دل کے ہسپتال کو بھی نہیں بخشا گیا تھا۔۔۔۔۔۔!

131

راولپنڈی کچہری چوک سے مال روڈ (شاہراہ شیر شاہ) پر جانب مغرب آگے بڑھیں تو تقریباً ڈیڑھ دو کلومیٹر کے فاصلے پر بائیں طرف ملٹری ہسپتال کا کمپلیکس پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کی مال روڈ والی سائیڈ پر چار منزلہ ایک خاموش سی پُر وقار عمارت کھڑی ہے جس کے شمال مشرقی کونے میں انسانی دل کا ماڈل آویزاں ہے تو ساتھ ہی جلی انگریزی حروف میں اوپر نیچے لکھے ARMED FORCES INSTITUTE OF CARDIOLOGY اور National Institute of Heart Diseases کے الفاظ میں اس کا تعارف بھی موجود ہے۔ اس عمارت اور اس میں قائم علاج گاہ کا تذکرہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس کا حوالہ آگے چل کر آئیگا۔ پہلے اس کا مزید تعارف کرانا مقصود ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلی صدی کے آخری عشرے میں تعمیر کی جانے والی یہ عمارت اپنی تعمیر کے مخصوص مقاصد کے پیشِ نظر شروع دن سے بڑی اہمیت اور خصوصی مقام کی حامل چلی آ رہی ہے۔ یہاں قائم علاج گاہ میں جہاں دل کے پیچیدہ امراض کا تسلی بخش علاج ہوتا ہے وہاں یہ علاج گاہ عسکری ادارہ برائے امراضِ قلب اور قومی ادارہ برائے امراضِ قلب دونوں حیثیتوں سے بیک وقت اپنے وظائف سر انجام دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی اوپر والی منزل کی چھت پر بنی بالکونی کی سامنے والی دیوار پر AFIC اور NIHD دونوں نام لکھے ہوئے ہیں۔

ذاتی طور پر AFIC کی میرے لیے اس لیے بھی بڑی اہمیت ہے کہ اس علاج گاہ سے مجھے استفادہ کرنے کا موقع مل چکا ہے۔ موجودہ صدی کے پہلے سال کے ان ہی دنوں کا ذکر ہے کہ میری والدہ محترمہ بے جی مرحومہ اپنے دل کے عارضے کی وجہ سے تقریباً دو ہفتے یہاں داخل رہیں اور بعد میں اگلے سال کے دوران اپنی وفات تک ہر ماہ اپنے چیک اپ کے لیے یہاں لائی جاتی رہیں۔ پچھلے سال ستمبر کے اوائل میں ایک دن اچانک مجھے بھی دل کی کچھ تکلیف محسوس ہوئی تو اپنے بیٹے کی معیت میں مجھے یہاں کے جدید ترین طبی سہولتوں کے حامل ایمرجنسی وارڈ میں کچھ گھنٹے گزارنا پڑے، یہاں تک مجھے مزید دیکھ بھال اور علاج کے لیے آر ۔آئی ۔ سی (راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی) جو بلا شبہ دل کے امراض کا ایک قابلِ فخر ادارہ ہے بھجوا دیا گیا۔

ہمارا آج کا موضوع اس قابلِ فخر ادارے یا علاج گاہ کے بارے میں چار پانچ روز قبل سامنے آنے والی ایک لرزہ خیز ویڈیو سے متعلق ہے۔ اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ9 مئی کو شر پسند عناصر کیسے اس ادارے میں دندناتے پھرتے، لوٹ مار اور توڑ پھوڑ میں مصروف رہے۔ کیسے وہ یہاں کی تنصیبات کو لاٹھیوں سے توڑتے رہے اور کیسے انہوں نے پٹرول بم پھینکے اور کچھ وہیکلز اور تنصیبات کو آتش زنی کا نشانہ بنایا۔ یقینا یہ سب کچھ اتنے شرم ناک، افسوس ناک اور تکلیف دہ مناظر سے عبارت ہے کہ اس کو دیکھ کر دل کانپنے اور جسم لرزنے ہی نہیں لگتا بلکہ یہ درد بھرا احساس بھی اُبھرتا ہے کہ ہم میں اتنے بے حِس، بے درد، بے پروا، ضدی، ہٹ دھرم اور عقل و خر د سے عاری درندہ صفت افراد یا عناصر موجود ہیں جو کسی کے ورغلانے پر انتقامی جذبات سے مغلوب ہو کر سب کچھ تباہ و برباد کرنے پر تیا ر ہو جاتے ہیں۔ ان کی بے حِسی اور عاقبت نااندیشی کا عالم یہ ہے کہ وہ علاج گاہوں اور ہسپتالوں جیسے مخصوص عزت اور مقام و مرتبے کے حامل اداروں کو تہس نہس کرنے یا ان کو نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

9 مئی کے انتہائی تکلیف دہ اور قابلِ مذمت واقعات کے بارے میں بہت کچھ سامنے آ چکا ہے۔ AFIC میں شر پسندوں کی توڑ پھوڑ اور اس کو نشانہ بنانے کی اس ویڈیو سے مزید اس حقیقت کا اظہار سامنے آتا ہے کہ اس دن یعنی 9 مئی اور اس سے اگلے دن ایک سیاسی جماعت کی اعلیٰ ترین قیادت کی ہدایات کی روشنی میں با قاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ملک بھر میں عسکری تنصیبات، فوجی اداروں اور قومی یادگاروں کو اس طرح نشانہ بنایا گیا کہ عام لوگوں میں جہاں مسلح افواج کے خلاف نفرت کے جذبات کو ہوا ملے وہاں اعلیٰ ترین فوجی قیادت بالخصوص آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے خلاف اپنے ادارے کے اندر امکانی بغاوت کے تاثر کو سامنے لایا جا سکے۔ یہاں زیادہ تفصیل میں نہیں جاتے لیکن 9 مئی کو پورے ملک میں پُر تشدد احتجاج کی جو لہر اٹھی، وسیع پیمانے پر عسکری تنصیبات، اداروں اور عساکرِ پاکستان سے متعلقہ یادگاروں کو جو نشانہ بنایا گیا، اس کی ترتیب، وقت کے تعین اور پورے ملک میں تقریباً ایک ہی وقت میں اس پر عمل در آمد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سب کچھ ایسے ہی نہیں ہو گیا تھا بلکہ واضح منصوبہ بندی اور متعلقہ سیاسی جماعت کی اعلیٰ ترین قیادت کی ہدایات کی روشنی میں ہوا۔ اس کا ایک ہی مقصد تھا کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی ذات کو متنازع بناکر اُن کے خلاف بغاوت کی راہ ہموار کی جا سکے۔

9 مئی کے واقعات کے بارے میں یہ سب کچھ انتہائی اہم ہے اور اس کے بارے میں ناقابلِ تردید حقائق و شواہد سامنے آ چکے ہیں تاہم کچھ حلقوں کی طرف یہ تلقین بھی سامنے آ رہی ہے کہ9 مئی کو جو کچھ ہوا اس کو نظر انداز کر دیا جائے یا اس پر مٹی ڈال دی جائے اور اس میں ملوث افراد کے بارے میں معافی تلافی یا عفوو در گزر سے کام لیا جائے۔ یہ سوچ اپنی جگہ اچھی ہے لیکن کیا ایسا کرنا قانون کے ضابطوں، عدل و انصاف کے تقاضوں اور سزا و جزا کے ابدی اصولوں کے مطابق درست ہو گا۔ مان لیا عفو و در گزر اور معافی تلافی اچھی سوچ ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ عفو و در گزر کے طالب اپنی غلطیوں اور حرکات پر شرمسار، نادم اور پشیمان ہونے کے ساتھ آئندہ کے لیے ان سے اجتناب برتنے کے لیے بر سر عام آمادہ بھی ہوں۔ کیا 9 مئی کے پُر تشدد احتجاج کی جنہوں نے منصوبہ بندی کی اور اس کے لیے واضح ہدایات دیں وہ اس کے لیے تیار ہیں۔ یقینا ایسا نہیں ہے تو پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کو معاف کر دیا جائے۔ اس صورت میں کیا یہ ریاستی اداروں، مقتدر حلقوں اور عدل و انصاف کے ایوانوں کی ذمہ داری نہیں کہ وہ 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے معاملات کو منطقی انجام تک پہنچا ئیں۔ یہ وقت کا تقاضا ہے اور اس کے بغیر ریاست کے معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ایک واضح اور ٹھوس لائحہ عمل سامنے لانا ضروری ہے جس میں قانون کے ضابطوں کی پاسداری اور عدل و انصاف کے تقاضوں پر عمل در آمد کا عکس جھلکتا نظر آنا چاہیے ورنہ جس کی لاٹھی اسکی بھینس کے جنگل کے قانون کی عمل داری ہی سامنے آئے گی۔

تبصرے بند ہیں.