2023 سیاسی استحکام، 2024 امید کا سال

75

میں یہ تو کبھی نہیں کہوں گی کہ 2024ء ”2023 جیسا گزرے“ اور نہ ہی یہ کہوں گی کہ اس جیسا سال پاکستان کی آئندہ تاریخ میں کبھی آئے۔ کیوں کہ اس سال ہم ایک تو دیوالیہ ہونے سے بال بال بچتے رہے، دوسرا عوام  نے مہنگائی کی آخری حد بھی دیکھ لی۔ یعنی پہلی بار پاکستان کی 77 سالہ تاریخ میں 56 فیصد تک مہنگائی دیکھی گئی۔ پھر یہی نہیں بلکہ ہم نے ڈالر اور پٹرول کی ٹرپل سنچریاں بھی مکمل ہوتے دیکھیں اور سفید پوش کو سڑک پر کشکول اٹھائے ہوئے بھی دیکھا۔ پھر گزشتہ سال ہی میں ہم نے ایک سابق وزیر اعظم کو خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے ملک میں آتے دیکھا اور دوسری جانب ایک سابق وزیر اعظم کو جیل جاتے دیکھا۔ پھر ہم نے 2023ء میں ہی اداروں کی تنزلی کو بھی دیکھا کہ 2023ء میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پولیس سب سے زیادہ کرپٹ رہا، اس کے بعد ٹھیکے دینے اور کنٹریکٹ کرنے کا شعبہ اور پھر عدلیہ ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبے بالترتیب چوتھے اور پانچویں کرپٹ ترین شعبے ہیں۔ مقامی حکومتیں، لینڈ ایڈمنسٹریشن اینڈ کسٹم، ایکسائز اور انکم ٹیکس بالترتیب چھٹے، ساتویں اور آٹھویں کرپٹ ترین ادارے ہیں۔ پبلک سروس ڈلیوری کی ٹرمز کے مطابق عدلیہ میں رشوت کا اوسط خرچ سب سے زیادہ 25 ہزار 846 روپے رہا۔ پھر یہ سب ادارے دنیا بھر میں بھی پاکستانی سبکی کا سبب اُس وقت بنتے ہیں جب ہمارا ملک دنیا کے ایماندار ملکوں کی فہرست میں 144 ویں نمبر پر دیکھا جاتا ہے۔ 2023ء کا سب سے بڑا واقعہ 9 مئی تھا، ویسے تو جو ہوا وہ بہت بُرا تھا، نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن یہ گمبھیر مسئلہ بھی آہستہ آہستہ سیاسی رنگ اختیار کر گیا۔ پاک فوج نے ہر لمحے محتاط طریقے سے اس حوالے سے کام اور اس حوالے سے تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا تاکہ آئندہ ایسا واقعہ نہ ہو جس سے ملک بدنام ہو۔ ہاں اسی سال ڈونلڈ ٹرمپ جن سے اسی قسم کا واقعہ 2021ء میں رونما ہوا تھا اُنہیں وہاں کی تحقیقاتی ٹیموں نے ذمہ دار ٹھہرایا۔ لیکن اُن کی تحقیقات نے واقعی بتا دیا کہ امریکا ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔ میں اس حوالے سے آپ کو بھی بتاتی چلوں کہ اُنہوں نے اس واقعہ کو بہت سنجیدہ لیا اور تحقیقات کا دائرہ وسیع تر کیا۔ ہوا کچھ یوں کہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ”فدائین“ نے 6 جنوری 2021 کو کیپیٹل ہل پر اُس وقت حملہ کیا جب وہ جوبائیڈن سے الیکشن ہار چکے تھے۔ امریکی تاریخ میں اس قسم کی بغاوت کا انوکھا واقعہ کبھی نہیں ہوا تھا۔ امریکی انتخابات میں جو بائیڈن کی کامیابی پر سیخ پا ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے فدائین کو اُکسایا کہ وہ احتجاج کیلئے واشنگٹن کا رُخ کریں۔ سوشل میڈیا پر ایک فتنہ ساماں مہم چلائی۔ مشتعل ہجوم نے 6 جنوری 2021ء کو امریکی پارلیمان ’کیپیٹل ہِل‘ پر ہلّہ بول دیا۔ دو ہزار کے لگ بھگ شرپسند عمارت میں گھس گئے۔ توڑ پھوڑ اور ہُلّڑ بازی کی۔ وہ دن اور آج کا دن، ریاستی نظم کے ادارے چین سے نہیں بیٹھے۔ ایوان نمائندگان نے نو ارکان پر مشتمل 6 جنوری تحقیقاتی کمیٹی قائم کی۔ کمیٹی نے وقوعہ کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کیلئے متعدد ٹیمیں تشکیل دیں۔ ”گرین ٹیم“ نے جانچا کہ 6 جنوری کے حملے میں کون سا پیسہ استعمال ہوا اور کہاں سے آیا؟ ”گولڈ ٹیم“ نے جائزہ لیا کہ ٹرمپ نے زور زبردستی کے کون سے حربے استعمال کیے اور کیا کوئی ارکانِ کانگرس بھی اس میں ملوث تھے؟ ”پَرپَل ٹیم“ نے جانچ پڑتال کی کہ سوشل میڈیا میں آگ بھڑکانے والے عناصر کون تھے؟ ”ریڈ ٹیم“  نے دیکھا کہ سازش کہاں تیار ہوئی اور منصوبہ ساز کون تھے؟ ”بلیو ٹیم“ نے شرپسندوں کو اُکسانے والے بیانات اور دھمکیوں کا جائزہ لیا۔ کمیٹی نے ایک ہزار سے زائد شہادتیں قلم بند کیں۔ دس لاکھ سے زیادہ دستاویزات کا جائزہ لیا۔ دو لاکھ امریکی شہریوں نے وڈیوز فراہم کیں۔ ڈیڑھ برس کی تفصیلی چھان پھٹک کے بعد کمیٹی نے دسمبر 2022ء میں 845 صفحات پر مشتمل جامع رپورٹ پیش کر دی۔ کمیٹی نے اس واقعے کے بعد سفارشات بھی پیش کیں، اور اب یہ رپورٹ امریکی عدالتوں میں ہے اور اُسی کے مطابق جو حقیقی ذمہ داران ہیں، اُن کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ لیکن تسلی بخش بات یہ ہے کہ تحقیقات آزادانہ ہو رہی ہیں اور وہاں کے تحقیقاتی اداروں پر کسی قسم کا دباؤ بھی نہیں ہے۔ خیر بات 2023ء کی ہو رہی تھی تو گزشتہ سال پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں بھی تحلیل کی گئیں اور کئی بار الیکشن بھی ملتوی ہوئے۔ لیکن بالآخر حالیہ مہینوں میں سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد 8 فروری کو عام انتخابات کی تاریخ بھی دے دی گئی۔ جس کے بعد اب تمام جماعتیں کاغذات نامزدگی جمع کرا چکی ہیں جن کی جانچ پڑتال بھی مکمل ہو چکی۔ اب چونکہ سال 2024 کا سورج طلوع ہو چکا ہے۔ اُمید ہے ہم پرانے سال کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے، کیوں کہ ایک تازہ رپورٹ میرے سامنے میز پر پڑی ہے، جس کے مطابق 9 مئی کے واقعات کے بعد پاکستان سے 9 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بیرون ملک منتقل ہوئی۔ اب بتائیں جو ملک ڈیڑھ ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے پورا سال گھٹنوں کے بل کھڑا رہے، وہ کیسے ممکن ہے کہ ان حالات میں بھی ضد پر اڑا رہے اور ملک کو مزید دلدل کی طرف دھکیلے! لہٰذا ہمیں سیاسی عدم استحکام کو بڑھاوا دینے کے بجائے آگے بڑھنا ہو گا۔ ملک میں جمہوریت کے فروغ کے لیے اقدام کرنا ہوں گے۔ نگران حکومت کوچاہیے کہ فری اینڈ فیئر الیکشن کے انعقاد کو ممکن بنائے ورنہ یوں ہی جماعتیں آپس میں گتھم گتھا ہوتی رہیں گی اور ہم یونہی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ اللہ سے دعا ہے کہ سال 2024ء ہم سب کے لیے بہترین اور عزتوں بھرا سال ہو۔ (آمین)

تبصرے بند ہیں.