گذشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس کے دوران صحافی نے جب وزیر اعلیٰ پنجاب سید محسن نقوی سے پنجاب اور بالخصوص لاہور میں جاری تجاوزات مافیا ز کے خلاف آپریشن کی ناکامی کی وجوہات بارے سوال کیا تو ان کا جواب تھا کہ میں نے شکست تسلیم کر لی ہے۔ یاد رہے اس آپریشن کے آغاز میں ہی راقم نے ایک کالم بعنوان :’’ضلعی انتظامیہ لاہور کی صفر کارکردگی‘‘ تحریر کیا تھا اور جس میںپیشگی ہی تجاوزات کے خلاف آپریشن کی ناکامی کی بارے آگاہ کر دیا تھا اور اس کی وجوہات بھی عرض کی تھیں۔ اس سے بڑی بد قسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ ایک طاقتور صوبے کا طاقتور اور متحرک وزیر اعلیٰ شکست تسلیم کر لے اور جس شکست کے پیچھے بیورو کریسی نامی مخلوق کی نا اہلی ، سستی اور رشوت ستانی کے واقعات ہوں ۔ میں نے عثمان بزدار کے دور میں کرپشن کہانیوں پر کھل کر لکھا کہ کیسے پھل منڈی و سبزی منڈی کی طرح وزیر اعلیٰ آفس میں ہر عہدے کی بولی لگتی ہے اور جو اس بولی کو پورا کر دیتا تھاوہ اس عہدے پر براجمان ہو جاتا تھا۔ تقریباً آج بھی اعلیٰ عہدوں پر براجمان افسران وہی ہیں جو ان سیٹوں کے حصول کے لئے بھاری بھر رشوتیں دے کر آئے تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنی جیبیں بھرنے اور مال پر مال بنا نے کے علاوہ کچھ اور کام ہی نہیں ۔ اس کی تازہ مثال تاجروں کی جانب سے آرمی چیف کو لکھا گیا وہ خط ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ ملک کے اہم سیکٹرز میں سرمایہ کاری کے منصوبوں کی منظوری کے عمل کی سست روی مسائل پیدا کر رہی ہے، ذرائع نے بتایا ہے کہ انرجی سیکٹر میں سرمایہ کاری کے خواہشمند سرمایہ کاروں نے ملک کی اعلیٰ ترین شخصیت کو خط لکھا ہے اور اور ان کی توجہ اس امر کی جانب کرائی ہے کہ ان کے منصو بے بیورو کریسی کی روائتی سست روی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں، سرمایہ کاروں نے سولر اور ونڈ پاور پلانٹ کے 13 منصوبوں کی منظوری کیلئے آرمی چیف کو خط لکھ کر رابطہ کیا۔ سرمایہ کاروں نے خط میں کہا کہ بیوروکریسی کی رکاوٹ کے باعث 600 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے، منصوبوں سے 600 میگاواٹ سستی بجلی پیدا ہوگی۔خط میں کہا گیا ایس آئی ایف سی کے تحت منصوبوں کی منظوری دی جائے، ایس آئی ایف سی سے بیوروکریسی کے عمل دخل کو ختم کیا جائے، ہمارے منصوبوں کی منظوری سابق وزیراعظم شہباز شریف کی سات رکنی کمیٹی نے دی، منصوبے نگران کابینہ سے منظوری کے لئے تیار ہیں لیکن بیوروکریسی کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں۔ خط میں مزید کہا گیا بجلی کے منصوبوں سے 12 روپے فی یونٹ بجلی پیدا ہوگی، ونڈ پاور پلانٹ کے چھ منصوبے سندھ میں بنیں گے، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سولر پاور پلانٹ کے تین، تین منصوبے، پنچاب میں سولر پاور پلانٹ کا ایک منصوبہ التوا کا شکار ہے۔خط میں مزید کہا گیا منصوبوں کی تمام سٹیڈیز، گرڈز اور جنریشن لائسنس منظور ہو چکے ہیں۔
قارئین کرام ! اس سے بڑی بد قسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ اب تاجر و صنعت کار اپنے جائز حقوق کے لئے بھی آرمی چیف سے مدد طلب کریں ۔جن کاموں کے لئے بیوروکریسی نامی یہ مخلوق تنخواہیں اور مراعات لیتی ہے ،پروٹوکول کا استعمال کرتی ہے اور شاہانہ طرز زندگی کو اختیار کئے ہوئے ہے، وہ بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ظلم تو یہ ہے کہ ہر جائز کام کے آگے کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی کر دی جاتی ہے بالخصوص ملکی اور عوامی مفادات والے معاملات میں تو ایسی ایسے رکاوٹیں کھڑی کر جاتی ہیں جو صرف اور صرف’’ اوپر کے مال ‘‘سے ہی ہٹائی جاتی ہیں ۔
قارئین محترم !پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کی نئی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق عام تاثر کے برعکس پاکستان میں سرکاری افسران کی تنخواہیں اگر مراعات سمیت شمار کی جائیں تو نہ صرف پرائیویٹ سیکٹر سے بھی زیادہ ہیں بلکہ گریڈ 21 کے پاکستانی افسر پر کل خرچ ہونے والی رقم اقوام متحدہ کے افسران پر خرچ ہونے والی رقم سے بھی 12 فیصد زیادہ ہے۔یاد رہے کہ اقوام متحدہ کو عام طور پر ایک بہت فیاضانہ تنخواہ والا ادارہ گردانا جاتا ہے۔ پائیڈ نے یہ تحقیق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کے اشتراک سے کی ہے۔پائیڈ کی تحقیق کے مطابق ایک گریڈ 20 کے پاکستانی افسر کی اوسط بنیادی تنخواہ تو صرف ایک لاکھ 660 روپے ہے مگر اصل میں اسے حاصل مراعات اور فائدے ماہانہ سات لاکھ 29 ہزار 511 روپے کے برابر ہیں۔گریڈ 20 کے افسر کو دی گئی کار کے تمام اخراجات، گھر اور طبی سہولیات کا تخمینہ لگایا جائے تو وہ اس کی بنیادی تنخواہ سے بھی سات گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے۔اسی طرح سرکاری تحقیق کے مطابق گریڈ 21 کے پاکستانی افسر کی اوسط بنیادی تنخواہ ایک لاکھ 11ہزار 720 روپے ہے تاہم ان کی کار، گھر اور طبی اخراجات کے ساتھ ان کو ملنے والے مالی فوائد ماہانہ تقریباً 10 لاکھ روپے تک پہنچ جاتے ہیں۔ گویا ان کی اصل تنخواہ بنیادی تنخواہ سے گیارہ گنا زائد ہوتی ہے۔اس طرح گریڈ 22 کے ایک سرکاری افسر کی اوسط بنیادی تنخواہ تو صرف ایک لاکھ 23 ہزار 470 روپے ہوتی ہے مگر اسے دراصل 11 لاکھ روپے کے مالی فوائد ہر ماہ دستیاب ہوتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ایک وفاقی سیکریٹری کو ان کے ہم پلہ اقوام متحدہ کے افسر سے بھی زیادہ مالی فوائد ماہانہ ملتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق اقوام متحدہ کے ایک سیکریٹری لیول افسر کو تقریباً نو لاکھ 10 ہزار روپے ماہانہ ملتے ہیں۔ جوں جوں سرکاری افسران کے گریڈ بڑھتے جاتے ہیں تو ان کی بنیادی تنخواہ اور مراعات کا تناسب بھی بڑھتا جاتا ہے۔ مثلاً اگر گریڈ 20 اور 22 کے افسران کی جانب سے سرکاری گاڑیوں کے ذاتی استعمال سے ان کے اوپر خرچ ہونے والی رقم ان کی بنیادی تنخواہ سے بھی ایک اعشاریہ دو گنا بڑھ جاتی ہے۔
قارئین کرام ! یہ وہ تنخواہیں اور مراعات ہیں جو انہیں آن ریکارڈ میسر آتی ہیں لیکن بد قسمتی کے ساتھ مال بنا نے کے چکروں میں ان مراعات کو یہ کچھ سمجھتے ہی نہیں اور ان کی یہ بھاری بھر تنخواہیں بنک اکائونٹس میں بھی پڑی رہ جاتی ہیں اور اوپر والے مال سے زندگی بسر کر نے کے لئے اخراجات و ودیگر عیاشیوں کا سامان ہو تا ہے ۔ یہ ہے اس ملک کی حقیقی اشرافیہ!!!
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.