عام انتخابات ۔۔۔ ماضی کے آئینے میں!

97

8 فروری کو ملک میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کا عمل تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اُمیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کا مرحلہ مکمل ہونے کے ساتھ اُن کی جانچ پڑتال کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک میں ہزاروں اُمیدوار انتخابات میں حصہ لینے کے لیے میدان میں آ چکے ہیں۔ کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال، اُن پر اعتراضات، اعتراضات کی سماعت اور انتخابی اُمیدواروں کی حتمی فہرستیں آویزاں کرنے وغیرہ کے سارے مراحل بھی مقررہ مدت میں مکمل ہو جائیں گے۔ اس کے بعد انتخابی گہما گہمی، جلسے، کارنر میٹنگز اور ووٹ لینے کی بھاگ دوڑ جو یوں تو پہلے سے ہی جاری ہے مزید زور پکڑ لے گی۔ یہاں تک کہ 8 فروری کا پولنگ ڈے آجائے گا۔ اس دن کونسی سیاسی جماعتیں، کونسی شخصیات اور کون سے افراد اور سیاسی دھڑے اپنے لیے جیت کی نوید لے کر آئیں گے ، اس بارے میں اس مرحلے پر کسی حتمی رائے کا اظہار آسان نہیں سمجھا جاسکتا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر ماضی میں گزشتہ چھ ، سات عشروں کے دوران منعقد ہونے والے عام انتخابات کا ایک اجمالی سا جائزہ لیتے ہوئے اُن انتخابات کے حوالے سے ذہن میں موجود یادوں کو تازہ کیا جائے کہ اُن کے دوران انتخابی مہموں کے کیا رنگ ڈھنگ رہے اور انجام کار اُن میں کونسی سیاسی جماعتیں، سیاسی دھڑے اور اہم شخصیات کامیابیاں سمیٹتے رہے۔ یہاں اس امر کا حوالہ بے جا نہ ہوگا کہ راقم کو اُن انتخابات میں جہاں ووٹ ڈالنے یا بطور پوسٹل بیلٹ اپنا ووٹ بھجوانے کے مواقع ملے وہاں اُن انتخابات میں اور اُن کے ساتھ اس دوران ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں کم از کم 9 بار راقم کو بطور پریزائیڈنگ آفیسر اور دو بار بطور سینئر اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر فرائض منصبی سرانجام دینے کا موقع بھی ملا۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ ماضی کے ان انتخابات کی انتخابی مہموں کو قریب سے دیکھنے کے ساتھ پولنگ کے مختلف مراحل سے آگاہی اور مشاہدات بھی حاصل رہے۔
1970ء کے دسمبر کے مہینے میں منعقد ہونے والے عام انتخابات سے بات شروع کرتے ہیں۔ ان انتخابات میں راقم نے پہلی دفعہ جہاں پوسٹل بیلٹ کے طور پر اپنا ووٹ کاسٹ کیا وہاں واہ آرڈیننس فیکٹری کے ویلفیئر کلب کے پولنگ سٹیشن پر بطور سینئر اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر الیکشن ڈیوٹی بھی دی۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان ابھی تک متحد تھا۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کا طوطی بولتا تھا تو مغربی پاکستان صوبہ پنجاب اور سندھ میں بطورِ خاص جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کو زور حاصل تھا۔ یہ انتخابات جنرل یحییٰ خان کی مارشل لاء حکومت کے تحت منعقد ہو رہے تھے اور ان کا انعقاد اکتوبر 1970ء میں ہونا تھا لیکن مشرقی پاکستان میں ہولناک سمندری طوفان کی تباہ کاریوں کی بنا پر ان کو دسمبر تک ملتوی کر دیا گیا۔ 7 دسمبر 1970ء کو قومی اسمبلی اور 17 دسمبر 1970ء صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد کی تاریخیں مقرر کی گئیں۔ انتخابات میں تاخیر کی وجہ سے انتخابی مہم طول پکڑ گئی جس کا مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے منفی پراپیگنڈے کی بنیاد پر بطورِ خاص فائدہ اُٹھایا۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ جو شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات (ایک لحاظ سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی دستاویز) کی بنیاد پر انتخابات لڑ رہی تھی کی پُر تشدد اور پُر جوش انتخابی مہم اس زور شور سے جاری رہی کہ مدِ مقابل جماعتوں کو جن میں جماعت ِ اسلامی، کونسل اور کنونشن مسلم لیگ اور پاکستان جمہوری پارٹی وغیرہ نمایاں تھیں کو ذرا بھی پائوں جمانے کا موقع نہ مل سکا۔ مغربی پاکستان میں صوبہ سندھ اور پنجاب میں بطورِ خاص پاکستان پیپلز پارٹی کے روٹی، کپڑا اور مکان اور اسلامی سوشلزم کے نعرے کو بڑی پذیرائی ملی ہوئی تھی تاہم مسلم لیگ کونسل، مسلم لیگ کنونشن، مسلم لیگ قیوم اور جماعتِ اسلامی کے ساتھ صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی (موجودہ ANP) جمعیت علمائے اسلام اور کچھ قوم پرست جماعتیں اور رہنما بھی انتخابی میدان میں موجود تھے۔
جیسا کہ اُوپر کہا گیا ہے کہ ان انتخابات کے دوران راقم واہ آرڈیننس فیکٹری کے ویلفیئر کلب میں قائم پولنگ سٹیشن پر بطور سینئر اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر تعینات تھا۔ سارا دن ووٹرز جن میں سے زیادہ تر کا تعلق POF کے نچلے درجے کے ملازمین سے تھا کا تانتا بندھا رہا۔ صاف لگ رہا تھا کہ پیپلز پارٹی کے نشان تلوار پر مہریں لگ رہی ہیں۔ رات کو انتخابی نتائج آنا شروع ہوئے تو مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کی لینڈ سلائیڈ وکٹری اور مغربی پاکستان کے صوبہ سندھ اور پنجاب سے پاکستان پیپلز پارٹی کی بھاری اکثریت میں کامیابی کی خبریں ہم جیسے پرانی سوچ کے پاکستانیوں کو جو شیخ مجیب الرحمن کی علیحدگی پسند عوامی لیگ اور جناب بھٹو کی مادر پدر آزاد پیپلز پارٹی کو پسند نہیں کرتے تھے کا منہ چڑا رہی تھیں۔ لیکن عوام کی اکثریت کی رائے کے سامنے سر جھکانے کے علاوہ اور چارہ بھی کیا تھا۔
دسمبر 1970ء کے انتخابی نتائج کے بعد پاکستان جس طرح کے سیاسی بحران کا شکار ہوا اس کی تفصیل میں نہیں جاتے کہ یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ تاہم دسمبر 1971ء میں پاکستان دو لخت ہو گیا۔ مشرقی پاکستان میں پاکستانی افواج کو ہتھیار ڈالنا پڑے اور بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آ گیا۔ مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آ گئی۔ جنوری 1977ء میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے مقررہ وقت سے قبل مارچ 1977ء میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا۔ 7 مارچ 1977ء کو قومی اسمبلی اور 10 مارچ 1977ء صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد کی تاریخیں مقرر ہوئیں۔ ذوالفقار علی بھٹو مخالف جماعتوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے 9 جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد قائم کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس اتحاد کو پورے ملک میں زبردست پذیرائی حاصل ہو گئی۔ انتخابی مہم کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی یا ذوالفقار علی بھٹو کے جلسوں میں عوام بڑی تعداد میں شریک ہوتے تھے تو پاکستان قومی اتحاد جس کے اہم رہنمائوں میں مولانا مفتی محمود، نواب زادہ نصر اللہ خان، پیر آف پگاڑو، ائیر مارشل اصغر خان، شاہ احمد نورانی، مولانا طفیل محمد، پروفیسر عبدالغفور، سردار شیر باز مزاری، بیگم نسیم علی خان اور سردار محمد عبدالقیوم خان وغیرہ شامل تھے کے جلسوں میں عوام اس سے بڑھ کر شریک ہوتے تھے۔ انتخابی مہم کے یہ رنگ ڈھنگ ایسے تھے کہ بظاہر لگتا تھا کہ قومی اتحاد کے مقابلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کا جیتنا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی محال ضرور ہو گا۔
مارچ 1977ء کے انتخابات میں راقم گورنمنٹ ایم سی ہائی سکول مکھا سنگھ سٹیٹ کمیٹی چوک راولپنڈی کے پولنگ سٹیشن پر بطور سینئر اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر تعینات تھا۔ گورنمنٹ گارڈن کالج کے پروفیسر سلیم صاحب پریزائیڈنگ آفیسر تھے اور اسی کالج کے تین، چار دیگر پروفیسر بطور اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر ڈیوٹی کے لیے موجود تھے۔ پولنگ شروع ہوئی تو فضا میں بڑا تناؤ تھا۔ پاکستان قومی اتحاد کے اُمیدوار ایئر مارشل اصغر خان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سید اصغر علی شاہ کے درمیان کانٹے دار مقابلہ تھا۔ ڈیوٹی پر موجود گارڈن کالج سے تعلق رکھنے والے میرے ہمراہی پروفیسر حضرات کی پیپلز پارٹی کے ساتھ ہمدردیاں صاف نظر آ رہی تھیں۔ شام کو پولنگ سٹیشن پر گنتی مکمل ہوئی تو پیپلز پارٹی کے سید اصغر علی شاہ کو ائیر مارشل اصغر خان پر 12 ووٹوں کی برتری حاصل تھی۔ ملک گیر انتخابی نتائج سامنے آئے تو پاکستان قومی اتحاد پیپلز پارٹی کے مقابلے میں ایک چوتھائی سے بھی نشستوں پر کامیابی حاصل کرتا نظر آیا۔ پاکستان قومی اتحاد نے ان انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار ہی نہ کیا بلکہ 10 مارچ کو منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی طرف سے کی جانے والے مبینہ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کرنے کا بھی اعلان کر دیا۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک نے بتدریج کیسے زور پکڑا، کیسے اس نے تحریکِ نفاذ اسلام کا روپ دھارا، کیسے پُر زور احتجاج، آئے روز ہڑتالیں اور پُر تشدد ہنگامے جاری رہے، کیسے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور قومی اتحاد کے رہنمائوں کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا اور پھر کیسے 5 جولائی1977ء کو اُس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل محمد ضیا الحق نے 90 روز کے اندر ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے ملک میں مارشل لاء کا نفاذ کر دیا، یہ سب بھی ہماری قومی تاریخ کا حصہ ہے جس کی تفصیل میں یہاں جانے کا موقع نہیں۔ تاہم کم و بیش نصف صدی کا عرصہ گزرنے کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ مارچ 1977ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے بڑے پیمانے پر انتخابی دھاندلیاں ضرور ہوئیں لیکن یہ کہنا کہ محض انتخابی دھاندلیوں کے بل بوتے پر پیپلز پارٹی کو اتنی بڑی کامیابی ملی درست نہیں ہو گا۔ بعد کے معروضی حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ مارچ 1977ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری تھا اور بیرونی عناصر یا عالمی طاقتیں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ چاہتی تھیں کہ اُس کے خلاف اتنی بھرپور اور پُر زور احتجاجی تحریک چلی۔
جنرل ضیا الحق کا مارشل دسمبر 1985ء تک جاری رہا اس دوران میں فروری 1985ء میں ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات منعقد ہوئے تو اگلے عام انتخابات اگست 1988ء میں جنرل ضیا الحق کے طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد نومبر 1988ء میں منعقد ہوئے۔ ان انتخابات اور اُس کے بعد جولائی 2018ء تک منعقد ہونے عام انتخابات کا تذکرہ آئندہ کے لیے چھوڑتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.