جس جماعت کو پسندیدہ قرار دیا جا چکا ہے اور جس کے امیدوار برملا کہتے پھر رہے ہیں کہ وہ تو جیتے ہوئے ہیں ،ان کو اشارہ مل چکا ہے ،کیا وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کے کہ سکتے ہیں کہ الیکشن فیئر اینڈ فری ہو رہے ہیں؟ ان میں سے اکثر اس کے جواب میں ایک ہی بات کرتے ہیں کہ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات بھی تو ایسے ہی تھے،ان کا یہ کہنا ہی انتخابات کی شفافیت پر بہترین تبصرہ ہے۔بہر حال الیکشن کمیشن کی جانب سے 8 فروری کے انتخابات کے لیے شیڈول جاری ہونے کے بعد کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ مکمل ہوچکا ہے، ادھر سیاسی جوڑ توڑ کا معاملہ جو پہلے سے چل رہا تھا، اس کی رفتار بڑھ گئی ہے اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی تیزی آ چکی ہے، یہ ساری ہلچل عوام کو متحرک کرنے کا سبب بن رہی ہے اور ملک میں عام انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں جو ایک غیر یقینی کیفیت اب تک قائم تھی اس کا خاتمہ ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔ بڑے عرصے کے بعد اب لوگوں کو قدرے یقین ہونے لگا ہے کہ 8 فروری کو ملک میں عام انتخابات ہو جائیں گے، قدرے اس لیے کہ تا حال سب کچھ ٹھیک نظر نہیں آتا یعنی راوی ابھی چین ہی چین لکھنے کے قابل نہیں ہے، بہت سے سوالات ابھی باقی ہیں جن کے جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے ، بہت سا ابہام تا حال پایا جا رہا ہے جس کے خاتمے کے لیے کام ہونا چاہیے۔ آرمی چیف نے چند روز پہلے کہا کہ ملک میں عام انتخابات مارچ سے پہلے ہوں گے ، لاجسٹکس کی وجہ سے الیکشن کچھ دن آگے پیچھے ہو سکتے ہیں لیکن رْکیں گے نہیں۔ اب اس آگے پیچھے کا پتا نہیں کیا مطلب ہے؟ نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضی سولنگی نے اس کے برعکس بیان دیتے ہوئے کہا کہ مالی انتظامی اور سکیورٹی کے حوالے سے ایسی کوئی صورت حال نہیں جو انتخابات میں تاخیر کا باعث بنے انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے،وزیر اطلاعات کا کہا بجا ، ہماری بھی خواہش اور دعا ہے کہ ملک میں صاف شفاف عام انتخابات آٹھ فروری کو ہو جائیں تاکہ کچھ سیاسی استحکام آئے اور معیشت کی بہتری کے حوالے سے بھی ماحول سازگار بن سکے۔
جس روز الیکشن کے مؤخر ہونے کا اندیشہ ظاہر کرنے اور پھر مؤخر نہ ہونے کی یقین دہانی پر مبنی بیانات سامنے آئے اس سے ایک روز بعد ایک اور معاملہ سامنے آ گیا جس نے کچھ نئے اندیشے ، کچھ نئے سوالات پیدا کر دیئے، الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے پارٹی سے بَلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا۔ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پی ٹی آئی نے انتخابات پارٹی آئین کے مطابق نہیں کرائے، پی ٹی آئی پر اعتراض تھا کہ اس نے خفیہ طور پر انتخابات کروائے اور کسی ممبر کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ سوال یہ ہے کہ محض پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات ہی پارٹی آئین کے مطابق نہیں کرائے گئے تھے باقی ساری پارٹیوں کے جو انٹرا پارٹی انتخابات ہوتے ہیں کیا ان میں ان سب معاملات کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے جن کی پی ٹی آئی سے سہو ہو گئی؟
ملکی تاریخ میں یہ تو پہلی بار ہوا ہے کہ کسی پارٹی کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیئے گئے لیکن یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی پارٹی کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کیا گیا ہے، اس سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کو اس کے اولین انتخابی نشان تلوار سے محروم کر دیا گیا تھا اور اس کی جگہ اس جماعت کو تیر کا نشان الاٹ کرانا پڑا تھا، ہوا یہ تھا کہ 1977 کے الیکشن کے بعد جب جنرل ضیاالحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو پیپلز پارٹی کی آزمائش کا دور شروع ہو گیا تھا، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی اور پارٹی کی باقی قیادت حالات کی زد میں آ کر تتربتر ہو گئی تھی۔ ضیاالحق نے 1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کرائے تو انتخابی نشانات کی فہرست میں تلوار کا نشان موجود نہیں تھا۔ صاف نظر آرہا تھا کہ پیپلز پارٹی کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کر کے جماعت کی سیاسی قوت کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے، بعد ازاں جب 1988ء میں عام انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی نے تیر کا انتخابی نشان حاصل کر لیا اور تب سے گزشتہ الیکشن (2018ئ) تک وہ تیر کے نشان پر ہی انتخابات لڑتی آ رہی ہے۔ تازہ خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو 46 سال کے بعد اس کا اصلی انتخابی نشان تلوار بھی واپس مل گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کو تلوار کے انتخابی نشان سے محروم کرنے کا مقصد پارٹی کی سیاسی قوت کو کمزور کرنا تھا تو کیا پی ٹی آئی کو بَلے کے انتخابی نشان سے محروم کرنے کا بھی یہی مقصد ہے؟ اس سے اگلا سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو تلوار کے نشان سے محروم کرنے سے کیا یہ پارٹی واقعی کمزور ہو گئی تھی؟ اور کیا بَلے کے نشان کے بغیر پی ٹی آئی کی کامیابی کے امکانات معدوم ہو جائیں گے؟ اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا تو پی ٹی آئی کو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے اس کا ایک دو دن میں پتا چل جائے گا فی الحال پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی جانب سے بَلے کا انتخابی نشان واپس لینے کے فیصلے کو بد نیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف کورٹ میں جانے کا اعلان کیا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر خان نے اس حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن پر ہمارے تحفظات ہیں ، ہم نے آئین کے تحت الیکشن کرائے ہمیں بتایا جائے ہم نے کون سا قانون توڑا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے پاس پلان بی موجود ہے۔ دیکھتے ہیں پی ٹی آئی کا پلان بی کیا ہو سکتا ہے؟ تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر لطیف کھوسہ کا رد عمل یہ ہے کہ فیصلوں سے مایوسی ہوئی اس طرح جماعتیں مائنس نہیں ہوا کرتیں، ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے بانی الیکشن نہیں لڑیں گے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ؟ کیا وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کو بالقصد الیکشن کے معاملات سے پیچھے دھکیلا جا رہا ہے؟ اگر یہی حقیقت ہے تو کیا پی ٹی آئی کی غیر موجودگی میں ہونے والے انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدارانہ قرار دیا جا سکے گا؟ اور کیا سبھی پارٹیاں ان کے نتائج کو تسلیم کر لیں گی؟
سوچنے والی بات ہے ، کہیں ہم اور ہمارا ملک ایک نئے سیاسی بحران کے دہانے پر تو نہیں کھڑا؟ کس کو لایا جا رہا ہے، کس کوروکا جا رہا ہے ،اس کا اندازہ سبھی کو ہے، اگر فری اینڈ فیئر الیکشن نہیں کرانے اور سلیکشن ہی ہونی ہے تو الیکشن پر قوم کے اربوں روپے لگانے کے بجائے سیدھا سیدھا رزلٹ سنا دیا جائے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.