جب ضمیر نہیں کانپتے تو پھر زمین کانپ اٹھتی ہے یہ نظام قدرت ہے شاید ہم پہلی اور آخری قوم ہیں جو نہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنی تمام تر کوتاہیوں اور ناکامیوں کاملبہ دوسروں پر ڈال دینے کے عادی ہو چکے ہیں یہ بات اگر ہم اداروں کے حوالے سے کریں تو یہاں تو کچھ بھی ہو جائے کرسی نہیں چھوڑنی اور ان کو خاندانی ورارثت سمجھ لیا جاتا ہے دنیا میں ہزاروں مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں ہم نے بری کارکردگی پر وزرائے اعظم تک کو اپنی حکومتیں ختم کرتے دیکھا۔
گزشتہ روز کرکٹ بورڈ کے سیاسی چیئرمین ذکاء اشرف جو ہمیشہ آصف علی زرداری کی حمایت کے ساتھ کرکٹ بورڈ پر براجمان رہے انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔
کہاں تک آپ سنو گے کہاں تک سناؤں کسی کے ساتھ کوئی ایک گلہ کوئی ایک شکوہ ہو تو بات کریں ذکاء اشرف کا استعفیٰ ایک نہیں بلکہ بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے پاکستان کی موجودہ کرکٹ ٹیم کے دورہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ذلت آمیز شکست کی وجہ سے استعفیٰ دیا تو یہ بات ہم بالکل ماننے کو تیار نہیں اگر ایسی بات ہوتی تو وہ اپنے اندر اتنی جرأت رکھتے اور اپنے عہدے سے چمٹے رہنے کی روایات کو ختم کرتے تو پھر ان کو یہ استعفیٰ 2023 کے ورلڈ کپ میں پاکستان کی بدترین شکست پر دے دینا چاہیے تھا۔ لہٰذا ان کے استعفے کے پیچھے نہ صرف سیاسی اور انتظامی وجوہات کے علاوہ اور بہت سے عوامل شامل ہیں ہم پہلے بھی انہی کالموں کے ذریعے وزیراعظم پاکستان سے گزارش کر چکے ہیں کہ یہاں چہروں کی بجائے بدترین نظام کو بدلیں ہمارے نزدیک کرکٹ بورڈ کا سربراہ کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہونا چاہیے اس سے قبل بھی سیاسی بنیادوں پر ہونے والی تقرریوں نے ہمیشہ پاکستان کرکٹ کو شدید نقصانات پہنچائے جبکہ پوری دنیا میں تمام کھیلوں کے حوالے سے بات کی جائے تو وہاں حکومت اور سیاست کا عمل داخل نظر نہیں آتا لہٰذا اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو نہ صرف حکومتی تسلط سے دور رکھا جائے اس کو خودمختار ادارے کی پوزیشن دی جائے بلکہ یہاں پر ایک ایسے شخص کا تقرر کیا جائے جو نہ صرف کھیل کے امور سے واقف ہو بلکہ ایک جو کھیل کے فروغ میں اپنا تجربہ اور کردار ادا کر سکے۔ ایک وہ دور بھی تھا جب پاکستان کرکٹ ٹیم میں پروفیشنلزم اور گلیمر میں بڑے نام اور
بڑے کھلاڑی دکھائی دیتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کرکٹ کی باگ ڈور کرکٹ کھیلنے والوں کے ہاتھ میں تھی۔ اب ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم کھیل کی بجائے شخصیات کو پروموٹ کرتے ہیں۔ پھر انہی شخصیات کے بار بار بدلنے سے آج ہم پاکستان بورڈ اور ٹیم دونوں تباہی کے دہانے پر لے آئے ہیں یہ کس طرح کا کرکٹ بورڈ ہے کہ یہاں 76 سال سے نہ مستقل چیئرمین، نہ مستقل چیئرمین سلیکشن کمیٹی اور نہ ہی مستقل چیئرمین مینجمنٹ کمیٹی لہٰذا یہ پھر ایک نعمت ہی ہے کہ ہم ٹیم کو صرف کھیلا ہی رہے ہیں۔ نگران وزیراعظم پاکستان انوار الحق کاکڑ جو اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کے پیٹرن چیف بھی ہیں ہم ان سے گزارش کرتے ہیں کہ خدارا کرکٹ بورڈ کی قسمت میں کوئی سیاسی بندہ نہ لکھ دیں۔ اکھاڑہ نہ بنائیں اور ذاتی پسند و ناپسند سے نکل کر سیاسی شخصیت کے بجائے کسی سینئر اور تجربہ کار کھلاڑی کو بورڈ کا سربراہ
نامزدکریں اور اس سے پہلے سلیکشن کی بجائے الیکشن کے طریقہ کار کو اپناتے ہوئے صرف ایک احسان کر جائیں کوئی ایک ایسا فیصلہ کر دیں جو نہ صرف اس نظام کا حصہ بن جائے بلکہ آنے والا اس میں کوئی تبدیلی نہ لا سکے اب جیسے بھارت آسٹریلیا اور انگلینڈ کے فارمیٹ کے تحت کوئی ایسا چیئرمین مقرر کریں۔ ہماری بدقسمتی یہ بھی رہی ہے کہ جب بھی سیاسی حکومت بدلتی ہے تو اس کے ساتھ ہی ہم چیئرمین کرکٹ بورڈ بھی بدل دیتے ہیں۔ جب آپ ہر دو سال بعد چیئرمین تبدیل کریں گے تو اس کا برا اثر ٹیم پر بھی پڑے گا۔ یہاں تو ہوتا یہ ہے کہ جو بھی چیئرمین آتا ہے وہ کرکٹ کے سسٹم اور اس کے ڈویلپمنٹ کو نہ ہی سمجھ پاتا ہے اور نہ اس کے اندر اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ کم از کم سابقہ پالیسی پر ہی عمل کرا سکے۔ آپ پاکستان کرکٹ کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں عبدالحفیظ کاردار سے لے کر ذکاء اشرف تک ہم نے کتنے چیئرمین بدلے ان میں زیادہ تر چیئرمین سیاسی جماعتوں کی طرف سے نامزد کیے گئے اور دو چیئرمین فوج کی طرف سے نامزد ہوئے یعنی کہ ہم ابھی تک کوئی ایسا سسٹم ہی نہیں دے پائے جس میں ہم کم از کم پانچ سال کے لیے کسی ایسے چیئرمین کرکٹ بورڈ کا انتخاب کر سکیں۔ اب لمحہ فکریہ ہی ہے کہ ہم تباہی کی طرف رواں دواں ہیں۔ گزشتہ پانچ سال میں نجم سیٹھی، ذکاء اشرف اور رمیز راجہ کو بھگت چکے ہیں جبکہ ہمارے نزدیک رمیز راجہ کی تقرری ایک درست فیصلہ تھا کہ وہ کرکٹ کے تمام امور کے علاوہ کھیل سے لے کر کھلاڑی کے مسائل تک کو سمجھتا تھا۔ مگر شہباز کی نگران حکومت نے صرف اس لیے رمیز راجہ کو ہٹا دیا کہ اس کی تقرری پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے کی گئی تھی اور کرکٹ کے حوالے سے یہ اچھا فیصلہ تھا گو ذکاء اشرف نگران حکومت کی طرف سے تین ماہ کے لیے مقرر کیے گئے۔ اور ان کے علم میں تھا کہ انہیں بغیر کسی مدت کے کسی بھی وقت عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔ لہٰذا انہوں نے خود استعفیٰ دے دیا اور یہ استعفیٰ اس وقت دیا گیا جب پاکستان میں 8 فروری کو عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور ظاہری بات ہے کہ جب نئی حکومت آئے گی تو یقینا بورڈ کا سربراہ بھی نیا آئے گا ہمارے نزدیک اب وقت ہے کہ اس سیاسی اور من پسند شخصیت کے تصور کو ختم کیا جائے کہ جس پارٹی کی حکومت ہوگی اسی پارٹی کا چیئرمین کرکٹ بورڈ مقرر کیا جائے گا مستقبل میں اگر ایسی خرافات سے بچنا ہے تو پھر پاکستان کرکٹ بورڈ کو خود مختار ادارہ بنانا ہوگا۔
کرکٹ بورڈ کو خود مختار ادارہ بنانے سے ہی ہم کامیابی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھیں گے ایسا خود مختار ادارہ جس کا اپنا ایک ائین۔ اپنا ایک سسٹم اور اپنا ایک ویژن ہو جس سے فائدہ یہ ہوگا کہ ہم بار بار کی جانے والی تبدیلیوں سے بچ جائیں گے اور جب ہم تبدیلیوں سے بچ جائیں گے تو ہم اپنی کرکٹ سسٹم اور ٹیم کو بچانے میں بھی کامیاب ہو پائیں گے۔ وہ ایک مثال ہے کہ پتھر دھویا نہیں کرتے انہیں کیا خبر کہ چشمے پتھروں سے ہی نکلتے ہیں بات صرف سمجھنے اور عمل کرنے کی ہے ہم یہاں ذکاء اشرف کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے گو دیر سے فیصلہ کیا جو انہیں بہت پہلے کر لینا چاہئے تھا گو قائم مقام کا اعلان ہو چکا ہے جو اب الیکشن کرائے گا ہمارے نزدیک اس کا یہ حل نہیں ہے الیکشن ہی کرانا ہے تو پھر نامزدگیوں کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ ذکاء اشرف کے جانے سے ایک بہتر موقع ملا ہے تو پھر کیوں نہ ابھی سے فائدہ اٹھا لیا جائے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.