پی ٹی آئی کا ‘بلا’، الیکشن کمیشن کی اپیل پر سپریم کورٹ میں سماعت جاری

70

 

اسلام آباد:  سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریک انصاف کو بلے کا انتخابی نشان واپس کرنے کے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل پر براہ راست سماعت جاری ہے۔

 

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ آج سماعت کر رہے ہیں، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اور مسرت ہلالی شامل ہیں۔الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان اور قانونی ٹیم، پی ٹی آئی کے بیرسٹر گوہر علی خان، وکیل حامد خان، وکیل شعیب شاہین، پی ٹی آئی چیف الیکشن کمشنر نیاز اللہ نیازی بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں، اس کے علاوہ علی ظفر لاہور رجسٹری سے ویڈیو لنک پر موجود ہیں۔

 

سماعت کے آغاز پر الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان اور وکیل حامد خان روسٹرم پر آ ئے،  چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا پشاور ہائیکورٹ کا تفصیلی فیصلہ آ گیا ہے؟ جس پر پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے عدالت کو جواب دیا کہ تفصیلی فیصلہ ابھی نہیں آیا۔

 

الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے بلے کا نشان واپس کرنے کا فیصلہ پڑھ کر سنایا، جس پر تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ ہمیں کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔

 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیس کی فائل میں نے بھی نہیں پڑھی، انہوں نے حامد خان سے سوال کیا کہ آپ مقدمہ کیلئے کب تیار ہونگے؟  پی ٹی آئی کے وکیل نے جواب دیا کہ پیر کو سماعت رکھ لیں۔

 

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کل امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ ہونے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابی نشان کل الاٹ ہو جائیں گے تو اس کے بعد سماعت کرنے کا کیا فائدہ؟ جیف جسٹس نے کہا کہ پیر تک سماعت ملتوی کرنے کیلئے ہائی کورٹ کا حکم معطل کرنا پڑے گا، ہم تو ہفتے اور اتوار کو بھی سماعت کیلئے تیار ہیں۔

 

جس پر وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ اس صورت میں تیاری کیلئے کل تک کا وقت دیں۔ جیف جسٹس نے ریمارکس دہے کہ ایسا کرتے ہیں کیس کی سماعت کل کیلئے رکھ دیتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہفتے اور اتوار کی چھٹی قربان کر کے انتخابات کے کیسز سن سکتے ہیں، صرف یہ چاہتے ہیں کہ انتخابات وقت پر اور قانون کے مطابق ہوں، معلوم ہے کہ اب انتخابات میں وقت کم ہے۔

 

وکیل حامد خان نے کہا کہ اس صورت میں تیاری کے لیے کل تک کا وقت دیں، الیکشن کمیشن بتائے وہ کس طرح اپیل داخل کر سکتا ہے؟ الیکشن کمیشن ایک جزوی عدالتی فورم ہے ان کا حقِ دعویٰ نہیں بنتا۔

 

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ بھی ہے، اگر آپ الیکشن کمیشن کی اپیل کے قابلِ سماعت ہونے پر اعتراض اٹھائیں گے تو یہی سوال آپ پر آئے گا، آپ پر بھی سوال آئے گا کہ آپ پشاور ہائی کورٹ میں کیسے چلے گئے؟

 

الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ تحریک انصاف کے گزشتہ پارٹی انتخابات 2017 میں ہوئے تھے، پارٹی آئین کے مطابق تحریک انصاف 2022 میں پارٹی انتخابات کرانے کی پابند تھی، الیکشن کمیشن نے پارٹی آئین کے مطابق انتخابات نہ کرانے پر پی ٹی آئی کو نوٹس جاری کیا۔

 

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کے آئین میں الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا طریقہ کار کہاں درج ہے؟ الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پہلے جمال انصاری بعد میں نیاز اللّٰہ نیازی پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر بنے۔

 

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ پارٹی آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کے باقی ارکان کون تھے؟الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کے علاوہ کوئی اور ممبر تعینات نہیں تھا۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان سے سوال کیا کہ کیا یہ بات درست ہے؟ پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کی یہ بات درست نہیں۔

 

 

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کی دستاویزات کہاں ہیں؟ پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ کیس کی تیاری کے لیے وقت اسی لیے مانگا تھا، الیکشن کمیشن کی اپیل قابلِ سماعت اور حقِ دعویٰ نہ ہونے پر بھی دلائل دوں گا، مناسب ہو گا کہ پہلے حقِ دعویٰ اور قابلِ سماعت ہونے کا نکتہ سن لیں، ایک فریق پارٹی جو الیکشن کمیشن کے آرڈر سے متاثرہ ہے اس کا حقِ دعویٰ تو بنتا ہے۔

 

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، یہاں روز کلکٹر اپنے آرڈرز کے دفاع کے لیے آتا ہے، اس پر تو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔  تحریک انصاف کے وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کا انحصار آئین نہیں الیکشن ایکٹ پر ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی بات مان لی تو یہ آئینی ادارے کو ختم کرنے والی بات ہوگی۔

 

چیف جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ کسی آئینی ادارے کا کام خود نہیں کرینگے، الیکشن کمیشن کے وکیل کو کیس کے حقائق سے آگاہ کرنے دیں، انہوں نے سوال کیا کہ پارٹی الیکشن کمیشن کی تقرری کی دستاویز کہاں ہے؟

جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ عدالت باضابطہ نوٹس جاری کرتی تو آج دستاویزات بھی لے آتے۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی خود ہائیکورٹ گئی تھی انہیں تو اپیل دائر ہونے پر حیران نہیں ہونا چاہیے تھا، الیکشن کمیشن سے کارروائی کا مکمل ریکارڈ منگوا لیتے ہیں۔  الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی کے پارٹی الیکشن کیخلاف 14 شکایات ملی ہیں، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ درخواستیں کس نے داٸر کیں؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ درخواستیں دینے والے تحریک انصاف کے لوگ تھے۔

 

اکبر ایس بابر کے وکیل روسٹرم پر آ گئے، انہوں نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ ہماری درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ، اکبر ایس بابر فاونڈر ممبر پی ٹی آئی ہے، وہ پارٹی میں مختلف عہدوں پر تعینات رہے۔ جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پھر وہ پی ٹی آئی کے ممبر کیوں نہیں؟ چیف جسٹس نے حامد علی خان سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے اکبر ایس بابر کو پارٹی سے نکال دیا؟

 

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فاونڈر ممبر تو میرے حساب سے کبھی ختم نہیں ہوتا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا انہوں نے کسی اور جماعت میں شمولیت اختیار کی؟جس پر حامد خان نے جواب دیاکہ یہ تو ایک اور بحث ہے کہ کون فاونڈنگ ممبر ہے کون نہیں، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ حامد خان صاحب کیا آپ تحریک انصاف کے فاونڈنگ ممبر نہیں ؟ تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ جی میں پارٹی کا فاونڈنگ ممبر ہوں۔

 

 

 

 

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، الیکشن کمیشن کی طرف سے دائر اپیل میں موقف اختیار کیا گیا کہ پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔ہائیکورٹ کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں ہے۔

 

واضح رہے کہ گزشتہ روز پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو حکم دیا تھا کہ پی ٹی آئی کو بلے کا نشان الاٹ کیا جائے۔

تبصرے بند ہیں.