کل پریس کلب کے انتخابات تھے، شام کے دھندلکوں میں ایک فون کال نے نہ صرف چونکا دیا… جاوید زمان چلے گئے… یعنی بدقسمت 2023ء جس نے بہت سی تباہیاں سمیٹیں جس نے کئی دکھوں کے پہاڑ لا کھڑے کئے جس نے جاوید زمان سے پہلے قوی خان، ضیاء محی الدین، جنرل مشرف، خالد سعید بٹ، مشال بخاری، یوسف شکیل، شعیب ہاشمی، شرافت علی بلوچ، ماجد جہانگیر، عالمگیر ترین جیسے لوگ ہم سے چھین کر موت کے حوالے کر دیئے اور اس نے جاتے جاتے… کرکٹ کی دنیا کا ایک خوبصورت انسان، دوستوں کا دوست، ایک اصول پرست، ایک غیرجانبدار، ایک محبت بکھیرنے والا، ایک زندگی لوٹانے والا… ایک وفادار، پیارا انسان… جاوید زمان بھی لحد میں اتار دیئے گئے… ابھی گزشتہ دنوں میرے کولیگ اور بہت ہی پیارے انسان دوست، بہترین قلمکار مصطفیٰ تاثیر بھی رحلت فرما گئے، ابھی ان کا غم تازہ تھا… ابھی ان کی یادوں میں کھویا تھا، ابھی ان کا کل ذکر کر رہا تھا، کوئی ان کے لئے دعا تو کوئی ان کی زندگی کے واقعات دہرا رہا تھا، کوئی ان کی یادوں کے واقعات سنا رہا تھا۔ آج ایک اور غم نے آن لیا… جاوید زمان کی موت کی خبر نے مجھے اندر سے ہلا کے رکھ دیا…
جاوید زمان کوئی عام انسان نہیں تھا… ایک ہوتا ہے ناں سائنس دان، قانون دان۔ میرے نزدیک جاوید زمان ایک کرکٹ دان تھا جس نے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو بڑے نایاب، بڑے نادر، بڑے خوبصورت ہیرے دیئے۔ جس نے کرکٹ کی کلیوں کو پھولوں میں بدلا… جس نے کرکٹ کو ہر دور میں بڑا ٹیلنٹ دیا… کرکٹ کی دنیا کا بادشاہ گر کرکٹ کی دنیا کا ایک ایسا انسان جس کے بغیر لاہور کی کرکٹ ادھوری ہوا کرتی تھی اور کرکٹ کی جس محفل میں وہ ہوتا تو پھر وہ محفل بلند، گرجدار، اونچی آواز ہر طرف سنائی دیتی تو پتہ چلتا کہ جاوید زمان ہے تو یہ محفل سجی ہوئی ہے… جاوید زمان کی زندگی کے یوں تو بڑے اوراق ہیں اور اس کے ہر ورق پر کرکٹ کے واقعات، داستانیں، کہانیاں، واقعات یاد دلاتے ہیں۔ جاوید زمان کی زندگی کی ایک طویل فہرست میں یوں تو جنرل زاہد علی اکبر، جنرل صفدر بٹ، عبدالحفیظ کاردار سے ذکاء اشرف تک کے نام لکھے نظر آئے ہیں مگر دو نام ایسے جن کے بغیر کرکٹ، جاوید زمان ادھورے رہتے تھے۔ رشتے میں جڑے عمران خان کے ماموں اور دوستوں میں میاں محمد نوازشریف… ماموں ہونے کے ناطے عمران خان شاید ان کی اس قدر عزت نہ کرتا ہو جس طرح وہ ان سے خوف زدہ رہتا اور نوازشریف جم خانہ میں ان کے بغیر کرکٹ نہیں کھیلا کرتے تھے۔ میں ان تمام واقعات کا چشم دید گواہ ہوں۔
میری زندگی کا ایک طویل دور زمان پارک میں عمران خان کے ساتھ گزرا ہے۔ عمران خان کے گھر واقع زمان پارک کے سامنے والا گھر جاوید زمان کا ہے۔ ان دونوں گھروں میں ایک نمایاں بات جو گزرے عشروں میں بہت خوبصورت ہوا کرتی تھی وہ یہ کہ عمران کے گھر کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی تو جاوید زمان کے گھر سکول، کالج، یونیورسٹی اور دوسرے اداروں کے نوجوان کرکٹر نظر آتے تھے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ پڑھنے والوں کو یاد رہے کہ جاوید پاکستان کرکٹ بورڈ میں ڈومیسٹک کرکٹ کے چیئرمین ہوا کرتے تھے۔ وہ واحد شخصیت تھے جنہوں نے کرکٹ بورڈ کے ہر سربراہ کے ساتھ کام کیا اور وہ کرکٹر کی کی تلاش میں پورے پاکستان میں گھومنے جاتے تھے۔ میرا ان کے ساتھ تعلق 1980ء میں جڑا۔ ان دنوں نوائے وقت میں صحافت کے ساتھ آغاز محبت تھا اور کرکٹ کے نامور جرنلسٹ سلطان عارف سے میں نے سپورٹس جرنلزم کی کتاب پڑھنا شروع کی۔ وہ روزانہ شام کو لاہور جم خانہ جاتے تھے۔ جاوید زمان کئی عرصہ تک پہلے جم خانہ کرکٹ کلب کے کپتان تو پھر کئی سالوں تک وہ اس کے سرپرست اعلیٰ بھی رہے۔ دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ عمران خان کی زیادہ تر کرکٹ لاہور جم خانہ میں کی حد تک رہی کہ وہ روزانہ شام کو پریکٹس جم خانہ میں کرتا تھا اور شام ہم اکثر جرنلسٹ جم خانہ میں آتے تھے۔ جاوید زمان کی مشہور زمانہ گالیاں آج بھی ہمارے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ میاں محمد نواز شریف کے یاروں میں ایک بڑا یار جاوید زمان بھی تھا جو ان کے سامنے جب وہ وزیر اعظم تھے ہر ایک کو گالیاں دیتے اور نواز شریف کی جاوید زمان سے دوستی کی وجہ ایک تو ان کی گالیاں، مزاج، چھیڑ چھاڑ کے علاوہ وہ نواز شریف کی کرکٹ کوچنگ بھی کرتے تھے اور مرتے دم تک انہوں نے نواز شریف سے دوستی نبھائی اور وہ نواز شریف سے جب ملتے تو بے تکلفی کا عالم یہ ہوتا کہ یوں لگتا کہ دونوں بچپن کے یار ہیں اور نواز شریف ان کی باتوں اور خاص کر گالیوں سے بہت انجوائے کرتے تھے۔ عمران خان کے ماموں ہونے کے ناطے ان کا عمران خان کے ساتھ تعلق کرکٹ کا زیادہ ہوتا اور وہ عمران خان کی بہت سی عادات سے نالاں ہوتے تھے اور کئی مواقع پر اس کو بھری محفل میں جھڑک دیا کرتے تھے کہ میں ان کی بہت سی محفلوں کا عینی شاہد گواہ ہوں۔
ایک تو میرا تعلق بحیثیت ان کے ساتھ بطور صحافی تھا دوسرا یہ کہ وہ مجھ سے بہت لگائو رکھتے جب بھی میں نے ان سے میدان کرکٹ میں انٹرویو کی خواہش کی وہ اگلے روز کبھی دوپہر کو کھانے، کبھی شام کو چائے پر گھر بلاتے اور میں جب بھی عمران کے گھر ہوتا تو ان کو سلام کرنے سامنے والے گھر ضرور جاتا… جاوید زمان کی زندگی میں بڑی خواہش تھی کہ ان کا بڑا بیٹا بابر زمان جو کہ پی آئی اے میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہے، وہ پاکستان کی طرف سے کھیلیں اور بابر زمان اپنے دور میں ایک اچھا کرکٹر تھا۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں اس کا شمار بڑے کھلاڑیوں میں سے ہوتا تھا مگر شومئی قسمت وہ بڑی کرکٹ نہ کھیل سکا مگر وہ بھی اپنے کزن عمران کے ساتھ پھر میدان میں ہوتا۔
جاوید زمان جیتا یا موت جیتی… کہ موت کو تو آنا ہے اور ہر انسان نے اس کا مزہ چکھنا ہے۔
کون سی آنکھ جو غم سے یہاں روتی نہیں
جانے والوں کی مگر رفتار کم ہوتی نہیں
ہم سب نے اپنے مقرر کردہ وقت پر چلے جانا ہے۔ یہ انسان فانی اشیاء سے محبت کرتا ہے، ان کی تمنا کرتا ہے، انہیں جمع کرتا ہے اور فانی شے ختم ہو جاتی ہے تو وہ دکھ کرتا ہے۔ اس کو اس بات کا کم احساس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ زندگی کا کھیل ہے۔ ہمارا اصل مقام تو آخرت ہی ہے، اس کائنات کے خوب کھیل ہیں۔ زمانے زمانوں کی تلاش میں ہیں، گردشیں گردشوں کی تلاش میں تو وقت وقت کو کھا رہا ہے، زندگی موت کے حصار میں ہے اور موت زندگی کی زد میں… موت سے پہلے زندگی جو جلوہ گاہ ہے… حسن کا جلوہ… بارونق بازار… خریداروں کا رش… ایک الجھا ہوا سوال زندگی جسے موت ایک لمحے میں ختم کر دیتی ہے لوگ آتے ہیں، چلے جاتے ہیں پھر ان کی یاد ہی رہ جاتی۔ کون جانے کہ انسان کا لامحدود سفر کہاں سے شروع ہوا اور انجام کار کہاں ختم ہوگا۔
جاوید زمان اوکھے پینڈوں کا مسافر تھا، زندگی کے سفر میں اس نے کبھی ہار نہیں مانی، بولڈ فیصلوں کا عادی جاوید زمان تلخ بھی تھا، شیریں بھی تھا، خاموشی ان کے پاس سے ہو کر نہیں گزری کبھی، رات گئے کبھی سٹیڈیم، کبھی ایل سی سی کی گرائونڈز، کبھی شہر شہر، نگر نگر ٹیلنٹ کی تلاش میں وہ رواں سفر رہا۔ جاوید زمان کی موت پر یاد آیا۔
انسان دنیا میں بہت کچھ کرتا ہے، بہت کچھ کماتا ہے۔ میرے نزدیک وہ نہ کچھ کرتا ہے، نہ کچھ پاتا ہے، وہ صرف دنیا میں آتا اور جاتا ہے مگر میرے نزدیک جاوید زمان نے کچھ کھویا کم ہی ہوگا، اس نے بہت کچھ پایا۔ قومی کرکٹ کو بنانے اور سنوارنے میں جاوید زمان کا کردار کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے جتنی زندگی گزاری صرف کرکٹ میں گزاری۔ کرکٹ کو دیکھا، کرکٹ کو سکھایا، کرکٹ میں سویا اور کرکٹ میں ہی موت کو گلے لگا لیا۔ ان کے بارے میں کبھی دو رائے نہیں رہی جو منہ میں آیا کہہ دیا… وہ کیا جو من نے چاہا۔
اک مصلحت نے باندھ رکھا تھا تمام عمر
مگر جانتا تھا اس سے بچھڑنا ہے ایک دن
دکھ اس بات کا ہے کہ آج کی نسل کو نہیں معلوم کہ ہمارے ہیرو کون تھے اور کون ہیں۔ آج کسی چینل پر ایک ٹکر نہیں چلا کہ جاوید زمان اب دنیا میں نہیں رہے، کرکٹ کی دنیا کا بڑا نام کل شام ہم سے جدا ہو گیا… ایک دو اخباروں میں سنگل کالمی خبر اس شخص کی موت پر جس نے پاکستان کی کرکٹ کو بڑی شناخت دی۔
آخری بات آخری لفظ جاوید زمان کے نام…
مجھے تم سے کوئی گلہ نہیں…
کہ میں یاد تم کو نہ آسکا
مگر اتنی بات ضرور ہے
تمہیں میں نہ دل سے نکال سکا
اسد شہزاد
تبصرے بند ہیں.