میں نے 21اکتوبر کومیاں نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد سے اب تک ان کی ’پولیٹیکل مووز‘ کا بغور جائزہ لیا ہے۔ جائزہ تو میں نے عمران خان، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان اور سراج الحق کی مووز کا بھی لیا ہے کہ میرا تو دھندہ بھی یہی ہے اور شوق بھی یہی۔ میں نے دیکھا ہے کہ میاں نواز شریف بالکل نہیں بدلے۔ وہی شاہانہ انداز ہے۔ وہی پسندناپسند ہے۔ وہی کچن کیبینٹ ہے بلکہ شائد پہلے سے بھی محدود۔اب تو ارد گرد شہباز شریف، مریم نواز اور اسحق ڈار کے سوا کوئی نظر بھی نہیں آتا یعنی انہوں نے مینار پاکستان پر اپنے بھائی اور بیٹی کو جو جپھی ڈالی تھی اس سے باہر نہیں نکلے۔ پہلے جاوید ہاشمی اور چوہدری نثار آوٹ ہوئے تھے اور اب شاہد خاقان عباسی اورمہتاب عباسی بھی ہو گئے حالانکہ پہلے والے عباسی کچھ عرصہ پہلے اتنے قریب تھے کہ بھائی کی جگہ کسی کو وزیراعظم بنانے کے لئے چنا تو انہیں ہی چنا۔
مجھے لگتاہے کہ میاں نواز شریف میں پہلے سے زیادہ غم اور غصہ آ گیا ہے۔ میں نے یہ غم اور غصہ پرویز مشرف کے دورمیں اس حد تک نہیں دیکھا تھا جس حد تک عمران خان کا دور گزارنے کے بعد دیکھ رہا ہوں۔ پرویز مشرف کا دور گزارنے کے بعدا نہوں نے سیاسی مفاہمت سیکھی تھی۔ وہ پیپلزپارٹی کے حلیف بنے تھے بلکہ مجھے یاد ہے کہ وہ مجھ سے ناراض ہی اس سوال کے ایک سے زائد بار کرنے پر ہوئے تھے کہ پیپلزپارٹی آپ کی نظریاتی حریف ہے اور اگر آپ دونوں حلیف بن گئے تو حریف کون ہوگا اور کیا ایک غیر جانبدار ووٹر اس اتحاد کو ہضم کر لے گا۔ پھر یہی ہوا کہ میاں نواز شریف کی یہی پازیٹیوموو، نیگیٹو میں بدل گئی۔ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کے اتحاد کو عمران خان نے منفی معنوں میں استعمال کیا۔ سب کو ایک ہی طرح کے چور قرار دے دیا اور خود حاجی بن کے بیٹھ گیا۔ میں نے اب تک نواز شریف کی جتنی بھی تقاریر سنی ہیں ان تمام میں وہ پہلے جیسے نواز شریف نظر نہیں آ رہے۔ وہ نواز شریف جو عمران خان کے لفٹر سے گرنے پر عیاد ت کے لئے بے چین ہوجاتے تھے اب وہ بعض لوگوں کی طرف سے مفاہمت اور معافی کی باتیں سننے کے موڈ میں بھی نظر نہیںا ٓتے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ انتقام نہیں ہوگا مگر احتساب تو ضرور ہو گا، حساب تو ضرور دینا پڑے گا۔ مجھے ان کی باتوں میں زیادہ غم اورزیادہ غصہ نظر آ رہا ہے۔ اپنی بستر مرگ پر پڑی محبوب اہلیہ کو چھوڑ کے آنے کا غم اور پھر آخری دم بات تک نہ کرسکنے کا غم۔ اپنی بیٹی کو اپنے سامنے گرفتار ہوتے دیکھنے کا غصہ اوروہ بے بسی کہ وہ کچھ کربھی نہیں سکتے تھے۔
نواز شریف درست طورپر سمجھتے ہیں کہ وہ 2013ء میں اقتدار میں آنے کے بعد ملک کے لئے بہت کچھ کر رہے تھے۔ لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی ختم کر رہے تھے۔ میٹروز، موٹرویز، ائیرپورٹس اور سی پیک بنا رہے تھے۔ پاکستان کا جی ڈی پی ریٹ ملکی تاریخ کی انتہائی اوپر کی سطح پر اور افراط زر کو ملکی تاریخ کی انتہائی نچلی سطح پر لا رہے تھے مگر ان کے خلاف ڈی چوک کے دھرنوں سے عدالتوں کے فیصلوں تک کی سازشیں ہو رہی تھیں۔ا نہیں جس طرح سینکڑوں بار بیٹی کے ساتھ عدالت کے سامنے پیش ہونے پر مجبور کیا گیا ، انہیںجس طرح جیل میں رکھا گیا، ان کی جس طرح کردار کشی کی گئی ، وہ سب کا سب شرمناک تھا۔ آج بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کے ساتھ بھی ظلم اور زیادتی ہو رہی ہے مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ نواز شریف اور عمران خان کے درمیان ایک بہت بڑا فرق ہے اور وہ فرق 9 مئی کا ہے۔ نواز شریف اپنے غم اور غصے کی انتہا پر بھی اسٹیبلشمنٹ کے لئے خلائی مخلوق کے لفظ سے اوپر اور آگے نہیں گئے۔ انکی انتہائی جرات اور بغاوت یہی تھی کہ گوجرانوالہ کے جلسے میں باجوہ اور فیض کے نام لے لئے تھے مگر انہوں نے نہ کسی سپہ سالار کو میر جعفراور میر صادق کہا، نہ کسی پر قتل کا الزام دھرا، نہ ڈرٹی ہیری کا نام دیا۔ 9 مئی ہی نواز شریف اور عمران خان کے درمیان بنیادی فرق ہے جس کی نشاندہی انہوں نے وطن واپسی پرکی تھی کہ ہم 28مئی والے ہیں، 9مئی والے نہیں۔ نواز شریف سے ایٹمی دھماکوں سے معاشی دھماکے تک منسوب ہیں۔ جب یہ سارا وقت گزر جائے گا اور پروپیگنڈے کے طوفان بیٹھ جائیں گے تو مورخ نواز شریف کو ملک و قوم کے محسن کے طور پر یاد کرے گا۔ ایک جدید پاکستان کے بانی کے طور پر ان کا نام لکھے گا۔
کہتے ہیں کہ نواز شریف لاڈلا ہے مگر یہ کہنے کے لئے آپ کو، 2011ء سے 2022ء تک، گیارہ سال کی تاریخ کو بھولنا پڑے گا۔نواز شریف کے مقدمات ختم ہونے پر اعتراضات کئے جا رہے ہیں تو پھر کیا آپ گواہی دیں گے کہ نواز شریف پر بننے والے مقدمات درست تھے۔ کوئی نفرت اور بغض کا مارا شخص ہی کہہ سکے گا کہ نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر تاحیات نااہل کرنے کا فیصلہ درست تھا یا ایون فیلڈ اورالعزیزیہ جیسے مقدمات کے فیصلے درست تھے جن پر مانیٹرنگ جج مقرر کر کے مطلوبہ فیصلے لئے گئے تھے۔ آپ اگر اپنی غلطیوں اور زیادتیوں کا ازالہ کر رہے ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ جس سے آپ نے زیادتی کی وہ لاڈلا ہے۔بعض لوگ اس وقت نواز شریف اور عمران خان کے معاملات کوکنفیوژ کر رہے ہیں۔ نواز شریف کی لانچنگ کا معاملہ بہت، بہت پرانا ہوچکا۔ ان پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا مگر بانی پی ٹی آئی کی لانچنگ جنہوں نے کی اور اسے ایک سیاسی عفریت بنایا اس کے لئے آج سے پچیس برس پہلے سے فضا بنائی جا رہی تھی جب پرویز مشرف کے آرمی چیف بننے کے ساتھ ہی نواز شریف اور بے نظیر بھٹوجیسی پرانی قیادتوں کے خلاف کام شروع ہو گیا تھا۔ ہماری فوج، عدالتوں اور درس گاہوں تک ایک ہی سبق پڑھایا جا تا تھا کہ پرانے سیاستدان برُے ہیں ۔اب ہمارے بہت سارے اس معاملے میں آئین، جمہوریت اور اخلاقیات کے نام لے کر کنفیوژن پیدا کر رہے ہیں حالانکہ اس سیاسی عفریت کے پیدا ہونے میں ان تمام عناصر کا کوئی کردار ہی نہیں ہے۔ میراتو کہنا یہ ہے کہ اس سلسلے میں ابہام پیدا نہ کریں ۔ جنہوں نے اسے پیدا کیا تھا اور پیدا ہونے کے بعد جن کو یہ پڑ اتھا انہیں ہی اس سے نمٹنے دیں۔ اس سیاسی عفریت سے نمٹنے کی اہلیت پرانی سیاسی قوتوں میں نہیں ہے، اس عفریت کو اس کا خالق ہی نیست و نابود کر سکتا ہے۔ملکی سیاست اس وقت بند گلی میں آ گئی ہے۔ اس وقت بحالی اور ترقی کا راستہ صرف نواز شریف کی صورت میں نکل رہا ہے ، ہاں، یہ درست ہے کہ نواز شریف بالکل نہیں بدلے لیکن جب شہباز شریف بھی مقابلے پر نہیں تو نواز شریف کے سواآپشن ہی کیا ہے؟
Prev Post
تبصرے بند ہیں.