عام انتخابات کے حوالے سے پہلا مرحلہ مکمل ہوا مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھنے والوں اور آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کی خواہش رکھنے والوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیئے ہیں مجموعی طور پر 28626 امیدوار سامنے آئے ہیں جو ایک ریکارڈ تعداد ہے محتاط اندازے کے مطابق نصف تعداد کھمبوں پر مشتمل ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی بھی میدان میں کھمبے موجود ہوں اور کھمبیاں نہ ہوں، مردوں کے شانہ بشانہ خواتین بھی بھاری تعداد میں موجود ہیں کچھ کا وزن ان کی عمر سے کم ہے کچھ زیادہ بھاری بھرکم ہیں لیکن انہوں نے اس خامی کو اس سہولت سے ڈھانپ رکھا ہے جسے ”بنائو سنگھار عورت کا حق“ کہتے ہیں۔ بیوٹی پارلر کے علاوہ فٹنس سنٹرز نے بھی اس معاملے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ خوش شکل نظر آنے اور فٹ دکھائی دینے کارجحان گزشتہ پانچ برس میں پروان چڑھا ہے خاص طور پر جب شکل اور فٹنس کے معیار پر مختلف اسمبلیوں کے ٹکف دینے کا فیشن آیا تو خواتین نے اس پر بھرپور توجہ دینا شروع کی۔ اس سے قبل سیاسی خواتین بیوٹی کانشس اور ڈریس کانشس نہیں ہوتی تھیں بلکہ گھریلو لباس میں چادر کی بکل مار کر اپنے حلقے کا دورہ کرنے میں کوئی عار نہ سمجھتی تھیں بکل کا ایک فائدہ یہ ہوتا تھا کہ حلقے کی مردوخواتین انہیں اپنی طرح کا سائیں لوک سمجھ کر عزت کرتے اور ووٹ دے دیتے تھے وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ طور طریقے بدلے اب امیدوار کے ساتھ چار گن مین لگژری گاڑی نہ ہو تو اسے یتیم مسکین سمجھا جاتا ہے اور پذیرائی حاصل نہیں ہوتی اسی طرح خواتین نے مہنگا میک اپ، مہنگی وگ نہ لگا رکھی ہو تو اسے بھی ووٹ دینا تو دور کی بات ہے کوئی منہ لگانا بھی پسند نہیں کرتا خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے اپنے پلے کچھ نہیں تو اس نے ہمیں کیا دینا ہے یا ہمارے لئے کیا کرنا ہے۔
طبقہ امراء سے تعلق رکھنے والی خوتین تو مختلف معاملات میں خودکفیل ہوتی ہیں جنہوں نے خودکفالت کی منزل طے نہ کی ہو یا جن کا پہلا پہلا الیکشن ہو وہ وقت آنے سے ایک برس قبل کم از کم چار سپانسرز کا انتظام کر لیتی ہیں متوسط یا غریب طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کو کوئی پارٹی سربراہ گھاس نہیں ڈالتا پھر بھی اگر اس کی کسی خاص صلاحیت کی بنا پر اسے ٹکٹ مل جائے تو سپانسر خودبخود دوڑے چلے آتے ہیں ماضی میں لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کو سپانسرز کے معاملے میں خودکفیل پایا، ایک ن لیگی سابق ممبر قومی اسمبلی ان کے پہلے سپانسر تھے جو ایک کاروباری شخصیت تھے ان سے خلاصی حاصل کرنے کے بعد ایک اور صنعتکار اور سابق ممبر قومی اسمبلی نے انہیں اپنی خدمات پیش کر دیں ان کا جی بھر گیا وہ لاتعلق ہوئے تو اسلام آباد کی ایک بڑی اور بارسوخ شخصیت نے اپنی خدمات پیش کر دیں آخری خبریں آنے تک وہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت بنے ہوئے ہیں جبکہ صاحب کے بچوں اور بیگم صاحبہ کے بچوں کے تعلقات کشیدہ ہیںدونوں کے بچے ایک دوسرے کوایک آنکھ نہیں بھاتے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے طبقہ امراء سے تعلق رکھنے والی خواتین کو پارٹی ٹکٹ دیئے ہیں کوئی خاتون ایسی نہیں ہے جس نے پارٹی کے لئے کوئی جدوجہد کی ہو کبھی احتجاج میں لاٹھیاں کھائی ہوں یا پولیس نے اپنا فرض پورا کرتے ہوئے انہیں سڑکوں پر گھسیٹا ہو، سیاسی تاریخ میں اس حوالے سے ایک ہی مثال ہے پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی ایک ورکر ساجدہ کو ٹکٹ دیا ان کی قربانیوں کی داستان طویل ہے۔
ایک سیاسی جماعت ایسی ہے جس نے گھریلو خادمائوں کو ٹکٹ دیا اب تو ٹکٹ دینے کا معیار ہر جماعت کا اپنا اپنا ہے کہیں میاں بیوی کو ٹکٹ دیئے گئے کہیں ماں اور بیٹے کو پارٹی ٹکٹ ملے ہیں البتہ کوئی دو بھائی ایسے خوش قسمت نہیں جنہیں کسی ایک پارٹی نے ٹکٹ دیا ہو، میاں کی خدمات کے صلے میں بیوی کو ٹکٹ ملا ہے، ماں کی خدمات کے صلے میں بیٹے کو ٹکٹ ملا ہے کچھ ایسے خوش قسمت ہیں جن کو ٹکٹ دینے کے علاوہ ان کی بیگم کے علاوہ بہو کو بھی ٹکٹ دیا گیا ہے، قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے بعد سینٹ کے انتخابات کا مرحلہ آئے گا اس میں پیمانہ مختلف نہ ہو گا کچھ لوگ زورِ بازو پر ٹکٹ حاصل کریں گے کچھ زر کے زور پر ٹکٹ حاصل کریں گے سیاسی تاریخ میں ایک خاندان ایسا بھی ہے جس میں ایک ہی وقت میں خاندان کے چار افراد کو سینٹ کے ٹکٹ دیئے جاتے رہے ہیں۔
طویل عرصہ بعد سیاسی جماعتوں کے سربراہ ان کے اہل خانہ یا دیگر اہم شخصیات اپنے آبائی حلقے چھوڑ کر صوبے یا ملک کے دوسرے حلقوں سے الیکشن لڑتے نظر آئیں گے اس کی بڑی وجہ ایک ہی ہے ان شخصیات کو اپنے آبائی حلقوں میں شکست کے آثار نظر آ رہے ہیں کسی ایک جماعت کے سربراہان کو غیبی مدد میسر آئے گی لیکن یہ مدد ہر ایک کو تو میسر نہ ہوگی، کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جنہیں پارٹی بہرصورت ایوان میں دیکھنا چاہتی ہے انہیں جنرل الیکشن میں حصہ لینے کے لئے ٹکٹ دینے کے علاوہ ان کی شکست کی صورت میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر بھی ان کے لئے گنجائش رکھی گئی ہے۔ قریباً ہر جماعت میں ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی پرانے ساتھی نظرانداز کر کے پیراشوٹرز کو سینے سے لگایا جا رہا ہے جس سے پرانے ساتھیوں اور کارکنوں میں بددلی پھیل رہی ہے لیکن اس کی پروا انہیں نہیں ہوتی پارٹیاں جن کی ذاتی جائیداد ہیں۔
تحریک انصاف کو اپنا انتخابی نشان بلا واپس مل گیا یہ کتنے دنوں تک ان کے پاس رہتا ہے یا کب ایک مرتبہ پھر ان سے چھن جاتا ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ان کے مخالفین نے بلا واپس مل جانے کے غم میں اس کے ہجے غلط کر دیئے ہیں جو بہت بری بات ہے، لغت پنجابی کی ہو یا اردو کی کسی بھی لفظ کے ہجے تبدیل کرنے کا حق کسی کو نہیں ہے۔ گورننس کا ایک نیا ماڈل دریافت ہوا ہے زمانۂ انتخاب میں دو اداروں نے خوب مال کمایا ہے، کاغذات نامزدگی کے ساتھ 65 کروڑ روپے قومی خزانے میں جمع ہوئے ہیں جبکہ دوسری بڑی دیہاڑی پنجاب میں ٹریفک پولیس کی ہے انہوں نے بھی نئے ٹریفک لائسنس بنانے اور پرانے لائسنسوں کی تجدید میں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے قومی صوبائی خزانے میںجمع کئے ہیں، صرف پنجاب میں بنائے جانے والے لائسنسوں کی تعداد کروڑ کے قریب ہے، سیاسی جماعتوں نے اپنے تئیں بہت سوچ سمجھ کر پارٹی ٹکٹ دیئے ہیں مگر ایک مافیا نے ٹکٹ دلوانے کے بدلے خوب ہاتھ رنگے ہیں۔ کمال یہ ہے کسی کے دامن پر کوئی داغ نہیں اے این پی کے امیدوار نیاز ولی انتقال کر گئے ہیں یوں وہ الیکشن 2024 کے پہلے شہید قرار پائے ہیں، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
تبصرے بند ہیں.