پولیس بمقابلہ پی ٹی آئی

89

حال کہہ دیتے ہیں نازک سے اشارے اکثر
کتنی خاموش نگاہوں کی زباں ہوتی ہے
لیکن جب سب کچھ روزِ روشن کی مانند عیاں ہو اور کچھ بھی پسِ آئینہ نہ ہو تو ایسے میں کیسے تسلیم کیا جاسکتا کہ سب کچھ دُرست، صاف اور شفاف ہے۔ یہاں تو گویا اندھے کو بھی نظر آرہا ہے کہ کیا ہورہا ہے۔ اور جو کچھ ہو رہا ہے، یہ بھی سچ ہے کہ پہلے نہ کبھی ایسا دیکھا اور نہ ہی ایسا پایا۔ اس بار تو ’بازی گر‘  نے مقصد کے حصول کے لیے ایسا کھیل رچایا کہ مقابل کو تگنی کا ناچ نچا دیا۔ نتیجتاً حواس باختہ مقابل چاروں شانے چت۔ تاہم اس بار ’بازی گر‘ کو جیت تو مقدر ہوئی لیکن پہلے ہی سے ہاتھ پائوں بندھے مقابل کو چاروں شانے چت کرنے میں جو غیر قانونی اور غیر آئینی دائو بیچ لڑائے گئے اس نے بازی گر کو بھی بیچ چوراہے میں بے لباس کر دیا۔ چنانچہ کچھ بھرم جو تھا وہ بھی جاتا رہا۔

70ء کے انتخابات کے بعد مملکت خدادادِ پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسے انتخابات ہوں جس میں دھاندلی نہ ہوئی ہو۔ ہر الیکشن میں دھاندلی کی نئی صنف متعارف ہوئی ۔ چنانچہ ان پر شور و غوغا بھی مچتا رہا اور نتائج کی مخالفت میں تحریکیں بھی خوب چلیں، تاہم بازی گر کا کچھ نہ کچھ بھرم ضرور رہا کیونکہ جو کچھ بھی رچایا گیا اس کا بیشتر حصہ سرِ آئینہ ہوتے ہوئے بھی پس ِ پردہ محسوس ہوتا رہا ۔ لیکن کیا کہیں اس بار تو حد ہی ہو گئی۔پولیس کے ہاتھوں جس طرح ملک کی ایک اہم سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اُمیدواروں، انکے تجویز کنندہ اور تائید کنندہ کی پکڑ دھکڑ کی گئی اور جس طرح ان کے گھر وں میں چھاپے مار کر اہل خانہ کی تذلیل کی گئی الامان الحفیظ ۔ متعدد بار قومی اسمبلی کے رکن رہنے والے جمشید دستی کی اپنی اہلیہ کے حوالے سے آہ و بکا ایک عام پاکستانی کے ضمیر پر کچوکے لگانے کے لیے کافی ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نو مئی کے واقعات یقینا قابل مذمت ہیں۔ اس میں ملوث عناصر کو، چاہے انکا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو اور وہ کوئی بھی رتبہ رکھتے ہوں قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ تاہم اگر اربابِ اختیار و اقتدار اس جرم میں پوری تحریک انصاف کو دیوار کے ساتھ لگانا چاہتے تھے تو اسے کالعدم قرار دے دیتے۔ اب جبکہ ایسا نہیں کیا گیا اور اس جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے دیا گیا ہے تو الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے دعوئوں کا کچھ بھرم ہی رہنے دیتے ۔ پہلے ہی سے بے لگام پولیس اور کچھ متعلقہ اداروں کو جس طرح کھلی چھٹی دے دی گئی ہے اس سے تو عام پاکستانی کا ریاستی نظام سے رہا سہا اعتبار بھی اُٹھ گیا ہے۔ پری پول رگنگ اپنے عروج پر ہے۔ حالانکہ اگر پی ٹی آئی کی 90 فیصد قیادت کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کرنے کا آپشن الیکشن کمیشن کے پاس موجود تھا تو پھر اتنی بڑی سطح پر اس جماعت کے اُمیدواروں کی پکڑ دھکڑ کرنے کا کیا فائدہ تھا۔ رہے پولیس اور بیوروکریسی کے افسران تو انکے لیے پاکستانی عوام کی خدمت کبھی متمع نظر نہیں رہی۔ تاہم آقائوں کے ایک اشارہ اَبرو پر پی ٹی آئی کے اُمیدواروں اور کارکنوں پر حالیہ کریک ڈائون ایک آسان ہدف تھا۔ اس سے وہ انہیں یقین دلانے میں کامیاب رہے کہ وہ ان کے بہترین وفادار ہیں۔ اعلیٰ پولیس افسران کو یقینِ کامل ہے کہ یہ فارمولا پُر کشش عہدے حاصل کرنے کے لیے بہترین میرٹ ہے۔ وہ نہ صرف موجودہ حالات میں بلکہ آئندہ بھی اپنے سیاسی آقائوں کی مجبوری بنے رہیں گے۔ اب اگر انتخابات میں پنجاب سے نواز لیگ یا پھر سندھ سے پاکستان پیپلز پارٹی کامیابی حاصل کرتی ہے تو سمجھ لیں کے یہ دونوں جماعتیں نہیں بلکہ پنجاب اور سندھ میں پولیس نے انتخابات جیتے ہیں ۔ کچھ یہی حال باقی صوبوں میں بھی ہوگا۔ بہتر ہوگا کہ آئندہ بننے والی اسمبلیوں میں بھی عوامی نمائندوں کی جگہ پولیس اور بیوروکریسی کے کمشنر، ڈپٹی کمشنر، آئی جیز اور ڈی آئی جیز کو جگہ دی جائے۔ ویسے اگر بات کی جائے پنجاب پولیس کی عوام کو ستانے اور 14 ارب روپے کے خطیر عوامی بجٹ کو اُڑانے کی تو یقیناً پولیس کا اس میں کوئی ثانی نہیں۔ تھانہ کلچر کی تبدیلی اور عوام کو انصاف کی فراہمی کا خواب آج بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ خلیج کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جارہی ہے۔ ظاہری بات ہےکہ پولیس کا عوام کے ساتھ ناروا رویہ محض تھانوں کی اچھی عمارتیں بنانے سے نہیں ہو سکتا۔ لاہور جیسے شہر میں بھی جہاں پولیس افسران کی ایک فوج ظفر موج براجمان ہے عوام کے لیے ایف آئی آر کا اندراج کسی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ چیک بائونس اور زمینوں پر قبضے کے واقعات کا اندراج تو پولیس کی مٹھی گرم کیے بغیر ممکن نہیں۔ اور اسکے بعد ان پر ہونے والی تفتیش مال بنانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ عام آدمی تو درکنار سرکاری افسران یا ادارے بھی انصاف کے حصول میں مارے مارے پھرتے ہیں اور قبضہ گروپ کیسے پولیس کی سرپرستی میں کیسے سرکاری زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں یہ واقعہ اس کے واضح مثال ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ایل ڈی اے کے ڈائریکٹر ہائوسنگ VIIکی جانب سے کچھ روز قبل جوہر ٹائون پولیس کو درخواست دی گئی کہ جوہر ٹائون سکیم کے رہائشی ایک شخص محمد ارشد نے جو مبینہ طور پر قبضہ گروپ کا سرغنہ ہے،  نے جعلی کاغذات تیار کر کے ادارے کے ملکیتی ایک قیمتی پلاٹ پر قبضہ کر رکھا ہے۔ مقدمہ تو کیا درج ہونا تھا اُلٹا پولیس نے مٹھی گرم ہونے پر ایل ڈی اے کی انتظامیہ کو چکرا کر رکھ دیا۔ ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کے دفاتر کے کئی روز تک چکر لگانے کے بعد ایل ڈی اے کے متعلقہ افسران کو بتایا گیا کہ وہ ایس پی صدر کے دفتر میں پیش ہوں جہاں ایک کمرے میں کئی گھنٹے انتظار کے بعد انہیں بتایا گیا کہ ایس پی صاحبہ جو معمول میں بھی بہت کم ہی دفتر میں بیٹھتی ہیں وہاں آئی ہی نہیں ہیں اس لیے وہ جاسکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.