتا تھا مگر وقت کے ساتھ اس کی ناپسندیدگی کی شدت کم ہو گئی پھر وہ وقت بھی آیا کہ مذہبی حلقے پیسے پھینکنے اور پیسے لوٹنے کو پہلے تو تماش بینی سے تعبیر کرتے تھے مگر ربیع الاول کے مذہبی جلسوں میں علمائے کرام اور نعت خوانوں پر پیسے پھینکنے کی رسم چل پڑی یہ روایت اب ایک قدم اور بڑھ چکی ہے جس کا آغاز لاہور سے ہوا ہے جسے پاکستان کا ثقافتی دارالحکومت کہا جاتا ہے ن لیگ کے جلسوں میں حمزہ شہباز، مریم نواز اور میاں نواز شریف کی انتخابی حلقوں میں آمد پر ان پر نوٹ نچھاور کیے جا رہے ہیں جو کہ سیاست میں پیسے کی ریل پیل کا ثبوت ہے۔

2024ء الیکشن مہم خاص غیر روایتی ہے شہر میں نہ تو پارٹیوں کے انتخابی دفتر نظر آتے ہیں نہ وال چاکنگ ہے نہ بل بورڈ پوسٹر اور اشتہار بازی ہے تھوڑا بہت یہ پبلسٹی ن لیگ کی حد تک ہے مگر وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پنجاب میں پچھلے کئی الیکشن سے صورتحال یہ ہوتی ہے کہ ن لیگ اور تحریک انصاف ایک ایک شہر ایک ایک گلی ایک ایک ووٹ کے لیے کانٹے دار مقابلہ کرتے ہیں مگر اس دفعہ یہ جوش و خروش نظر نہیں آتا۔ تحریک انصاف جہاں جلسہ کرنے کی کوشش کرتی ہے وہاں پولیس پہنچ جاتی ہے لہٰذا ان کی ساری کیمپین سوشل میڈیا اور وٹس ایپ پر چلائی جا رہی ہے۔ اس وجہ سے ن لیگی امیدواروں کے لیے میدان کھلا ہے لیکن اب امیدوار بڑے سیانے ہو گئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جب ان کے مخالف امیدوار میدان میں موجود ہی نہیں ہیں تو وہ کیوں خرچہ کریں اس لیے نہ جلسے ہوتے ہیں نہ کوک اور بریانی والی عیاشی ہے سارا کام سستے میں ہی ہو رہا ہے گاڑیوں کے قافلے ہیں نہ بینر بازی ہے۔

لیکن اس الیکشن کی چونکا دینے والی حقیقت یہ ہے کہ حلقوں میں ٹوٹی ہوئی سڑکیں بن رہی ہیں سیوریج کے کام تیزی سے ہوئے ہیں گیس لائنیں بچھائی جا رہی ہیں۔ آپ دیکھ کر حیران ہو جائیں گے کہ اس وقت نہ تو کوئی بلدیاتی حکومت قائم ہے نہ صوبائی اور نہ قومی اسمبلی موجود ہیں تو پھر یہ حلقے کے ترقیاتی کام کون کرا رہا ہے اور یہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے یہ ملین ڈالر کا سوال ہے۔ میں ذاتی طور پر اس کو کرپشن کا گردشی قرضہ کہنے کی جسارت کرتا ہوں۔ ہر حلقے میں ٹھیکیدار اور پارٹی سپانسر اور انویسٹر موجود ہیں انہیں خاموشی سے ایک پیسہ دیئے بغیر کہہ دیا گیا ہے کہ جو بھی کام ہے آپ اپنی جیب سے کرا دیں جب ہماری حکومت بن جائے گی تو جتنا خرچہ آپ کا ہوا ہے اتنے کا ٹھیکہ آپ کو منافع سمیت دے دیا جائے گا۔ کام تو پہلے ہی ہو چکے ہوں گے سرکاری گرانٹوں کی منظوری محض ایک کاغذی خانہ پری ہو گی تاکہ سرکاری خزانے سے پیسے نکال کر ٹھیکیداروں کو دیئے جا سکیں۔ کرپشن کا یہ گردشی قرضہ ایک ایسا کرتب ہے جو کسی نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔

اسی طرح ہر علاقے سے پولیس ورکرز خواتین اور پڑھی لکھی بے روزگار خواتین اور پرائیویٹ ٹیچرز وغیرہ کے گروپ بنا کر دن بھر ان سے ڈور ٹو ڈور ووٹ مانگنے کی ڈیوٹی کرائی جاتی ہے اور انہیں یومیہ اجرت دے دی جاتی ہے جس میں ٹرانسپورٹ کھانا اور ایزی لوڈ شامل ہیں۔

لاہور میں اگر کسی حلقے میں الیکشن ہو رہا ہے تو وہ این اے 127 ہے جہاں ن لیگ کے عطاء تارڑ کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کے بلاول بھٹو امیدوار ہیں۔ پیپلزپارٹی اس الیکشن میں بھرپور مہم جاری رکھے ہوئے ہے جسے ق لیگ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنی علامتی واپسی کے لیے لاہور کی یہ سیٹ حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس حلقے میں دیگر حلقوں کی نسبت ن لیگ کا امیدوار اتنا بھاری بھر کم نہیں ہے کہ اسے ہرایا نہ جا سکے سوال یہ ہے کہ ن لیگ نے دانستہ طور پر بلاول کے مقابلے میں شریف فیملی یا روایتی طاقتور سیاستدانوں کو کھڑا کرنے کے بجائے عطاء تارڑ کو آگے کر دیا ہے جس کا اپنا ڈومی سائل حافظ آباد کا ہے۔ شاید بلاول کو سپیس دی جا رہی ہے۔

دوسری طرف آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اگلے تین سال میں 71 ارب ڈالر کی ایکسٹرنل فنانسنگ کی ضرورت ہے۔ یعنی بیرونی قرضہ چاہیے تا کہ وہ اپنے پرانے قرضے ادا کر سکے۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے عالمی ادارے بلوم برگ کے مطابق ٹیکسوں کی شرح اور مہنگائی میں اضافہ ہو گا اور سبسڈی کم ہو گی آنے والے وقت میں مہنگائی اور افراط زر بڑھیں گے اور مقامی کرنسی کی وقعت کم ہو گی۔ سیاسی پارٹیاں عوام کو جھانسہ دے رہی ہیں کوئی 200 یونٹ اور کوئی 300 یونٹ تک بجلی مفت کرنے کی پیش کش کر رہا ہے جو کہ عملاً ناممکن ہے۔ بلاول نے کہا کہ ہم سولر پاور کے ذریعے بجلی دیں گے عوام کی اتنی بڑی تعداد کے لیے سولر ممکن نہیں ہے یہ ماہرین کی رائے ہے باقی جہاں تک مفت 200 اور 300 یونٹ بجلی کی بات ہے تو اس کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ بجلی پانی سے پیدا کی جائے جس کے لیے ڈیم بنانا ہوں گے جو ناممکن نظر آتا ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق 18 سے 35 سال کے درمیان کی عمر کے 50 فیصد ووٹرز اس الیکشن میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گے لیکن اگر ووٹرز ٹرن آؤٹ 2018ء کے مقابلے میں کم ہو گیا تو اس سے الیکشن کی کریڈیبلیٹی جو پہلے ہی بہت پتلی ہے مزید کمزور ہو جائے گی۔

ایک اندازہ یہ بھی ہے کہ پنجاب میں ن لیگ سندھ میں پیپلزپاورٹی، پختونخوا میں پی ٹی آئی، بلوچستان میں سارے کے سارے اور اسی طرح وفاق میں بھی کولیشن بنا کر ن لیگ کی حکومت قائم کرا دی جائے گی۔ البتہ پنجاب میں جہاں 60 فیصد آبادی ہے وہاں اگر پی ٹی آئی کا ووٹر کوئی غیر معمولی قسم کی سرپرائز دینے میں کامیاب ہو گیا یا عین آخری وقت پر بائیکاٹ کی طرف چلے گئے تو پھر ن لیگ کی ساکھ متاثر ہو گی مگر اس کی پروا کیے بغیر یہ حکومت جاری رکھیں گے کیونکہ ہمارے ہاں جمہوری روایات کے بجائے حصول اقتدار اور بقائے اقتدار زیادہ اہم سمجھے جاتے ہیں۔

آنے والے الیکشن میں کچھ جانور بہت اہمیت کے حامل ہیں جن میں شیر گھوڑے اور کالے بکرے شامل ہیں۔ شیر کا آپ کو پتہ ہی ہے اور الیکشن کے بعد کی ہارس ٹریڈنگ کو بھی آپ اچھی طرح جانتے ہیں البتہ کالے بکرے ذبح کرنے کے لیے ہوتے ہیں تاکہ جان کا صدقہ ادا کیا جائے اکثر و بیشتر یہ بکرے بھی سرکاری خزانے سے خریدے جاتے ہیں کالے بکروں کے بعد قربانی کے لیے عوام کی باری آتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.