ہر سال 18 دسمبر کو بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کا دن منایا جاتا ہے اور اقلیتوں پر مظالم میں ہندوستان سرفہرست ہے جہاں مسلمان، سکھ، عیسائی اور نچلی ذات کے ہندو بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہندوستان میں 1964 سے 2022 تک تقریباً 20,000 سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارت کو اقلیتوں کے لیے خطرناک ملک قرار دیا ہوا ہے۔
بھارت میں 21 اپریل 2022 میں ریاست حیدرآباد میں مسلمانوں کے 50 ہزار گھروں کو مسمار کر دیا گیا۔ 2023 میں بھارت کی 23 ریاستوں میں عیسائیوں کے خلاف 400 تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔25 اگست کو ریاست اڑیسہ میں سیکڑوں عیسائیوں کو قتل کیا گیا جبکہ 600 دیہاتوں کو جلا ڈالا گیا۔ 1984 میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھ فسادات شدت اختیار کر گئے جس میں لگ بھگ 17 ہزار سکھوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔2012 میں دلت ہندوؤں کے خلاف 60 ہزار جرائم رپورٹ ہوئے۔ اوسطاً ہر10منٹ میں ایک دلت کے خلاف تشدد کا واقعہ پیش آتا ہے۔ بھارت کے نیشنل کرائم بیورو کے مطابق گزشتہ 5 برسوں میں نچلی ذات کے خلاف اڑھائی لاکھ سے زائد نفرت انگیز جرائم رپورٹ ہوئے۔
امریکی ادارہ برائے مذہبی امور کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں پر حملے کئے جاتے ہیں۔ مودی کے دورمیں مذہبی آزادی شدید تنزلی کا شکار ہوئی ہے۔ 2020 سے امریکی کمیشن برائے مذہبی امور نے بھارت کو تشویشناک ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارت کو اقلیتوں کے لیے خطرناک ملک قرار دیا ہوا ہے۔یہ مسلسل تیسرا سال ہے جب امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان کو ’انتہائی تشویش والے ممالک‘ کی فہرست میں رکھا جائے۔
یورپی پارلیمنٹ میں منظور کی گئی قرار داد میں بھارت میں نسلی اور مذہبی تشدد کی مذمت کی گئی۔ قرار داد میں کہا گیا کہ بھارتی حکام نسلی اور مذہبی تشدد روکیں اور مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کریں۔ بھارت میں عدم برداشت نے ریاست منی پور کے نسلی فسادات میں اہم کردار ادا کیا۔ بھارت میں ہندو اکثریت پسندی کو بڑھاوا دینے والی تفرقہ انگیز پالیسیوں پر تشویش ہے۔ منی پور میں حکومت نے انٹرنیٹ بند کیا اور میڈیا رپورٹنگ میں شدید رکاوٹیں ڈالیں۔ بھارتی حکام منی پور میں پُرتشدد صورتحال کی آزادانہ تحقیقات کی اجازت دیں۔
مسلسل حل طلب دیرینہ تنازع کشمیر اقوام متحدہ کی ساکھ پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگر اقوام متحدہ اپنی ساکھ بحال کرنا چاہتا ہے تو اسے کشمیر سے متعلق اپنی قراردادوں پر بلاتاخیر عمل درآمد کرانا چاہیے۔
بھارت کی مودی حکومت نے جموں وکشمیر میں عسکریت پسندی پر قابو پانے کے لیے ایک نئی حکمت عملی اختیار کی ہے کہ بھارتی وزارتِ داخلہ نے تحریکِ حریت جموں و کشمیر کو ایک غیر قانونی تنظیم قرار دے کر اس پر پانچ سال کے لیے پابندی عائد کر دی ہے۔اس سے قبل بھارتی حکومت نے گزشتہ پانچ برس کے دوراں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی نصف درجن سے زائد کشمیری تنظیموں کو جن میں جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر، جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف)، مسلم لیگ جموں وکشمیر، ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی، دخترانِ ملت اور تحریک حریت جموں وکشمیر بھی شامل ہیں یو اے پی اے کے تحت غیر قانونی قرار دے کر ان پر پانچ پانچ سال کے لیے پابندی عائد کردی ہے۔ بھارتی حکومت نے حزب المجاہدین، لشکرِ طیبہ، جیشِ محمد، البدر، العمر مجاہدین، جمعیت المجاہدین، تحریک المجاہدین اور تقریباً بیس دوسری عسکری تنظیموں کو بھی دہشت گرد تنظیمیں قرار دے کر ان کے نام کالعدم تنظیموں کی فہرست میں ڈال دیئے گئے ہیں۔ جموں میں بھارتی عدالت نے آزاد کشمیر اور پاکستان میں مقیم مقبوضہ جموں و کشمیر کے 36 افراد کو اشتہاری مجرم قرار دے دیا ہے۔ عدالت نے ان افراد کو گرفتاری دینے کے لئے ایک مہینے کا وقت دیا ہے۔
بھارت اب تک کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا رہا لیکن مہاتما گاندھی کے 1947ء میں دیے گئے ایک بیان نے اس کے سارے دعوؤں پر پانی پھیر دیا ہے۔ بھارتی بابائے قوم مہاتما گاندھی کے کشمیر سے متعلق بیان کی 73 سال پرانی ایک آڈیو کِلپ منظر عام پر آئی ہے جس نے کشمیر کے بھارت کے اٹوٹ انگ ہونے کے دعووں کو اڑا کر رکھ دیا ہے۔
اس آڈیو کلپ میں مہاتما گاندھی کا کہنا ہے کہ کشمیر جبر کے ذریعے بھارت یا پاکستان میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا فیصلہ خود کشمیری کریں گے کہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔ مہاتما گاندھی کا یہ مبینہ آڈیو کلپ اکتوبر 1947ء کا بتایا جاتا ہے جس میں مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ کشمیری پاکستان کے ساتھ جانا چاہیں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی۔
یہ بھارت کے بانی مہاتما گاندھی کے سیکولرازم اور کشمیر سے متعلق خیالات ہیں جب کہ نریندر مودی کے بھارت میں کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ گزشتہ سال بھی ایک بھارتی اخبار نے بھی حرف بہ حرف یہی الفاظ مہاتما گاندھی سے منسوب کیے تھے۔ لیکن مودی کے دور حکومت میں کیا ہو رہا ہے۔ کیا کشمیر اور کیا اٹوٹ انگ کے دعوے، آج سارے بھارت میں ہی مسلمانوں پر زمین تنگ کردی گئی ہے اور کچھ نہیں ملا تو کورونا ہی کے نام پر مسلمانوں کو ظلم و تشدد اور معاشی استحصال کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے ہی مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں پیش کیا تھا اور جب اس عالمی ادارے نے کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار کشمیریوں کو دے دیا تو انہوں نے اسے تسلیم کیا لیکن کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ مستحکم کرنے کی کارروائی بھی جاری رکھی۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں نصف صدی گذر جانے کے بعد بھی برقرار ہیں۔ بھارت نے ابتدا میں تو ان قراردادوں پر عمل کرنے کا وعدہ کیا مگر بعد میں مکر گیا اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے لگا۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ آج بھی پاکستان اور بھارت اپنے وسائل کا زیادہ تر حصہ دفاع پر خرچ کر رہے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.