علم دوست، انسان دوست ملک نواز احمد اعوان صاحب کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے ایک سال اور چار ماہ ہوگئے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔ 1980ء کی دہائی میں جب ہم کراچی میں مقیم تھے اس وقت میں نے تقریباً دس سال کی عمر میں اپنے والد محترم محمد اختر مسلم سے ان کا نام سنا۔ ملک نواز اعوان سے یہ دنیاوی تعلق تقریباً بیالیس سال کے بعد ان کی وفات پر ختم ہوا۔ مگر ان کی یاد اور ان کے احسانات مجھے اپنے آخری دم تک یاد رہیں گے۔
ملک نواز احمد اعوان صاحب ایک اچھے مترجم، خطاط، کتاب دوست، تبصرہ نگار اور دل دردمند رکھنے والی شخصیت کے مالک تھے۔ کراچی میں طارق روڈ پر ان کی ریفریجریٹر اور ائر کنڈیشنر کی مرمت کی ایک بڑی دکان تھی۔ جب میں نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ عملی زندگی کا آغاز کیا تو میرا دفتر بلوچ کالونی شارع فیصل پر واقع تھا۔ والد صاحب اکثر کوئی کتاب یا رسالہ ملک نواز صاحب تک پہنچانے کو دیتے یا پھر ان کے یہاں سے لے آنے کو کہتے۔ میں دفتر سے فارغ ہو کر جب بھی ان کی دکان پر جاتا تو ایک طرف کتابوں اور رسالوں کے انبار اور دوسری جانب درجنوں ریفریجریٹر اور ائرکنڈیشنر مرمت کے لیے رکھے ہوتے۔
ملک نواز صاحب کے پاس تقریباً ہر وقت ہی اہل علم کی مجلس برپا رہتی۔ ملک صاحب کے سامنے ایک بڑی سے میز ہوتی اور اس پر بھی کتابیں، رسالے اور خطاطی کے نمونے رکھے ہوتے۔ ہمہ جہت شخص تھے، اہل علم سے علمی مباحث میں بھی مصروف رہتے اور اپنے شاگردوں کو ریفریجریٹر اور ائرکنڈیشنر کی مرمت کے لیے بھی ہدایات دیتے رہتے۔ فرائیڈے سپیشل میں کتابوں پر ان کے شائع ہونے والے تبصرے علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ملک نواز احمد اعوان بنیادی طور پر جماعت اسلامی سے متعلق تھے، لیکن جماعت کی عملی سیاست سے زیادہ مولانا ابو اعلیٰ مودودی کی علمی اور فکری صلاحیتوں کے معترف تھے۔ ان کی یہ فکری وابستگی عمر کے آخری حصے میں مزید گہری ہو گئی تھی۔ مجھے اس بات کا احساس یوں ہوا کہ وہ کچھ عرصے سے مجھے مولانا مودودی ہی کی کتب تجویز کرتے۔ مگر علمی اور نظریاتی اختلاف کو کبھی ذاتیات تک نہیں آنے دیتے تھے۔ انہوں نے کم و بیش تمام مکاتب فکر کا بھرپور مطالعہ کر رکھا تھا۔ علامہ غلام احمد پرویز کے طرز تحریر کو بھی پسند کرتے تھے۔ معروف مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی صاحب نے جب اپنے ادارے ”المورد“ اور رسالے ”اشراق“ کی بنیاد رکھی تو ان کی بھی بھرپور معاونت کی۔ ایک بار جب گرامی قدر جاوید احمد غامدی صاحب کورنگی کراچی میں ہمارے گھر تشریف لائے تو ملک نواز احمد اعوان اور جناب شکیل صاحب بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ملک نواز احمد اعوان بے لوث شخصیت کے مالک تھے۔
جیسا کہ جناب رفیع الدین ہاشمی نے ملک نواز احمد اعوان پر اپنے ایک مضمون میں بتایا کہ ایک وقت میں لاہور میں مظفر بیگ صاحب کے رسالے ”آئین“ کو ابتدائی دنوں میں شدید مالی مسائل کا سامنا تھا۔ ملک نواز صاحب کراچی میں آئین کا رسالہ تیار کراتے، کتابت کراتے، سرورق کی خطاطی بھی خود کرتے یا کراتے، کچھ لوازمے کے پازیٹیو بنواتے اور یہ تمام چیزیں لے کر رات کی ٹرین سے لاہور کے لیے روانہ ہو جاتے۔ علی الصبح لاہور پہنچتے، نسیم مارکیٹ میں واقع آئین کے دفتر جاتے، تمام چیزیں مظفر بیگ صاحب کے حوالے کرتے ملاقات اور ناشتے سے فارغ ہو کر اگلی ریل سے کراچی کے روانہ ہو جاتے۔ یہ معمول انہوں نے کم و بیش ڈیڑھ برس اختیار کیے رکھا۔ آئین کے حوالے سے بتاتا چلوں کہ ایک شمارے میں ”بنام اختر مسلم“ کے عنوان سے ان مشاہیر کے وہ خطوط شائع کیے کہ جو انہوں نے میرے والد صاحب کو لکھے یا ان شخصیات کو والد صاحب نے لکھے۔
انسان دوستی، ہمدردی اور ایثار کی عمدہ مثال تھے۔ عربی کے نامور مترجم خطیب محمد ظہیر الدین بھٹی جنھیں ہم ”چچا خطیب“ کہتے ہیں، نے بہت خوبصورت جملہ کہا کہ ”ملک نواز صاحب اسم بامسمیٰ تھے“۔ علم سے بھی نوازتے، پرخلوص مشوروں سے بھی نوازتے، مایوسی میں ہمت بھی دیتے اور مالی تعاون بھی دوست احباب کے ساتھ کرتے۔ اپنے حلقے کے دوستوں کو ان کی علمی صلاحیتوں کو ابھارنے میں خوب ہمت اور مواقع فراہم کرتے۔ بے شمار لوگ ہیں جنہوں نے ملک نواز صاحب کی وجہ خوب نام کمایا۔
کراچی میں جب کاروبار میں بھرپور فعال تھے تو ہر رمضان میں احباب کو افطاری کے سامان تحفتاً پیش کرتے۔ کراچی میں کسی غریب بچی کی شادی ہو، کسی کے علاج معالجے کا مسئلہ ہو یا کوئی اور معاملہ، ملک صاحب بس میں بیٹھتے صاحب ثروت احباب سے تعاون کی اپیل کرتے اور اپنا حصہ ڈال کر سامان یا نقدی متعلقین تک پہنچا دیتے۔ لاہور منتقلی کے بعد بھی یہ حتیٰ الامکان یہ فریضہ انجام دیتے رہے۔
جب میرے والد صاحب کا انتقال ہوا تو اس کے بعد انہوں نے میرے ساتھ اپنے تعلق کو مزید گہرا کیا۔ کراچی سے ہفتے میں ایک دو بار فون کرتے اور جب لاہور منتقل ہوئے تب بھی ہفتے میں کم و بیش دو بار طویل گفتگو ہوتی۔ کتابیں تجویز کرتے اور میرے کالموں کی بہتری کے لیے عمدہ تجاویز دیتے۔ لاہور منتقل ہوئے تو میں جب بھی لاہور جاتا تو خدمت میں حاضر ہوتا اور علمی اور روحانی فیض حاصل کرتا۔ نوکری کے بعد میں نے کاروبار شروع کیا تو خوب حوصلہ افزائی فرمائی۔ پچھلے سال جب میں نے ایک معروف مذہبی اسکالر کے اسلام آباد دفتر کا انتظام سنبھالنا چاہا تو سختی سے منع کیا کہ معاشرے میں عدم برداشت کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، آپ کا نیا کاروبار ہے اور سب سے بڑھ کر بچیوں کا ساتھ، آپ اس قسم کے تجربات سے دور رہیں۔ ہاں مگر اپنی ذات اور اپنے خاندان میں اسلامی اور اخلاقی اقدار کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔ قرآن مجید پڑھنے کی تاکید کرتے۔ فرماتے کہ چاہے ایک صفحہ پڑھیں مگر پڑھیں ضرور۔
ہر نئی کتاب کا ضرور بتاتے بلکہ اکثر خرید کر بھیجتے۔ عمدہ حس مزاح کے مالک تھے۔ میں اگر دو تین دن فون نہ کر پاتا تو خود فون کرتے اور ازراہ مذاق کہتے کہ بھائی 70 سال کے بعد بندہ ریڈ زون میں ہوتا ہے، فون کر لیا کریں۔ گرامی قدر ڈاکٹر پروفیسر معین الدین عقیل صاحب نے واٹس ایپ پر ان کی علالت کی خبر دی۔ فون کیا تو آنٹی نے بتایا کہ ایک دم چپ ہو گئے ہیں۔ اگلے دن یہ المناک خبر ملی کے ملک نواز صاحب وفات پا گئے ہیں۔ انھیں آخری درجے کا بلڈ کینسر تشخیص ہوا اور اسی دوران برین ہیمرج بھی ہو گیا۔ نیک آدمی تھے بستر پر زیادہ دن نہ رہے۔ ان کی دعا بھی یہ ہی تھی۔ ان کی وفات سے میں ایک مخلص اور عالم بزرگ سے محروم ہوا اور دبستان علم و ادب ایک وسیع المطالعہ شخصیت سے۔ پروردگار ان کے بہت بہت درجات بلند فرمائے۔ آمین
تبصرے بند ہیں.