یہ اُن دنوں کی بات ہے جب پاکستانی فلموں میں چاکلیٹی ہیرو وحید مراد اور کالم نگاری کے شعبے میں ہم سب کے پسندیدہ کالم نگار محترم عطاء الحق قاسمی صاحب کا راج تھا۔ یہ وہ دور تھا جب لوگوں میں فلم بینی کے ساتھ ابھی کتب اور اخبار بینی کا شوق بھی سلامت تھا۔ اچھا لکھنے والے ہی نہیں اچھا پڑھنے والے بھی موجود تھے اور انہی اچھا بلکہ بہت اچھا لکھنے والوں میں ایک بڑا نام ممتاز کالم نگار محترم عطاء الحق قاسمی صاحب کا تھا۔ جن کے منفرد طرزِ تحریر کے باعث اُن کا کالم خواص کے ساتھ عوام میں بھی یکساں مقبول تھا۔ ایک اخباری کالم ہونے کے باوجود قاسمی صاحب کے یہ کالم اپنے اندر ایک ایسی ادبی چاشنی اور شگفتگی لیے ہوتے تھے جس کی مٹھاس اور تازگی ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد پڑھنے والے آج بھی اسی طرح محسوس کرتے ہیں۔ قاسمی صاحب کے اُس دور کے ان یادگار کالموں میں ایک دلچسپ کالم ’’چور صاحب‘‘ ہے۔ جو اُن کے لمبریٹا سکوٹر کے حوالے سے تھا جو اُس وقت واپڈا ہائوس میں واقع ریستوران کے باہر سے پتا نہیں ان کے کس دھیان میں گم ہونے کی وجہ سے چوری ہو گیا تھا۔ یہ کالم قاسمی صاحب نے سکوٹر چور کے نام لکھا تھا جس سے تحریک پا کر پھر اس وقت کے بڑے بڑے کالم نگاروں احمد ندیم قاسمی، ابن انشائ، انتظار حسین، منو بھائی، اسرار زیدی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ترجمان اخبار ’’مساوات‘‘ میں سہیل ظفر نے بھی قاسمی صاحب سے اظہار ہمدردی کے لیے اپنے اپنے انداز میں کالم لکھے۔
خدا جانے ان لگا تار چھپنے والے کالموں کا اثر تھا یا کوئی اور وجہ کہ کچھ روز بعد چور نے گھبرا کر یا ترس کھا کر قاسمی صاحب کا ’’لمبریٹا‘‘ جہاں سے اُٹھایا تھا اُسے خاموشی سے وہیں چھوڑ گیا۔ اس پر قاسمی صاحب نے اپنے اگلے کالم ’’تاہم چور صاحب کا شکریہ‘‘ میں چور کی اس کرم فرمائی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اُس سے اس بات کی وضاحت بھی چاہی کہ اُس نے سکوٹر کی واپسی کا فیصلہ مذکورہ بالا تمام کالم نگاروں میں سے کس کا کالم پڑھ کر کیا ہے۔ اس سلسلے میں قاسمی صاحب نے اپنے اس کالم میں دیگر اندازوں کے ساتھ ایک ’’ٹِیوا‘‘ یہ بھی لگایا ہے کہ ’’اس امر کا امکان موجود ہے کہ چور نے یہ فیصلہ پیپلزپارٹی کے ترجمان اخبار ’’مساوات‘‘ میں سہیل ظفر کا کالم
پڑھ کر کیا ہو اور ہمارے ساتھ سہیل ظفر کی پُرخلوص ہمدردی کو وہ پارٹی کا حکم سمجھ بیٹھا ہو‘‘۔ قاسمی صاحب کے ساتھ پیش آنے والے اس سکوٹر چوری کے حادثے کی طرح گو اُن کا یہ کالم بھی ہماری ہوش سے پہلے کا ہے۔ لیکن اللہ جانے ’’کالم تمام‘‘ میں جب سے میں نے یہ دونوں کالم پڑھے ہیں اُن کی ’’پارٹی کے حکم‘‘ والی بات میرے دل میں کیوں بیٹھ گئی ہے۔
میرا دل یہ گواہی دے رہا ہے کہ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی قاسمی صاحب کے اس ’’نسخے‘‘ سے سوائے کرپٹ سیاستدانوں، دو نمبر صحافیوں اور بددیانت سرکاری افسران کے کسی بھی چور کو محض ایک کالم لکھ کر چوری کا سامان واپس کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ دراصل یہ خیال مجھے اس لیے آ رہا ہے کیونکہ گذشتہ دنوں شکرگڑھ میں مقیم پنجابی کے باکمال
شاعر اور ہمارے دوست حکیم ارشد شہزاد کا اوکاڑا میں ایک شادی پر موبائل فون چوری ہو گیا ہے۔ حکیم صاحب ایک صاحب حیثیت آدمی ہیں اس موبائل فون کی چوری سے سوائے دو چار ’’خفیہ‘‘ فون نمبروں کے اُن کے لیے یہ کوئی اتنا بڑا نقصان نہیں ہے کہ جس کا مداوا نہ ہو سکے۔ اس لیے سچ پوچھیں تو مجھے حکیم صاحب کے پردیس میں اس طرح موبائل فون چوری ہونے کا دکھ کم اور شرمندگی زیادہ ہے۔ شرمندگی اس لیے کہ ایک تو حکیم صاحب پنجابی کے اعلیٰ درجے کے شاعر ہیں اور دوسرا اس لیے کہ اوکاڑا جہاں حکیم صاحب کے ساتھ یہ واردات ہوئی ہے عہدِ حاضر میں اردو کے سب سے بڑے شاعر ظفر اقبال صاحب کا شہر ہے جہاں خوبصورت شاعر مسعود اوکاڑوی اور احمد جلیل جیسے ہمارے دیگر دوستوں کا بھی اچھا خاصا حلقہ ہے۔ دراصل یہی وہ بات ہے جومجھے زیادہ شرمندہ کر رہی ہے۔
اس سے پہلے ادبی دنیا میں شاعروں ادیبوں پر ایک دوسرے کے کلام کی چوری کے الزامات تو لگتے رہتے تھے لیکن ایک عالمی شہرت یافتہ شاعر کے علاقے میں کسی مہمان شاعر کے موبائل فون کا چوری ہونا غالباً ہماری ادبی تاریخ کا پہلا بدترین واقعہ ہے۔ جس کا بروقت اور مناسب ازالہ نہ ہونے کی صورت میں ممکن ہے اوکاڑا کی ادبی تاریخ میں اسے ایک سیاہ دھبے کے طور پر نسلوں تک یاد رکھا جائے۔ میرا تو یہ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ اوکاڑا بارات کے ساتھ گئے ہمارے شاعر دوست حکیم ارشد شہزاد کو جب یہ پتا چلا ہو گا کہ کسی چور نے ’’مِلنی‘‘ کے دوران اُن کے دل کے بجائے اُن کا موبائل فون چُرا لیا ہے تو اس شدید ٹھنڈ میں اُن کے ’’مشوم‘‘ دل پر کیا گزری ہو گی۔ پردیس میں موبائل پر ٹِک ٹاک، فیس بک، واٹس ایپ اور یوٹیوب کے سہاروں کے بغیر اُنہوں نے اپنی پہاڑ جیسی زندگی کے یہ فارغ لمحات کیسے گزارے ہونگے۔ مجھے اس بات کا اس لیے بھی زیادہ رنج ہے کیونکہ اُن کا موبائل چوری ہونے پہلے میں نے اُن کو اپنی تازہ ترین پنجابی نظم ’’لارا‘‘ واٹس ایپ کی تھی پتا نہیں وہ یہ نظم پڑھ سکے تھے یا نہیں۔ نظم تو خیر میں انہیں دوبارہ بھی واٹس ایپ کر دونگا مگر اس کے لیے حکیم کا ’’صاحبِ موبائل‘‘ ہونا ضروری ہے۔
اوکاڑا چونکہ بلا شرکتِ غیرے ظفر اقبال صاحب کی راجدھانی ہے اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ حکیم ارشد شہزاد صاحب کے موبائل کی بازیابی کیلئے اس وقت ظفر اقبال صاحب سے بہتر کوئی اور شخص مددگار نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ ظفر اقبال صاحب ایک بڑے شاعر، ادیب اور کالم نگار ہی نہیں پرانے وقتوں میں اوکاڑا کے ایک نامی گرامی وکیل بھی رہے ہیں۔ میرے خیال میں بطور ایک مقامی وکیل کے وہ ناصرف علاقے کے چپے چپے سے واقف ہونگے بلکہ ممکنہ طور پر وہاں کے چوروں، ڈاکوؤں، لٹیروں اور اُن کے سرپرستوں کو بھی جانتے ہونگے۔ لہٰذا اس کالم کی وساطت سے میری ظفر اقبال صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اوکاڑا شہر کی عزت کی خاطر پہلی فرصت میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے متعلقہ چور سے حکیم صاحب کا موبائل فون فوری طور پر واپس دلائیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ پوری دنیا میں آپ کے بے شمار چاہنے والوں کی طرح اوکاڑا کا یہ چور بھی کسی نہ کسی حوالے سے آپ کا مداح ہو گا اور علاقے سے آپ کی دیرینہ نسبت اور سنیارٹی کی وجہ سے آپ کے کہے کو حکم سمجھ کر فوری طور پر ہمارے دوست حکیم ارشد شہزاد صاحب کا موبائل فون ضرور واپس کر دے گا۔
تبصرے بند ہیں.