انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد، ایک بڑی سازش

58

سینیٹ میں 8 فروری کے عام انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد کی منظوری نے قیاس آرائیوں کو بھی خدشات میں بدل دیا ہے کہ پاکستان میں الیکشن مقررہ وقت پر ہو پائیں گے یا نہیں؟۔ ملک میں بارھویں عام انتخابات کو ٹالنے کے لیے جس طرح حیل و حجت سے کام لیا جا رہا ہے اس سے سازش کی بو آ رہی ہے۔ حالانکہ جمہوری نظام کیلئے الیکشن کا مقررہ وقت پر انعقاد ناگزیر ہے۔ گذشتہ دنوں سے ملکی سیاسی منظر نامے پر ایک بے یقینی سی چھائی ہوئی ہے افسوس! الیکشن میں تاخیر کی بازگشت پاکستان کے ایوانِ بالا سے ابھری۔ سینیٹ میں ملک میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی کے واقعات کو بنیاد بنا کر انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد منظور ی سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ کچھ مخالف قوتیں پاکستان میں جمہوری انتخابی عمل کے خلاف ہیں۔

قرارداد سینیٹر دلاور خان نے پیش کی، قرارداد پیش کرتے وقت سینیٹ میں صرف 14 اراکین موجود تھے، 11 نے حق میں ووٹ دیا۔ جبکہ قرارداد سینیٹ کے ایجنڈے کا حصہ بھی نہیں تھی، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ایجنڈا معطل کر کے سینیٹر دلاور خان کو قرارداد لانے کی اجازت دی، بلوچستان عوامی پارٹی سے منسلک اور فاٹا ارکان نے قرارداد کی حمایت کی، نواز لیگ کے افنان اللہ، پیپلز پارٹی کے بہرہ مند تنگی، تحریک انصاف کے گردیپ سنگھ نے مخالفت کی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ الیکشن ملتوی کیے جائیں، جنوری اور فروری میں بلوچستان کے کئی علاقوں پر موسم سخت ہوتا ہے، مولانا فضل الرحمن اور محسن داوڑ پر حملے ہوئے اور کئی لیڈرز کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔ سینیٹ وفاق کے حقوق کا ضامن ہے یہ نہیں کہ اس فورم پر الیکشن شیڈول کو ہی ملتوی کر دیا جائے۔ اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ سینیٹ میں انتخابات کے التوا کی قرارداد آئین، جمہوریت اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی اور ملک و ملت سے دشمنی کے مترادف ہے۔

پاکستان میں انتخابات میں مزید تاخیر کے یقینا ملک پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ قبل ازیں انتخابات نومبر 2023 میں ہونے والے تھے لیکن نئی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کی ازسر نو تشکیل کے بہانے انہیں ملتوی کرنا پڑا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق سینیٹ کی قرارداد کی کوئی حیثیت نہیں۔ سینیٹ میں بڑی جماعتوں کی غیر موجودگی میں قرارداد کا کوئی جواز نہیں تھا۔ سینیٹ میں کورم بھی پورا نہیں تھا۔ اسے کثرت رائے کہنا درست نہیں۔
جبکہ سپریم کورٹ میں درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ جن ممبران نے قرارداد پاس کرنے میں کردار ادا کیا ان کے خلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی کی جائے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ترکی میں خوفناک زلزلے کے باوجود الیکشن کا پُر امن انعقاد ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا۔ آئین و قانون کا تقاضا ہے کہ ملک کے اندر صاف شفاف انتخابات کو یقینی بنایا جائے۔ بر وقت انتخابات سے ملک میں جمہوریت کو تقویت ملے گی اور منتخب حکومت عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کر سکے گی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مختلف اوقات میں انتخابات سے پہلے، اس کے دوران اور بعد میں نافذ کیے جانے والے من مانی احکامات کی وجہ سے زیادہ تر سیاسی جماعتوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

اب بھی وہی دہرایا جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ جہاں تک قرار داد میں سردی کی بات کی ہے تو یہ بلا جواز ہے کیونکہ الیکشن کمیشن نے ضرور محکمہ موسمیات سے رائے لی ہو گی اور ابھی تک محکمہ موسمیات نے شدید موسم کی بنا پر الیکشن کو ملتوی کرنے کی تجویز نہیں دی۔ اگر گذشتہ الیکشنز کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو 1985، 1997 اور 2008ء کے عام انتخابات فروری میں ہی منعقد ہوئے تھے۔ 1985ء کے عام انتخابات 25 فروری، 1997 کے عام انتخابات 3 فروری، 2008ء کے عام انتخابات 18 فروری کو ہوئے تھے۔

خیبر پختونخوا کے بلدیاتی الیکشن دسمبر 2021ء میں ہوئے تھے۔ جس میں جے یو آئی ف کو تاریخی کامیابی ملی تھی۔ فروری2022ء میں خیبر پختونخوا کے 13 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا انعقاد ہوا تھا۔ اگر ماضی کا جائزہ لیا جائے تو 1977ء میں ملکی سیاسی منتشر حالات کی وجہ سے انتخابات مارچ1977ء کو کرائے۔ 1998ء میں سیلاب کے باعث انتخابات کی تاریخ 90 روز بعد رکھی گئی تھی۔ 2008ء کے عام انتخابات سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جنوری 2008ء کے بجائے فروری 2008ء میں ہوئے اور دہشت گردی کا کہنا بھی بلا جواز ہے کیونکہ 2008ء اور 2013 ء کے عام انتخابات میں اس سے بھی زیادہ دہشت گردی کا خطرہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا تھا۔

ایک رپورٹ کے مطابق 2008ء میں دو ہزار سے زائد واقعات رونما ہوئے تھے۔ 2013ء میں سترہ سو سے زائد واقعات ہوئے تھے۔ 2023ء میں دہشت گردی کے 306 واقعات ہوئے۔ اب اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زیادہ خطرناک حالات کب تھے۔ عساکر پاک اور دیگر سکیورٹی اداروں نے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔ تاہم اس اقدام نے ملک میں ایک بار پھر جمہوریت اور گورننس کی حالت زار پر سوال اٹھا دئیے ہیں اور یہ سوال بار بار اٹھ رہا ہے کہ آخر ملک کے خلاف فیصلے کون کر رہا ہے۔ اسے محض اتفاق کہنا چاہیے یا پھر منصوبہ بندی کہ سینیٹ میں اس متنازع قرارداد کی منظوری سے قبل برطانوی جریدے ’اکانو مسٹ‘ میں سابق وزیر اعظم عمران خان کا آرٹیکل بھی منظر عام پر آیا جس میں انتخابات کے انعقاد کو تباہی قرار دیا گیا۔ ایوان بالا کی کسی بھی جمہوری نظام میں بہت اہمیت ہوتی ہے اور سینیٹ پاکستان کی پارلیمان کا ایوان بالا ہے جس میں ایسی افواہوں پر سرکاری مہر ثبت کر دی جو سوشل میڈیا تک محدود تھیں۔

دنیا میں اس حوالے سے کیا پیغام گیا ہو گا؟ آخر ہم اقوام عالم کو کیا بتانا چاہتے ہیں کہ کس قدر کمزوریاں ہیں ہمارے سسٹم میں کہ ایک معتبر فورم کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ اس وقت ہم معاشی بحران سے گزر رہے ہیں لیکن قومی مفادات پر سمجھوتا کسی صورت نہیں کیا جا سکتا، زندہ اور بیدار قومیں اصولی پوزیشن اختیار کرتی ہیں اور اس پر قائم ہو جاتی ہیں۔ آخر ہم چوراہے میں کھڑے کب تک ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہیں گے؟ ایک نہ ایک دن ہمیں واضح پوزیشن اختیار کرنا ہو گی لہٰذا ہمیں سوچنا چاہیے کہ جس طرف قدم اُٹھانا چاہتے ہیں، یہ لوگ ہمیں اس کی مخالف سمت میں کیوں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ مزید برآں موجودہ ملکی صورتحال کے تناظر میں اگر یہ کہا جائے کہ کہیں الیکشن ملتوی کرانے کی سازش کے پس پشت مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کی مقبولیت اور ان کا ایک بار پھر سے وزیر اعظم بننے کا خوف تو نہیں ہے کیونکہ نواز شریف کی جیت سے ہی پاکستان کی ترقی کا سنہرا دور کی واپسی جڑی ہے۔

تبصرے بند ہیں.