تعلیم اور صحت کی افادیت بیان کرنے لگیں تو ہزاروں صفحات لکھے جا سکتے ہیں۔ ہمارے یہاں ایک تو ریاستی سطح پر صحت اور تعلیم کو وہ ترجیح نہیں دی گئی جس کا تقاضا ہمارے سماجی حالات کرتے ہیں۔ دوسرا نجی شعبوں نے صحت اور تعلیم کے نام پر عوام کے ساتھ جو کھیل کھیلا ہے وہ قابل افسوس ہے۔ سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ابھی تک ریاست، حکومت اور ہم عوام خود ان شعبوں کو اپنے سماجی حالات اور تقاضوں کے مطابق کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ”نسلوں کا روشن مستقبل“، ”کل کے معمار“، ”سب سے پہلے صحت“ جیسے نعرے صرف حکومتی اور ریاستی افراد کی تقاریر کی زینت ہیں جو ہمیں وقتاً فوقتاً سننے کو ملا کرتی ہیں۔ تعلیم اور صحت کے حوالے سے دو واقعات آپ کے سامنے پیش کروں گا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انسان دولت کی حرص میں کہاں تک جا سکتا ہے۔
راقم کی عادت ہے اخبار بینی ہو یا مطالعہ کتب، شاعری ہو یا موسیقی، کوشش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں اور دیگر احباب کو بھی ان کے ذوق کے مطابق اپنے ساتھ شریک کروں۔ سمارٹ فون نے تو اس کے لیے نہایت آسانی فراہم کر دی ہے۔ ایک کثیر الاشاعت اخبار کے ”سنڈے میگزین“ میں آدھے صفحے پر بذریعہ خط و کتابت کم و بیش چار درجن کورسز کا ایک اشتہار شائع ہوا۔ اشتہار شائع کرنے والے ادارے کے نام کی مماثلت اسلام آباد کی ایک بڑی یونیورسٹی کے نام سے تھی۔
حسب عادت اپنی بڑی بیٹی کی توجہ اس اشتہار کی جانب دلائی اور ترغیب دی کہ اپنی دلچسپی کے کسی ایک کورس میں داخلہ لے لیں۔ بیٹی جس نے حال ہی میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان دیا ہے، اس کی خواہش تھی کہ فراغت کے دنوں کو تعلیمی استعداد میں اضافے کے لیے استعمال کر لے۔ بیٹی نے پہلے انٹیرئیر ڈیزائنگ کے کورس میں دلچسی ظاہر کی مگر بعد میں بزنس مینجمنٹ کے کورس کو ترجیح دی۔ چند دن بعد محکمہ ڈاک سے ڈاک بابو کا فون آیا کہ کتابوں کا پارسل آیا ہے جس کے لیے 3500 روپے دینا ہوں گے۔
میں نے کہا کہ ضرور لے آئیے۔ بیٹی نے رقم دی اور کتابیں وصول کیں اور گھر پہنچنے پر مجھے بڑے شوق سے دکھائیں۔ جس شوق سے بیٹی نے کتابیں دکھائیں اس سے زیادہ جھٹکا مجھے کتابیں دیکھ کر لگا۔ کتابیں کیا تھیں فوٹو کاپیوں پر مشتمل چالیس پچاس صفحات کا پلندا تھا۔ ان کے مندرجات کو دیکھا تو تیس سال قبل جو معاشیات میں نے انٹرمیڈیٹ میں پڑھی تھی اس کی فوٹو کاپی تھی۔ بھیجنے والا اکنامکس اور مینجمنٹ کے فرق سے بھی نابلد تھا۔
خیر میں نے فوراً ہی کتابوں پر درج نمبر پر فون کیا تو مجھے ایک اور نمبر دیا گیا جو ”یونیورسٹی“ کے چانسلر صاحب کا تھا۔ میں نے سلام کے بعد اپنا تعارف کراتے ہوئے انہیں بتایا کہ جو اوراق انہوں نے بھیجے ہیں اوّل تو وہ اردو میں ہیں اور بچی انگریزی میڈیم کی ہے۔ دوم جو مندرجات ہیں وہ تو تیس سال قبل ہم نے پڑھے تھے آج تیس سال بعد تو بہت جدت آ چکی آپ کون سے عہد میں جی رہے ہیں؟ تیسرا یہ کہ کورس تو بزنس مینجمنٹ کا تھا آپ نے گیارہویں بارہویں جماعت کی معاشیات سے آدم اسمتھ کے نظریات فوٹو کاپی کر کے بھیج دیے۔
آخر میں ان سے درخواست کی کہ ازرہ کرم کتابیں واپس لیں اور رقم لوٹا دیں۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ اوّل تو میں دیکھتا ہوں کہ انگریزی کا کوئی پلندا کہیں رکھا ہو تو وہ بھیج دیتا ہوں لیکن اگر آپ کو رقم واپس چاہیے تو آپ کتابیں حوالہ ڈاک کر دیں چند روز بعد رقم آپ کو بذریعہ منی آرڈر بھیج دی جائے گی۔ میں نے جواب میں عرض کی کہ میں خود کتابیں لے کر آپ کے آفس آ جاتا ہوں آپ کتابیں لے کر رقم مجھے واپس کر دیجیے گا۔ انہوں نے حامی بھر لی۔
میں اگلے روز اسلام آباد کے آئی ٹین سیکٹر کے مرکز پہنچ گیا۔ بتائے گئے پلازہ پر نظریں دوڑاتا رہا کہ یونیورسٹی کا بورڈ نظر آئے لیکن بورڈ ہوتا تو نظر آتا۔ دفتر فون کیا تو بتایا گیا کہ فلاں ہوٹل کے سامنے کی عمارت میں سیڑھیاں چڑھ کر فلاں نمبر کمرے میں آ جائیں۔ عمارت میں داخل ہوا تو سیڑھیوں پر اس قدر کچرا اور گند کہ بدبو کی وجہ سے بُرا حال ہو گیا، صاف لگ رہا تھا کہ برسوں سے کسی نے صفائی کی زحمت نہیں کی ہے۔ بتائے گئے کمرے پر پہنچا تو وہاں دفتر کیا تھا چھ بائے دس کا ایک ڈربہ نما نیم تاریک کمرہ تھا جسے لکڑی کا تختہ لگا کر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ایک میلا سا صوفہ سیٹ رکھا تھا اور ایک صاحب تشریف فرما تھے جنہوں نے میرا نام پوچھ کر کتابیں وصول کیں اور مجھے رقم واپس کر دی۔ یہ تھی وہ یونیورسٹی جس کا ہر ہفتے اشتہار شائع ہوتا ہے اور نہ جانے کتنے افراد حصول تعلیم کے شوق میں باپ کی خون پسینے کی کمائی معاشرے کے ان ناسوروں کے حوالے کرتے ہوں گے۔ میں تو اسی شہر میں تھا جا پہنچا۔ کسی نے جھنگ سے پیسے بھیجے ہوں گے تو کسی نے شکار پور سے، کسی نے شیخوپورہ سے تو کسی نے بنوں سے۔ کتنے ہوں گے جو ان ”تحقیقی تخلیقات“ سے مستفید ہو کر اپنی تعلیمی قابلیت میں اضافہ کرتے ہوں گے یا پھر کچھ فہم رکھتے ہوں گے تو واپسی کا تردد کرتے ہوں گے؟
اخبار میں اس طرح کے اشتہارات کے لیے متعلقہ سرکاری محکمے کا اجازت نامہ لازمی قرار دیا جانا چاہیے اور متعلقہ اداروں کی بھی یہ ذمہ داری ہونا چاہیے کہ ایسے نام نہاد اداروں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں تاکہ غریب کی جیب کم از کم ایک ڈاکے سے تو بچ سکے۔
اسی طرح ایک انگریزی اخبار میں ایک رپورٹ شائع ہوئی کہ سینے کے درد انجائنا کے لیے ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنی کی تیار کردہ دوا مارکیٹ میں کم یاب ہے۔ 0.5 ملی گرام کی یہ واحد دوا ہے جو ایمرجنسی میں فوری طور پر مریض کو زبان تلے رکھنے کو دی جاتی ہے تاکہ زندگی کو لاحق خطرے کو روکا جا سکے۔ کم یابی کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس کی قیمت کم ہے لہٰذا ڈسٹری بیوٹرز اور دکانداروں نے اسے مارکیٹ سے غائب کر دیا ہے۔ اس حوالے سے ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ اس ملٹی نیشنل کمپنی نے ناگزیر وجوہات کی بنیاد پر اس کی پیداوار کم کر دی ہے۔ متعلقہ محکمے کے مطابق اس دوا کی تیاری میں استعمال ہونے والے اجزاء کووڈ 19 کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اس کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔ اس دوا کا متبادل ایک سپرے ہے اور وہ بھی آسانی سے دستیاب نہیں۔ مذکورہ دوا دل کے ستر فیصد مریضوں کو تجویز کی جاتی ہے اور یہ دوا دستیاب نہیں۔
عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی سیاسی جماعتوں کے بیان پڑھ لیں، ٹی وی چینل پر ان کی گفتگو سن لیں تو آپ کو سب کچھ ملے گا سوائے عوامی مسائل کے فوری اور پائیدار حل کے۔ اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھرجائے؟
تبصرے بند ہیں.