بلوچ سردار دشمن قوتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں

52

دہشت گرد پاکستان کی سا لمیت کو نقصان پہنچانے کے لیے گھناؤنی حرکتیں کررہے ہیں اور ان کے تانے بانے انڈین خفیہ ایجنسی را ،اسرائیلی موساد اور امریکن سی آئی اے سے ملتے ہیں۔ دشمن قوتیں پاکستان میں انتشار،دہشت اور خوف کی فضا قائم کرنا چاہتی ہیں۔غیر ملکی طاقتیں پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے کوتیار نہیں۔ ہمارے بعض سیاسی عناصر خصوصاً بلوچ سردار دشمن قوتوں کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں اور ان قوتوں کے مذموم عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ان کے مدد گار ہیں جس کے عوض میں انہیں بھاری مالی امداد، جدید اسلحہ اور گاڑیاں فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ عناصر بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر اور کراچی میں لسانی قوتوں کو منظم کر کے آپس میں لڑوانے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔ ان عناصر کو بین الاقوامی خفیہ ہاتھ منظم کر رہے ہیں۔ بھارت افغانستان میں پناہ گزین براہمداغ بگٹی کے علاوہ دیگر بلوچوں کو بلوچستان میں بدامنی کیلئے استعمال کرتا رہا ہے۔ بھارت بلوچستان کے علیحدگی پسندبھارتی سرمائے سے یورپی ممالک برطانیہ، کینیڈا، دبئی، اومان کے ہوٹلوں میں رہائش پذیر ہیں۔ را کے زیر سرپرستی بلوچ علیحدگی پسندوں کو تخریبی کارروائیوں کیلئے افغانستان میں قائم مختلف تعلیمی اداروں میں ورغلا کرعظیم تر بلوچستان کے بارے میں گمراہ کن تھیوریاں بتائی جا رہی ہیں جس میں انہیں پاک فوج اور آئی ایس آئی سے متنفر کرنے کیلئے خصوصی سیمینار کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے۔

وطن عزیز میں بھارتی دہشت گردی کی سب سے بڑی مثال تو کلبھوشن ہے جس نے اعتراف کیا کہ وہ بلوچستان اور کراچی میں کارروائیاں کرتا تھا اور یہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے چیف اور جوائنٹ سیکریٹری کے ساتھ مل کر کام کر رہا تھا۔ جب کل بھوشن یادیو کو پکڑا گیا تو اس کے پاس سے امریکی ،پاکستانی اور ایرانی کرنسی برآمد ہوئی اور اس کے پاس بلوچستان اور پاکستان کے نقشے تھے۔

بہت برسوں تک وطن دشمن عناصر کے ہاتھوں میں کھیلنے کے بعد بلوچوں کو یہ بات سمجھ میں آئی کہ وہ دوسروں کے کہنے میں آکر خود اپنے گھر کو ہی برباد کر رہے ہیں لہٰذا کچھ منحرف بلوچ سردار اور جنگجو ہتھیار پھینک کر واپس قومی دھارے میں شامل ہو رہے ہیں۔ ان ہی میں کالعدم بلوچ نیشنل آرمی ( بی این اے) کے کمانڈر سرفراز بنگلزئی ہیں جو اپنے 70 ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہوئے ہیں۔

کمانڈر سرفراز بنگلزئی نے انکشاف کیا کہ بلوچستان کا امن تباہ کرنے اورمذموم مقاصد کے حصول کیلئے کچھ لوگ بلوچ ماؤں، بہنوں اور بلوچ نوجوانوں کو ریاست کیخلاف استعمال کر رہے ہیں۔ ان سب کو سرمایہ بھارت فراہم کرتا ہے۔منشیات فروشی،لوگوں کو اغوا بھی کیا جاتا ہے۔ بھارت سے پیسے لیکر اپنے ہی لوگوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ 2014ء میں صرف ایک ضلع آواران میں 155 بے گناہ اور معصوم بلوچوں کو قتل کیا گیا کیونکہ انہوں نے بھتہ دینے سے انکار کیا تھا۔ 20 سال میں ہزاروں بلوچ نوجوانوں کو قتل کیا گیا۔ اس لڑائی میں جاں بحق بلوچوں کے لواحقین دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں اور کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

کمانڈر سرفراز بنگلزئی عرف مرید بلوچ نے اپنے متعلق بتایا کہ میرا تعلق مستونگ کے علاقے اسپلنجی سے ہے۔ 1991سے 2009تک میں سر کا ری ملازم رہا اور خوشحال زندگی گزار رہا تھا میرے پاس اپنی جائیداد تھی اور بچے اچھے سکول میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ 2009 میں میں چند لوگوں کے بہکاوے میں آکر اپنے ساتھیوں سمیت مسلح جدوجہد میں شامل ہوا۔اپنے قریبی ساتھی، رشتہ دا ر اور دو بیٹے بھی قربان کیے۔اس وقت یہی سمجھا کہ بلوچ حقوق کے لیے جدوجہد کر رہا ہوں۔ لیکن میں نے دیکھا کہ ہمارے ارد گرد چند لوگ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مزید نظر ڈالی تو پتہ چلا کہ تمام تنظیمیں بھتہ خوری، منشیات فروشی اور لوگوں کے اغوائ￿ برائے تاوان سے عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے تھے یہ تمام چیزیں دیکھ کر ہم نے محسوس کیا کہ یہاں قومیت اور اس سرزمین کے لیے کوئی جنگ نہیں ہو رہی ہے لوگ صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے معصوم بلوچوں کو مروا رہے ہیں۔ مجھے تحریک میں سوال اٹھانے کی وجہ سے سائیڈ لائن کردیا گیا۔ بلوچوں کا خون بلوچوں کے ہاتھوں کروایا گیا اور اب بھی جاری ہے۔ ان تمام سازشوں میں بھارت کا ہاتھ ہے دیگر ہمسایہ ممالک بھی ملوث ہیں۔

بہرحال سرفراز بنگلزئی اور ان کے ساتھیوں کو یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ بلوچستان اورپاکستان لازم وملزوم ہیں۔انہوںنے بلوچ مائوں کو پیغام دیا ہے کہ اپنے بچوں کو بیرونی ممالک کے مفادات کا ایندھن بننے سے بچائیں۔ انہیں بندوق کی بجائے تعلیم دلائیں۔ بندوق کسی مسئلے کا حل نہیں۔ بلوچ نوجوانوں اور عوام سے اپیل ہے کہ اس بیرونی دھوکے میں ہرگز نہ آئیں۔ 15 سال تحریک سے وابستہ رہنے کے بعد آج میرے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں۔ دونوں طرف سے کافی نقصان کافی ہوا ہے میں ان تمام لوگوں سے معافی کا بھی طلبگار ہوں جن لوگوں کو ہماری وجہ سے تکلیفیں اور دکھ اٹھانا پڑا۔ ریاست سے اپیل ہے کہ جو لوگ مسلح جدوجہد ترک کرنا چاہتے ہیں انہیں راستہ دیا جائے وہ قومی دھارے میں واپس شامل ہوں۔

نگراں وزیر داخلہ میر زبیر جمالی نے کہا کہ وہ حکومت پاکستان حکومت بلوچستان اور عوام کی طرف سے قومی دھارے میں شامل ہونے والے سرفراز بنگلزئی اور ان کے ساتھیوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ ہماری دھرتی ماں ہے اور یہاں رہنے والے ہم سب ایک ہیں۔ آج ریاست نے ماں کا کردار ادا کیا ہے۔ ہماری سرزمین کے بیٹے کو بھارت کے مکروہ عزائم کا علم ہونے کے بعد قومی دھارے میں شامل ہونے کا سیدھا راستہ بھی مل گیا ہے۔ ریاست پاکستان کی پالیسی بہت واضح ہے جو مسلح لوگ ریاست کو تسلیم کرتے ہیں اور ریاست کی فراخدلی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قومی دھارے میں واپس آنا چاہتے ہیں انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.