مرکزی مسلم لیگ کا منشور: وعدے اور خدشے

72

زندگی سیکھنے کا نام ہے اور ہمیں روزانہ کی بنیاد پرکچھ نہ کچھ نیا سیکھنا چاہیے جس انسان کی زندگی سے سیکھنے کا عمل نکل جائے اُسے خود ہی اپنی موت کا اعلان کردینا چاہیے چہ جائیکہ لوگ مساجد کے سپیکر سے استفاد ہ کرتے پھریں ۔جانِ عزیز وطن میں الیکشن کی بگل بج چکا ہے لیکن سازشی تھیوریاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ میں عرصہ دراز سے لکھ رہا ہوں کہ الیکشن شیڈول کو کوئی غیر شیڈول آسمانی آفت کے علاوہ نہیں روک سکتا۔ ریاست تذبذب کا شکار نہیں لیکن پروپیگنڈا ہے کہ بے یقینی کی فضا قائم رکھے ہوئے ہے۔ ریاست نے ابھی تک وہ آہنی ہاتھ استعمال نہیں کیا جس کی وجہ سے ریاست، ریاست کہلاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی کی فضائوں میں آدم خور گدھیں اور زمین پر لگڑ بگڑ پھرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ اچھے دن میری زندگی میں نہ آ سکیں لیکن مجھے یقین ہے کہ ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا کیونکہ ریاست نے یا درست سمت چلنا ہوتا ہے یا پھر وہ ختم ہو جاتی ہے۔ اِس کے پاس تیسرا آپشن ہوتا ہی نہیں البتہ اس کا بے سمت انجام لاکھوں کروڑوں انسانو ں کو درد کے انگنت افسانوں کا مواد دے جاتا ہے۔ گو کہ ایک طویل جد و جہد کے بعد بھی میں اور میرے ساتھی اس تجربے میں ناکام ہوئے لیکن ہم نہ تو آخری انسان تھے اور نہ ہی انسانوں کے پاس آخری دن تھا کہ اب وطنِ عزیز کو درست سمت لانے کی کوششیں ترک کردی جائیں۔ بس! ایسا ہی ایک پروگرام لئے مرکزی مسلم لیگ کے جوائنٹ سیکرٹری ریاض احمد احسان آ دھمکے اور کاسمو پولیٹن کلب لارنس گارڈن لاہور میں ”میٹ دی پریس“ کے حوالے سے پروگرام تھماد یا۔ ریاض احمد احسان کو ہمیشہ کچھ نیا کرنے کا جنون سوار رہتا ہے اور مرکزی مسلم لیگ سے اُسے بڑی امیدیں ہیں سو میں ہر پُر امید انسان کے ہمیشہ ساتھ ہوتا ہوں کہ مایوس لوگ بہادروں کو ناکارہ بنا دیتے ہیں۔ لاہور بھر سے انتہائی زیرک اور باوقار کالم نگاروں کو ایک چھت تلے اکٹھے کرکے جو کچھ بتایا گیا وہ آپ کی خدمت میں پیش کیے دیتا ہوں۔

مرکزی مسلم لیگ کے مرکزی صدر خالد مسعود سندھو پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ اُن سے چند ملاقاتوں میں یہ احساس ہوا کہ وہ انتہائی مدبر، باصلاحیت اورکچھ کرنے کا عزم لئے ہوئے اِس میدان میںاترے ہیں۔ پاکستان کی مروجہ سیاست کو نہ صرف بخوبی جانتے ہیں بلکہ اُس کے متبادل لاتعداد پروگرامز اور ریاستی پالیسیاں اُن کے ذہن میں ہیں۔ الیکشن کے دنوں میں تنظیمی عہدیداران کی ذمہ داریوں سے میں بخوبی واقف ہوں سو اُن کے تشریف نہ لانے کی وجہ بیان کرنا ضروری نہیں سمجھتا کیونکہ اِس سے پہلے اُن سے گھنٹوں پر مشتمل تفصیلی ملاقات ہو چکی تھی۔ریاض احمد احسان سے مرکزی مسلم لیگ کا منشور موصول ہو چکا تھا اور گاہے گاہے اُس پر تنقیدی گفتگو بھی ہوتی رہتی تھی ۔ البتہ مرکزی ترجمان تابش قیوم سے پہلی ملاقات تھی جو انتہائی خوبصورت لب و لہجے میں مرکزی مسلم لیگ کا منشور بیان کر رہے تھے اور بعد ازاں دوستوں کے سوالات کے جواب دینے کے ساتھ ساتھ نئے مشورے نوٹ کر ر ہے تھے۔ اِن دوستوں کے دماغوں میں بھی پاکستان کیلئے ایک فلاحی ریاست کا نقشہ ہے جسے لے کر وہ میدان عمل میں آئے ہیں۔ فلاحی ریاست کا تصور مسلمانوں کیلئے ریاست مدینہ سے جڑا ہوا ہے سو اِس کی جزیات پر بات کرنے کے بجائے تمام احباب نے ریاست کے قیام کیلئے اُن کے طریقہ کار پر زیادہ سے زیادہ بات کی۔ مرکزی مسلم لیگ پاکستان کی ہر یونین کونسل میں دو سستی روٹی تندور عام آدمی کیلئے کھولنا چاہتی ہے۔ پاکستان بھر میں ہر یونین کونسل میں اپنی مدد آپ کے تحت ایک دسترخوان کا انعقاد کرنے کی خواہشمند ہے۔ وہ یونین کونسل لیول پر ہنر سکھانے کے اداروں کاقیام کرنا چاہتے ہیں ۔مستحق گھرانوں کی مالی معاونت اور مفت راشن تقسیم کرنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ تعلیم سے محروم بچوں کو سکول پہنچانے اور ہر سہولت مفت فراہم کرنے کا پروگرام رکھتے ہیں۔ گائنی ہسپتالوں اور فری ڈسپنسریوں کا جال پھیلانے کا ایک نقشہ اُن کے پاس ہے۔ یتیموں اور بیوائوں کا کفالت پروگرام اُن کی ترجیحات میں شامل ہے۔ ریاست اور ریاستی اداروں کی عزت و تکریم اُن کے منشور میں خصوصی طور پر شامل ہے۔ اسلامیت، انسانیت اور پاکستانیت کے دائرے میں شامل لوگوں کو بلا امتیاز ہرجائز مقام ِ آبرو دینے کا ذکر کر رہے ہیں۔ مرکزی مسلم لیگ مذہبی اور سیاسی فرقہ واریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا اعلان کر رہی ہے۔ روشن پاکستان پروگرام کے تحت پاکستان کے گلی کوچوں کو روشن اور صاف شفاف رکھنا چاہتے ہیں۔ شہریوں کو آئین و قانون کا احترام سکھانے کیلئے حکومتی نگرانی میں ورکشاپس کا انعقاد چاہتی ہیں۔ یونین کونسل لیول پر بلڈ بنک کا منظم اور فعال نظام قائم کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ قومی زبان، مسئلہ کشمیر اور فلسطین پربانی پاکستان کے موقف اور احکامات کے نفاذ کیلئے جدوجہد جاری رکھنے کی خواہاں ہیں۔مرکزی مسلم لیگ کے قائد ین نے بتایا کہ معیشت کو مضبوط کیے بغیر ترقی کا ہر خواب ادھورا رہے گا اور اس کیلئے اُنہوں نے ایک قابل عمل پروگرام بنا رکھا ہے ۔ غربت ِکے خاتمے اور روزگار کے مواقع کی فراہمی مرکزی مسلم لیگی حکومت کی پہلی کاوش ہو گی۔ پاکستان زرعی ملک ہے سو زراعت کو جدید ٹیکنالوجی سے جوڑ کر ترقی دی جائے گی تاکہ زرعی پیداوار میں اضافہ ہو سکے ۔ تعلیم کو پاکستان بھر میں یکساں نصاب تعلیم اور ایک طرز کے ادارے قائم کرکے ترقی دی جائے گی۔ وسائل سے محروم لوگوں کو مفت علاج کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ نوجوانوں کی ذہنی تندرستی کیلئے کھیلوں کے ساتھ ساتھ فتنہ، تکفیر و الحاد سمیت جدید دور کی آفتوں سے بچایا جائے گا ۔خواتین کے حقوق کی پاسداری مرکزی مسلم لیگ کی حکومت کی اولین ترجیح ہو گی جس پر کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوا جائے گا۔ اقلیتوں کو وہ تمام حقوق دیئے جائیں گے جو کسی بھی فلاحی ریاست میں ممکن ہیں ۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ آزاد صحافت کو فروغ دیا جائے گا تاکہ وہ ریاست و حکومت کی اصلاح کا کام بخوبی کرسکے۔ قانون کی حکمرانی قائم کیے بغیر کسی بھی فلاحی ریاست کے تصور کو مرکزی مسلم لیگ کے قائدین دیوانے کا خواب سمجھتے ہیں۔ پسماندہ علاقوں پر توجہ دیئے بغیر پاکستان کبھی اپنے خوبصورت چہرے کے ساتھ دنیا کے سامنے نہیں آ سکتا ۔ آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسی ہی حقیقی پاکستان بنانے میں مدد کرسکتی ہے ۔یہ وہ سب ارادے ہیں جن کا اظہار مرکزی مسلم لیگ کے ترجمان برادرم تابش قیوم  نے کیا لیکن میں بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ یہ لوگ تو سماجی حوالے سے بہت سے کا م پہلے ہی سرانجام دے رہے ہیں اور اِن کے ورکرز ہمیں سیلابوں، زلزلوں کے علاوہ تھر کے ریگستان میں کنویں کھودتے بھی دکھائی دیتے ہیں تو پھر اِس سیاسی عمل کی کیا ضرورت آن پڑی تھی۔ مجھے اِس بارے میں کوئی ابہام نہیں کہ شہریوں کو ضروریاتِ زندگی جب تک ریاست نہ دے یہ کسی فرد یا تنظیم کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔ سو اگر مرکزی مسلم لیگ کے قائدین نے ریاستی وسائل سے عوامی خدمت کرنے کے پروگرام کو جاری رکھنے کا عہد کیا ہے تو یقیناً یہ اُن کا حق ہے اور موجود الیکشن میں میری اِس رائے سے تو دنیا واقف ہے کہ اِس بار صرف منشور کو ووٹ دیں اورجس کے پاس منشور نہیں اُسے چلتا کریں یہی عوامی فلاح کا آخری رستہ ہے۔

تبصرے بند ہیں.