قرآن و سنت کی روشنی میں دو عمل ایسے ہیں جن کا ثواب کبھی تولا نہیں جا سکتا، ایک معاف کرنا اور ایک انصاف کرنا اور بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ان دونوں اقوال سے محروم ہے۔
ارشاد خداوندی ہے کہ میری بنائی کسی چیز کو برا مت کہو، اور جس انسان کو میں نے بنایا ہے، اس کی شکل مت بگاڑو اور اس کو کسی غلط نام سے منسوب نہ کرو۔ ہمارے نزدیک لوگوں کے نام بگاڑنا، غلط ناموں سے منسوب کرنا اور غلط طریقے سے پکارنا اب ایک روایت بن چکا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں آئے انسان کو ان کے بزرگ جو نام دیتے ہیں وہ گو وقت، حالات اور زمانے کے ساتھ نہیں بدلتے۔ انسان بدل جاتے ہیں، ادارے بدل جاتے ہیں، مگر نام وہی جو پیدائش سے لے کر موت تک رواں دواں رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ در سلسلہ کہانی ہے اور اس کے ہر پرت پر اسلامی روایات کی بھرپور مثالیں موجود ہیں۔
2024ء کے انتخابات کے سلسلے میں الیکشن کمیشن نے مختلف امیدواروں کو جو نشانات الاٹ کئے ان میں سے کچھ نشانات ایسے ہیں جن سے انسان کی تضحیک ہوتی نظر آتی اور یہ نہیں ہونا چاہئے تھا کیوں آپ ایسے نام دے رہے ہیں جو کسی بھی طور پر کسی بھی پارٹی کے امیدوار کے شایان شان نہیں۔ دوسرے معنوں میں یہ عوام میں بھی مذاق بن جاتے ہیں۔ جیسے لوٹا کے نشان پر امیدوار کو اپنے مخالفین سے بہت کچھ سننا اور سہنا پڑتا ہے۔ سلوگن کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو کسی بھی پراڈکٹ یا کسی ادارے کی شناخت اس کا سلوگن ہوتا ہے اور اگر سیاسی جماعتوں کے حوالے سے بات کی جائے تو جب تیر کا نشان سامنے آتا ہے تو پھر بھٹو کی یاد آتی ہے۔ جب اے این پی کا سلوگن آتا ہے تو باچا خان اور ولی خان کی یاد آتی ہے۔ اور بہت سی ایسی سیاسی پارٹیاں جو اپنا وجود کھو چکی ہیں یا جو پارٹیاں موجود ہیں، ان کا جھنڈا، جھنڈے کی کلر سکیم اور ان کا انتخابی نشان جو عشروں سے لوگوں کے دلوں میں اتر چکے ہیں، آپ ان کو مٹا نہیں سکتے۔ آپ لاکھ اختلافات رکھیں لیکن اس کا انتخابی سلوگن ہی اس جماعت کا بنیادی رنگ ہوتا ہے جس طرح کسی شخص کی رکنیت اس جماعت کا اہم جز بن جاتا ہے اسی طرح اس کا جھنڈا اور انتخابی نشان اس کے سیاسی مشن کے ساتھ جڑا ہوا نظر آتا ہے۔ اسی طرح آج بھی جب جماعت اسلامی کا جھنڈا نظر آتا ہے تو ذہن میں مولانا مودودیؒ کا نام آتا ہے۔ یعنی پارٹی رہنما اور ان کے سلوگن ہی سب سے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف پچھلے 25سال سے پاکستان کی سیاست میں ایک بڑی پارٹی کے طور پر اپنا پرچم اور انتخابی سلوگن اٹھائے ہوئے ہے۔ جس طرح (ن) لیگ کی شناخت شیر، پیپلزپارٹی کی تیر، جماعت اسلامی کا ترازو، اسی طرح تحریک انصاف گزشتہ تین عشروں سے بلے کے نشان پر اپنی شناخت رکھے ہوئے ہے۔ البتہ یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ بہت سے نظریاتی اور سیاسی اختلافات کے باوجود چاہے عمران خان کی حکومت سلیکشن کے ذریعے آئی، البتہ وہ ایک بڑی جماعت اور اس کے کروڑوں ووٹرز اور بلا اس جماعت کی بڑی شناخت ہے۔ ہمارے نزدیک سپریم کورٹ سے جو بھی فیصلہ آیا اس پر کوئی دو رائے نہیں کہ قانون نے اپنا راستہ دیکھا، اور عدالت نے اس پر عمل کیا۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ تحریک انصاف کو ان کا انتخابی نشان بلا دیدیا جاتا تو کم از کم انتخابات پر سوالیہ نشان نہ اٹھتے۔
دُکھ تو اِس بات کا ہے کہ تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کی حیثیت سے الیکشن کمیشن نے جو نشانات الاٹ کئے، ان میں بہت سے نشانات ایسے ہیں جس سے انسانی تضحیک کی جھلک نظر آتی ہے۔ مثلاً بیرسٹر گوہر کو چینک جبکہ ان کو قانونی نشان دیا جا سکتا تھا۔ عالمگیر خان کو بینگن، امین گنڈاپور کو بوتل، زین قریشی کو جوتا، مہر بانو کو چمٹا اور مراد سعید کھیرا دیا گیا۔ زین قریشی کے حوالے سے بات کی جائے تو ان کا تعلق ایک روحانی گھرانے سے ہے۔ کم از کم اس بات کا خیال کر لیا ہوتا کہ پورے پاکستان میں قریشی خاندان کی شناخت سیاست کی بجائے خاص کر مذہبی حوالے سے زیادہ ہے اور ان کو جوتے کا نشان نہیں ملنا چاہئے تھا۔ بہرحال یہ ایک اعتراض ہے۔ اسی طرح جب بوتل کا ذکر آتا ہے تو ہماری سوسائٹی میں اس کی یاد شراب کے حوالے سے منسوب کی جاتی ہے۔ اختلافات اپنی جگہ سہی لیکن کسی سیاسی جماعت کو اس کے انتخابی نشان کو جوکہ لوگوں کے دلوں میں گھر چکا ہے، محروم نہیں کر سکتے اور آپ نے ایسا کر ہی دیا ہے تو پھر ڈھنگ کے نشان دینا بھی آپ کا فرض ہے۔
اور آخر بات…
انتخابی نشانات سے ابن انشاء کی ایک بات بہت یاد آ رہی ہے۔
ایران میں کون رہتا ہے؟
ایران میں ایرانی قوم رہتی ہے۔
فرانس میں کون رہتا ہے؟
فرانس میں فرانسیسی قوم رہتی ہے۔
یہ کونسا ملک ہے؟
یہ پاکستان ہے۔
اس میں پاکستانی قوم رہتی ہوگی؟
”نہیں“ اس میں پاکستانی قوم نہیں رہتی۔
اس میں کونسی قوم رہتی ہے۔
اس میں سندھی قوم رہتی ہے۔
اس میں پنجابی قوم رہتی ہے۔
اس میں بلوچی قوم رہتی ہے۔
اس میں یہ قوم رہتی ہے۔
اس میں وہ قوم رہتی ہے۔
یہی ملتی جلتی کیفیت انتخابی نشانات کے ساتھ ہے۔ خاص کر تحریک انصاف کے حوالے سے بکھرے نشانات میں ووٹر بے چارہ پھنس جائے گا کہ کس کے نشان پر ٹھپہ لگائو، کس کے نام پر نہ لگائوں۔ یہ تو ایسے ہی ہے ایک دوست دوسرے دوست سے کہہ رہا تھا۔
میری بیوی ڈاکٹر نہیں پھر بھی اس جیسی پٹی کوئی نہیں کر سکتا۔‘‘
وہ پٹی کرنے کے لیے کیا کرتی ہے؟
پہلے زخم لگاتی ہے۔
تبصرے بند ہیں.