موت ہر زندہ شے کا مقدر ہے لیکن یہ جانتے ہوئے بھی وابستگی کا روگ ہے کہ جان لیوا ہو جاتا ہے۔ گو یہ سال ہی دکھوں اور جدائیوں کا تھا مگر اگست میں ماموں خورشید کی ناقابل ِ یقین موت نے مجھے عجیب و غریب درد سے آشنا کر دیا۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ اب اس سے زیادہ کیا ہو گا کہ دسمبر کے آخری ہفتہ میں اِس دنیا میں سانس لینے سے پہلے اللہ نے مجھے جس عزیز ترین رشتے سے جوڑ دیا تھا، جس کی سانس کے ساتھ میں اپنی سانس چلتی محسوس کرتا تھا، جس نے مجھے خواب دیکھنا اور اپنے خوابوں کیلئے جدوجہد کرنا سکھایا، جس نے بتایا کہ زندگی ایک دورانیہ کا نام ہے جو ایک خاص وقت سے شروع ہو کر موت کے بے رحم ہاتھوں اختتام کو پہنچتا ہے، یہ اپنے تمام تر دکھوں اور مصیبتوں کے باوجود ملتا ایک بار ہی ہے سو اسے کلرک بن کر مت گزارنا، جس نے مجھے سمجھایا کہ دنیا صرف بڑی فتوحات یا بڑی شکستوں کو اپنے دل و دماغ میں جگہ دیتی، چھوٹی جیت یا چھوٹی ہار کی تاریخ میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی سو چھوٹی کامیابیاں سمیٹنے کے بجائے کسی بڑے مقصد کیلئے ہار چھوٹی کامیابیوں سے ہزار درجہ بہتر ہے، جس نے مجھے یہ درس دیا کہ جھوٹ ہمیشہ بزدل آدمی بولتا ہے کیونکہ وہ جس سے جھوٹ بولتا ہے اُس سے خوف کھا رہا ہوتا ہے اور میرا بیٹا بزدل نہیں۔ ہاں! میری ماں خورشید بیگم 93 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ میں نے زندگی میں اپنی ماں کو کبھی کسی سے بدکلامی کرتے نہیں دیکھا، اُن کی پانچ بہویں تھیں لیکن اُن میں سے کسی کے ساتھ اُن کی ایک لمحے کی بھی ناراضی دیکھنے یا سننے میں نہیں آئی، میری ماں نے بطور بیوی اپنے تمام حقوق اپنے شوہر کو دے رکھے تھے، ان کے پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں جن سے انہوں نے عمر بھر کوئی مطالبہ نہیں کیا، اُنہوں نے اپنے خاوند کی پہلی شادی کی اولاد کی پرورش کی، اپنے پہلے شوہر کے تین بیٹوں کو پالا اور پھر میرے والد سے نکاح کے بعد ہم تین بہن بھائی پیدا ہوئے لیکن مجھے اور میری دونوں بہنوں کو میٹرک کے بعد معلوم ہوا کہ ہمارے درمیان سگے اور سوتیلے کی نامعلوم دیوار کھڑی ہے۔ میں نے والدہ مرحومہ کی زبان سے کبھی ایسا کوئی ذکر نہیں سنا۔
میرا تعلق ایک کاروباری خاندان سے تھا۔ جہاں بچوں کو تعلیم کے بجائے کاروبار کی طرف راغب کیا جاتا تھا۔ یہ میری ماں ہی تھی جس نے میرے لیے ہر اختلاف اور مخالفت کا سامنا کیا لیکن میری تعلیم کے رستے میں کوئی دیوار کھڑی نہیں ہونے دی۔ میں اپنی ماں سے عشق کرتا تھا اور اِس کی ہرگز صرف یہ وجہ نہیں تھی کہ وہ میر ی ماں تھی بلکہ میں نے اپنی زندگی میں کسی دوسری عورت کو صبر کے اِس مقام پر دیکھا ہی نہیں کہ بدترین حالات بھی اُس کے ہونٹوں سے مسکراہٹ ختم نہ کر سکیں۔ اُن کی زبان پر کبھی کوئی گلہ، شکایت یا بددعا سے میری سماعت ہمیشہ محروم رہی۔ وہ طویل گفتگو نہیں کرتی تھیں، چھوٹے چھوٹے جملے اور اُن کے درمیان بھی طویل وقفہ ہوتا تھا۔ جب کبھی میں نے اپنے ذوق ِ سماعت کو باوضو کرنا ہوتا تو میں اُن کے ساتھ ماضی بعید کی کہانیاں لے کر بیٹھ جاتا جنہیں سنانا اُن کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ انہیں پاکستان بننے سے پہلے کے ہزاروں واقعات یاد تھے اور پھر آخری ایام میں الزیما کی وجہ سے انہیں صرف ماضی ہی یاد رہ گیا تھا۔ بھاٹی دروازے کا گاڈی محلہ، کوچہ بیلواناں، محلہ کاغذیاں (جہاں میری پیدائش ہوئی)، لوہاری کے چوک متی بازار کا کوچہ پیر شیرازی جہاں ہمارا آبائی مکان ہوا کرتا تھا، سب یاد تھا۔ انہیں اپنی ہندو سہیلیاں اور سکھ ہمسایوں تک کے نام آخری وقت تک یاد تھے۔ اُن کا سیاست سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا لیکن وہ تقسیم کو ہمیشہ المیہ ہی سمجھتی رہیں جس نے اُن سے بچپن کی سہلیاں اور اچھے ہمسائے چھین لیے تھے۔
نومبر کے آخر ی ہفتے میں والدہ کے بائیں پاؤں کے انگوٹھے کے ناخن کے نیچے زخم کا انکشاف ہوا جو کسی ٹھوکر کے نتیجہ میں بن گیا تھا لیکن ہمیں اُس وقت معلوم ہوا جب انگوٹھا خراب ہونا شروع ہوا۔ والدہ اُسے معمولی زخم قرار دے کر اپنے نواسوں سے ڈیٹول سے صاف کراتی رہیں لیکن جب دو تین دن تک زخم ٹھیک نہ ہوا تو میں انہیں لے کر ہسپتال چلا گیا جہاں مجھے بتایا گیا کہ انگوٹھا بالکل ختم ہو چکا ہے اور اِس کا ابھی آپریشن کرنا ہو گا ورنہ سارا پاؤں کاٹنا پڑ جائے گا۔ اُسی وقت بندوبست کیا گیا اور دو گھنٹے بعد والدہ آپریشن کے بعد اپنے پرائیویٹ روم میں تھیں۔ میں نے اپنی والدہ کے چہرے پر جس قدر اذیت اور درد دیکھا وہ میری زندگی کا پہلا تجربہ تھا۔ خدا کسی کو ماں کی اذیت نہ دکھائے کہ اِس سے زیادہ کرب اور دکھ کا کوئی دوسرا منظر ہو ہی نہیں سکتا۔ دو دن بعد والدہ کو ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا اور میں انہیں لے کر چھوٹی بہن کے گھر چلا گیا کیونکہ ڈاکٹر نے انہیں سیڑھیاں وغیر ہ چڑھنے سے منع کیا تھا اور میری رہائش پہلی منزل پر ہے۔ 16 دسمبر تک سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، زخم بھی بھر رہا تھا اور ڈاکٹر نے انہیں سٹیچ کرنے کا عندیہ بھی دے دیا تھا لیکن یکلخت والدہ نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور وہ صرف لیکوڈز پر آ گئیں۔ شوگر کم زیادہ ہونا شروع ہو گئی، زخم پر پٹی باقاعدگی سے ہو رہی تھی لیکن میری ماں روز بروز کمزور ہوتی جا رہی تھیں۔
23 دسمبر کی رات اُن کا شوگر لیول بہت کم ہو گیا، میں انہیں لے کر شیخ زید ہسپتال گیا جہاں ڈاکٹروں نے دو گھنٹے رکھنے کے بعد مجھے بتایا ’’انہیں وینٹی لیٹر کی ضرورت ہے اور ہسپتال میں موجود وینٹی لیٹر ہم انہیں نہیں دے سکتے کیونکہ آپ کی والدہ اُس کرائٹریا پر پورا نہیں اترتیں‘‘۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ وینٹی لیٹر کے موجد نے اسے بناتے ہوئے کوئی کرائٹریا لسٹ جاری نہیں کی تھی لیکن نج کاری کی لعنت نے پاکستان کے ہر عوامی ضرورت اور سہولت فراہم کرنے والے ادارے کے منہ کو نفع کا خون لگا دیا ہے۔ ایک ڈاکٹر نے مجھے وہاں سے چند کلومیٹر دور ایک پرائیویٹ ہسپتال کا ایڈریس تھما دیا جہاں وینٹی لیٹر موجود تھا۔ ایک جوان بیٹے کیلئے اِس سے زیادہ اذیت کی بات اور کیا ہو گی کہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا اُس کی 93 سالہ بزرگ ماں ڈاکٹروں کے نفع کی بھینٹ چڑھا دی جائے۔ میرے پاس حوصلے کی کمی تھی اور نہ ہی پیسوں کی لیکن جس بے رحم طریقے سے صرف پیسے بٹورنے کیلئے میری والدہ کو مختلف ہسپتالوں کے چکر لگوائے گئے وہ درد کے کسی فسانے سے کم نہیں۔ 2023 کا بلیک ہول میری زندگی کے آسمان پر چمکتے ہوئے دو خورشید نگل گیا۔ پہلے ماموں خورشید جن کی لازوال محبت اور اعلیٰ تربیت نے مجھے سوچنے والا انسان بنایا اور دوسری میری ماں خورشید بیگم جس کی شخصیت، محبت اور تربیت کے حصار میں رہنا میری زندگی کی سب سے بڑی سعادت ہے۔
تبصرے بند ہیں.