خبر میں، نظر میں، اذانِ سحر میں۔۔۔۔۔۔محسن نقوی

94

انقلاب عوام برپا کرتے ہیں جو ہمیشہ خواص کے خلاف ہوتا ہے اور یہ انقلاب وہ لیڈر لاتے ہیں جن کا ویژن اور سوچ میں ملکی ترقی کارفرما ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے بغیر کسی لگی لپٹی کے کہ یہاں کسی کے بارے کوئی کالم لکھ دیا جائے تو بہت باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ میرے نزدیک محسن نقوی کے اندر بیٹھے انسان کو ایک لیڈر ماننا پڑے گا کہ جس رفتار سے وہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی کام کرتے نظر آتے ہیں۔
کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا
خبر میں، نظر میں، اذانِ سحر میں
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انہی کے جگر میں

شہباز سپیڈو اور محسن نقوی سپیڈو کا اگر موازنہ کروں تو پھر گزشتہ 11ماہ 17دن میں تو محسن نقوی کئی محاذوں پر شہبازشریف سے بہت بہتر نظر آئے۔ پہلی بات یہ کہ محسن نقوی سیاست دان نہیں ہیں اور نگران وزیراعلیٰ کے طور پر انہوں نے پہلے روز سے آج تک جتنے کام کئے، جتنے کام ان کی سی وی میں بڑے مضبوط فیصلوں کے طور پر لکھے گئے، ان کی مثال بہت کم ملتی ہے بلکہ آن ریکارڈ ہے۔ دونوں کے انداز میں کوئی فرق نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ میاں شہباز نے بطور سیاست دان ہاں اور ناں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کئے، کہیں ان کو فرنٹ اور بیک فٹ پر کھیلنا پڑا جبکہ محسن نقوی کے ساتھ یہ معاملات نہیں جڑے۔ وہ بیک فٹ پر کھیلنے کے عادی نہیں۔ وہ ہمیشہ فرنٹ فٹ پر کھیلتے ہیں۔ ان کی دوسری خوبی یہ ہے کہ وہ جب بھی بولتے ہیں بغیر لگی لپٹی دل کی بات زبان پر لے آتے ہیں کہ وہ بنیادی طور پر صحافی ہیں اور اچھے صحافی کی بڑی شناخت یہ ہوتی ہے کہ وہ بلاخوف لکھتا، بولتا اور تحقیقاتی جرنلزم پر ایمان رکھتا ہے۔ اس کو اپنے کئے اپنے لکھنے اور اپنے بولے لفظ پر بھرپور اعتماد ہوتا ہے۔ محسن نقوی کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں وہ لاہور ہی نہیں پنجاب کو ایسے کام دے کر جائیں گے جن کو کم از کم پنجاب کا تاریخ دان ان کے کاموں کے حوالے سے بہترین وزیراعلیٰ کے نام سے منسوب کرے گا۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے خوب کہا تھا:
اُٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

یہ حقیقت ہے کہ اب نوجوانوں کا دور ہے۔ بوڑھی سیاست، بوڑھے ذہن ان کا اپنا ایک دور تھا۔ آج محسن نقوی جیسے باصلاحیت لوگوں اور لیڈروں کا دور ہے اور محسن نقوی نے یہ بات ثابت کی ہے کہ بڑے کاموں، بڑے ویژن اور مشن کی تکمیل کے لئے ضروری نہیں ہے کہ سیاست دانوں کی سند کا ہونا ضروری ہے لہٰذا انہوں نے بڑے چیلنج قبول کرتے ہوئے ایک سال کی کم مدت میں بڑے کارنامے سرانجام دے ڈالے اور ناممکن کو ممکن کرکے دکھا دیا۔ دکھی انسانیت کی خدمت ہو، ماڈل تھانوں کا ذکر ہو، ٹریفک کے مسائل، ناجائز تجاوزات سے سڑکوں اور پلوں تک کا مسئلہ ہو انہوں نے گیارہ ماہ میں گیارہ سال کے کام کر ڈالے۔

گزشتہ دنوں ایک پریس بریفنگ میں انہوں نے بڑے کھلے انداز سے جہاں قانون کو آڑے ہاتھوں لیا وہاں انہوں نے دل کی وہ بات کہہ ڈالی جو ”صاحب اقتدار” شرمندگی محسوس کرتے ہوئے نہیں کرتے۔ ان سے سوال کرنے والے نے پوچھا کہ ادھر آپ نے ناجائز تجاوزات کے لئے اقدامات کئے، دوسری طرف لوگوں نے پھر وہاں قبضے کر لئے تو محسن نقوی بولے… ہم کیا کریں یہاں کے قانون ایسے ہیں کہ ہم اپنی طرف سے قانون پر عملدرآمد کراتے ہوئے بہتری کے لئے اقدامات کرتے ہیں تو اگلے روز وہ بندہ عدالت سے ضمانت، سٹے آرڈر لے آتا ہے، یہاں ہم کیا کریں۔

وزیراعلیٰ نے جہاں فرسودہ قانون پر اظہار برہمی کیا وہاں ہم یہ بات سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ کاش اس ملک کا اگر قانون مضبوط ہوتا تو آج معاشرے میں ہر طرف پھیلی بہت سی تباہیوں سے ہم محفوظ رہتے۔ اگر قانون اپنے ہی قوانین پر عملدرآمد کراتا تو اس کے ڈر و خوف سے کم از کم ہماری نسلیں ہی سنور جاتیں۔ ہمارے لئے اس سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ یہ بات کوئی عام آدمی نہیں کہہ رہا بلکہ صوبے کا ایک ایسا حکمران جس کا تعلق سیاست سے نہیں ہے اور وہ کوئی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے نہیں کھیل رہا۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہماری عدلیہ پر جو سوالات اٹھ رہے ہیں، وہ غلط نہیں ہیں۔ گزشتہ روز میں نے اپنے کورٹ رپورٹر شعیب علی سے زیر التواء کیسز کے بارے میں پوچھا کہ سپریم کورٹ خاص کر لاہور ہائی کورٹ میں مقدمات کی صورت حال کیا ہے تو انہوں نے جو اعداد و شمار دیئے وہ جہاں ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہیں، وہاں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی اس بات کو تقویت فراہم کرتے ہیں کہ ہم مقدمات تو دائر کر دیتے ہیں، ملزم پکڑنے کے بعد ضمانت پر چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔ اگر بروقت ان فیصلوں پر عملدرآمد ہو جائے تو ہمارا نظام بہتری کی طرف چل نکلے۔ اس سے پہلے کہ بات کو آگے لے کر چلوں پہلے ایک نظر شعیب علی کی مختصر رپورٹ پر ڈالتے چلیں۔

کہتے ہیں کہ انصاف میں تاخیر انصاف نہ دینے کے مترادف ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرنے والے سائلین کو درپیش ہے، جہاں سائلین کو بروقت انصاف کی فراہمی کے لئے عدالتی اصلاحات سمیت دیگر اقدامات بھی معاون ثابت نہیں ہو سکے اور زیر التواء مقدمات کے بوجھ میں کمی کی بجائے روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ 16 دسمبر 2023ء کو سپریم کورٹ اور یکم ستمبر 2023ء کو لاہور ہائیکورٹ میں مجموعی طور پر زیر التواء مقدمات کی تعداد 2،45،123 تھی۔ تاہم سال 2024ء کے پہلے روز ان میں کمی ہونے کی بجائے 4،665 مقدمات کے بوجھ کا اضافہ ہوا اور یہ تعداد بڑھ کر 2،49,778 ہو گئی۔ ان میں 55،968 مقدمات سپریم کورٹ جبکہ 1،93،810 مقدمات لاہور ہائیکورٹ میں زیر التواء ہیں۔ سپریم میں زیر التواء مقدمات کی تعداد میں یہ اضافہ صرف پندرہ روز میں ہوا جبکہ لاہور ہائیکورٹ میں یہ اضافہ چار ماہ میں سامنے آیا ہے۔ سپریم کورٹ کی پندرہ روزہ کارکردگی رپورٹ کے مطابق ملک کی سب سے بڑی عدالت اور اس کی علاقائی رجسٹریوں میں 16 دسمبر کو 55،604 مقدمات زیر التواء تھے جو کہ 31 دسمبر 2023ء کو 364 مقدمات کے اضافے کے ساتھ 55،968 ہو چکے تھے۔

اور آخری بات…
میں  نے کالم کے آغاز میں لکھا کہ شہباز اور محسن نقوی سپیڈو کا موازنہ کروں تو پھر میاں شہباز کی سیاست کے پیچھے تقریباً چار دہائیوں کی سیاست جبکہ نگران وزیراعلیٰ کے گیارہ ماہ اور چند دن… باقی خدا خیر کرے۔

تبصرے بند ہیں.