عسکری قیادت کے بر وقت فیصلے

61

پاکستان کی سول اور عسکری قیادت نے جس انداز میں ایران کی جانب سے پیدا کردہ حالیہ خطرے کو کنٹرول کر کے مؤثر جوابی کارروائی کی ہے اس سے یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گیا ہے کہ پاکستان کی موجودہ قیادت کسی بھی طرح کے بحران کو حل کرنے کی مکمل اہلیت، صلاحیت اور طاقت رکھتی ہے چنانچہ خطے میں کوئی بھی طاقت اس سے بے خبر نہ رہے کہ پاکستان اپنے خلاف کسی بھی طرح کی مہم جوئی کا بھرپور جواب نہیں دے گا۔ایران کا قبلہ دُرست ہوتے ہی تعلقات کی بحالی کا فیصلہ بھی خوش آئندہ اور بروقت ہے کیونکہ دونوں ممالک اس وقت اس امر کے ہرگز بھی متحمل نہیں ہو سکتے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف کسی بڑی جنگ میں جائیں۔ تاہم تہران کی جانب سے تین دنوں کے قلیل وقت میں شام، عراق اور پاکستان میں یکے بعد دیگر حملے کرنا، ایرانی قیادت کی کوتاہ اندیشی اور عاقبت نا اندیشی کی ایک بڑی مثال ہے اور اس سے پورا خطہ انتشار اور بد امنی کا شکار ہو سکتا تھا جس کا بہرحال فائدہ اسرائیل اور امریکہ سمیت دشمنان اسلام کو ہوتا۔

صوبہ بلوچستان میں ہونے والے ایرانی حملے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان ان دنوں جن حالات سے گزر رہا ہے اس میں دہشت گردی کا خطرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے پاکستان کے ادارے جس انداز میں اس وقت دہشت گردی اور اس میں ملوث افراد کے خلاف ایکشن لے رہے ہیں اس سے یہ امر بھی یقینی ہے کہ بہت جلد پاکستان اس خطرے سے جو کہ پاکستان کے اندر ایک تباہی پھیلانے کا پاکستان دُشمن قوتوں کا ایجنڈا ہے نہ صرف جلد قابو پالے گا بلکہ دہشت گردوں کے خلاف تیزی سے گھیرا تنگ کرتے ہوئے انہیں جلد کیفر کردار تک بھی پہنچا دے گا۔

بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں سات دہشت گردوں کی ہلاکت اس امر کی شہادت دیتی ہے کہ اس وقت پاکستان کے اندر دہشت گردی پھیلانے والے جتنے بھی ممکنہ عناصر ہیں ان کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اور یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ پاکستان دُشمن عناصر کی ایک بڑی تعداد اس وقت بھی پاکستان کی سرزمین پر موجود ہے۔ لیکن وہ اب اپنا مذموم کھیل کھل کر نہ کھیل پائیں گے۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ پاکستان میں الیکشن اس وقت سر پر ہیں۔

دارالحکومت میں کچھ یونیورسٹیز کو سکیورٹی وجوہات کی وجہ سے غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ یہ اس امر کی کھلی دلیل ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر اب بھی کچھ ایسے دہشت گرد ضرور موجود ہیں جو پاکستان کے اندر آٹھ فروری کے انتخابات سے قبل یا ان کے دوران دہشت گردی کی کچھ ایسی بڑی کارروائی کرنا چاہتے ہیں جن کے نتیجے میں الیکشن ملتوی ہو جائیں لیکن جس انداز میں یونیورسٹیوں کو بند کیا گیا ہے یہ اس امر کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ خفیہ اداروں کو اس کی خبر پہلے ہی سے ہے۔ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس حوالے سے پہلے ہی سے مصروف عمل ہیں اور حکومت پاکستان کا ردعمل بھی درست خطوط پر ہے۔ امید ہے کہ آٹھ فروری یا اس سے قبل کوئی ایسا سانحہ رونما نہیں ہو گا جس سے پاکستان کے جمہوری نظام کو کو ئی خطرہ پہنچے یا پھر پاکستان کا جمہوری سفر کسی تعطل کا شکار ہو۔ جہاں تک پاکستان کے اندر الیکشن کی صورتحال ہے تو وہ بہت واضح ہو چکی ہے اس وقت پنجاب کے اندر دو بڑی پارٹیاں ہی آپ کو بہت زیادہ الیکشن مہم میں مصروف عمل نظرآئی ہیں ان میں ایک ہے پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسری مسلم لیگ نواز اور ایسا لگتا ہے کہ ایک کھلا میدان ہے اور فٹبال کا جو کھیل ہے اس کے اندر دونوں پارٹیاں تو موجود ہیں لیکن ان کی مخالف کوئی پارٹی موجود نہیں بلکہ دوسروں کا تو گول کیپر بھی موجود نہیں تو یہ مرضی سے جتنے چاہیں گول کر سکتی ہیں جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کا تعلق ہے تو ان کو الیکشن سے قبل ہی الیکشن سے باہر کر دیا گیا ہے بلا ان کے پاس موجود نہیں ہے اور جہاں تک موجود ہ حالات کا تعلق ہے تو پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد کھڑے ہیں اگر وہ الیکشن جیتتے بھی ہیں تو انہیں بعدازاں دیگر پارٹیوں میں شامل کرا دیا جائے گا۔ یوں یہ یا تو مسلم نواز کا حصہ بن جائیں گے یا پھر پیپلز پارٹی انہیں اپنے اندر شامل کرلے گی۔ جہانگیر ترین کی جماعت بھی اس بارے میں خاصی سرگرم نظر آتی ہے۔ ان کے لیڈر علیم خان تو اس بارے کھل کر اپنا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ جہاں تک الیکشن کی شفافیت کی بات ہے تو موجودہ انتخابات اپنے انعقادسے قبل ہی متنازع ہوچکے ہیں۔ یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ پنجاب پولیس موجودہ حکومت یا اس کے پس پردہ موجود سیاسی جماعتوں کی قیادت کے ہاتھوں آلہ کار بنی ہوئی ہے جس نے پی ٹی آئی کی قیادت، اُمیدواروں اور انکے سپورٹرز کو دیوار کے ساتھ لگا رکھا ہے۔ جہاں باقی جماعتوں کو الیکشن مہم چلانے کی کھلی اجازت ہے بلکہ خود حکومتی مشینری بھی اس سلسلے میں ان کی بھر پور مددو معاون ہے وہاں پی ٹی آئی کی پکڑ دھکڑ اور خوف زدہ کرنے کی مہم رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ پی ٹی آئی کے امیدواروں کو عملاً نہ تو انتخابی دفاتر کھولنے کی اجازت ہے اور نہ ہی مہم چلانے کی۔ یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ الیکشن سے قبل ہی الیکشن کے نتائج کا فیصلہ ہوچکا ہے۔

اس سے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ گویا الیکشن سیاسی جماعتوں کے درمیان نہیں بلکہ پنجاب پولیس اور پی ٹی آئی کے درمیان ہے جسے پنجاب اور لاہور پولیس نے الیکشن سے قبل ہی کامیابی سے جیت لیا ہے اور اب محض ضابطے کی کارروائی باقی رہ گئی ہے۔ تاہم ایسے میں بلاول بھٹو کی مہم اس حوالے سے منفرد ہے کہ وہ اپنے ہر سیاسی جلسے میں اپنی پارٹی کے منشور پر بات کرر ہے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.