پیٹرول سستا، بجلی مہنگی

68

اب جانے اس بات پر خوشی منائی جائے یا نہیں کہ حکومت نے ملک میں پیٹرول کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر سے کمی کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ آٹھ روپے کمی کے بعد اس وقت دستیاب پیٹرول کی قیمت 267.34 روپے ہو چکی ہے۔ اسی طرح وقت کے ساتھ ساتھ پاکستانی کرنسی کے مقابلہ میں ڈالر کی قدر میں بھی خاطر خواہ کمی آئی ہے لیکن مجال ہے کہ کچھ ہی عرصہ پہلے انہی دو چیزوں کی قدر میں اضافہ کو بنیاد بنا کر جو مہنگائی کی گئی تھی اس میں رتی بھر بھی کوئی فرق آیا ہو۔

اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھ کر اگر غور کیا جائے تو اندازا ہوتا ہے کہ جب ڈالر اور پیٹرول مستقل بنیادوں پر مہنگے ہو رہے تھے تو ان کو وجہ بتا کر کی جانے والی مہنگائی یقینا مصنوعی تھی اور جب ان کی قدر میں خاطر خواہ کمی واقع ہو چکی ہے تو کسی بھی چیز کی قیمت کم نہ ہونا بھی حقیقی نہیں ہے۔ ابھی سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ پڑھ رہا تھا جس میں کوئی صاحب طنز کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ حکومت نے پیٹرول آٹھ سستا کر دیا اور بجلی چھ روپے مہنگی کر دی لیکن پھر بھی عوام کو دو روپے کا فائدہ تو ہو ہی گیا۔ یعنی حکومت بھی ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے سے واپس لے لیتی ہے۔ شائد حکومت کے نقطہ نگاہ کے مطابق بجلی کے نرخوں میں اضافہ کا بھی یہی بہترین وقت تھا، جب موسم سرما کی وجہ سے بجلی کی کھپت انتہائی کم ہے اور ابتدائی طور پر تو اس زیادتی کا کسی کو کوئی خاص اندازہ بھی نہیں ہو گا لیکن جوں جوں موسم بدلے گا اور پہلے پنکھے اور پھر ائیر کنڈیشنر وغیرہ چلنا شروع ہوں گے تب تب حکومت کی جانب سے آج اٹھائے جانے والے قدم کی سنگینی کا اندازہ ہو گا۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں کبھی صحیح معنوں میں کوئی عوامی حکومت آئی ہی نہیں ورنہ آج کے حالا ت میں بھی پیٹرول کم از کم ایک سو روپے مزید سستا ہوتا، بجلی اور گیس کے نرخوں میں خاطر خواہ کمی ہوتی اور حالات یہ نہ ہوتے کہ کاشتکار بھی رو رہا ہے اور صارف بھی لیکن دلال پیسے کما رہا ہے اور حکومت لاپروائی اور لاتعلقی کا کمبل اوڑھ کر خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔ حکومت اس تمام صورتحال کے سلسلہ میں جو بھی توضیح پیش کرے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ یہ تمام صورتحال حکومت کی ناکامی کا منہ چڑا رہی ہے ۔ اب اس سلسلہ میں حکومت میں شامل افراد نااہل ہیں ، بے بس ہیں یا پھر اس تمام ہیرا پھیری کا حصہ ہیں یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ، ممکن ہے کہ پیٹرول اور ڈالر کی قدر میں خاطر خواہ کمی کابڑے بڑے سرمایہ داروں، صنعت کاروں، ذخیرہ اندوزوں یا ٹرانسپورٹرز کو تو کوئی فائدہ پہنچا ہو لیکن، عوام اسی طرح مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں جس طرح وہ اس وقت پس رہے تھے جب پیٹرول اور ڈالر کی قیمتیں عروج پر تھیں۔

اس سلسلہ حکومتی نمائندوں سے بات کی جائے تو وہ ایسی گھمن گھیری والی وضاحت دیتے ہیں کہ اچھا بھلا بندہ چکرا کر رہ جائے۔ایک صاحب جن سے میری بات ہوئی وہ ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں ہمارے ہاں پیٹرول کی بہت زیادہ قیمتوں کے بارے میں فرمانے لگے کہ چونکہ پیٹرول کی مانگ اکثر غیر لچکدار ہوتی ہے، یعنی قیمت میں تبدیلی کا مطلوبہ مقدار پر محدود اثر پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر پیٹرول کی قیمتیں کم ہوجاتی ہیں، لوگ اپنے استعمال کے انداز میں نمایاں طور پر تبدیلی نہیں کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کے اثرات روزمرہ کی اشیا پر نمودار نہیں ہوتے۔

اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ، اگرچہ بین الاقوامی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت کم ہوسکتی ہے، لیکن پیٹرول کو صاف کرنے، تقسیم کرنے اور نقل و حمل سے منسلک اخراجات مستحکم رہتے ہیں یا اس سے بھی بڑھ سکتے ہیں۔ یہ اخراجات عام صارف کو دستیاب پیٹرول کی قیمت کو متاثر کر تے ہیں اور صارفین پر تیل کی کم قیمتوں کے اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اکثر اقات، تیل کی قیمتوں میں کمی کے فوائد مارکیٹ میں غیر موثر رہتے ہیں اور صارفین تک نہیں پہنچ پاتے کیونکہ مڈل مین، ڈسٹری بیوٹرز، اور پمپ مالکان یہ فائدہ عام صارف تک پہنچانے کے بجائے جذب کرجاتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بعض صورتوں میںتو ہماری حکومتیں پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کو صارفین کو پورا فائدہ پہنچانے کے بجائے سبسڈی کو کم کرنے کے موقع کے طور پر استعمال کر سکتی ہیں جس کی وجہ سے عام آبادی کی طرف سے محسوس کی جانے والی راحت محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔
وہ تو یہاں تک کہہ گئے کہ چونکہ عام لوگ پیٹرول کی قیمتوں میں کمی بیشی پر اثر اندازہونے والے عوامل سے پوری طرح واقف نہیں ہوتے یا وہ اسے سمجھ نہیں پاتے اس وجہ سے وہ حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر زیادہ تنقید کرتے ہیں۔

حکومتی ترجمان یا حکومت میں شامل دیگر افراد جو بھی کہتے رہیں ہمیں تو بس دو جمع دو والا سیدھا فارمولا ہی سمجھ میں آتا ہے کہ اگر پیٹرول اور ڈالر کی قدر بڑھنے سے ضروریات زندگی اور ٹرانسپورٹ سمیت ہر چیز کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں تو ان کی قدر کم ہونے کی صورت میں مہنگائی میں کمی بھی ہونی چاہیے۔

حکومت میں شامل افراد کا یقینی طور پر عوام یا ان کے مسائل سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے دکھ درد کو بھی بالکل نہیں سمجھتے۔ لیکن ان کو یہ بات، جو شائد ان کے اپنے فائدہ میں ہے، ضرور سمجھ لینی چاہیے کہ قیمتیں کنٹرول کرنے پر ان کا لچکدار رویہ لامحالہ عوام میں عدم اعتماد اور عدم اطمینان کی صورتحال میں اضافہ کا باعث بن رہاہے جو آگے چل کر سماجی امن کے لیے ایک بڑا خطرہ بھی بن سکتا ہے اور اگر معاشی عدم استحکام کی وجہ سے پرتشدد احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑیں تو سب سے پہلی ضرب اسی حکمران طبقے کو ہی لگتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.