کْچھ رشتے سانجھے ہوتے ہیں ، جیسے ماں کا رشتہ ہے ، میں جب کسی کی ماں کے انتقال کا سْنتا ہوں ، خصوصاً جب کسی دوست کی ماں کے انتقال کی خبر مجھ تک پہنچتی ہے یوں محسوس ہوتا ہے میری اپنی ماں مر گئی ہے ، یہ دْکھ بہت بڑا ہوتا ہے ، یہ زخم بہت گہرا ہوتا ہے ، یہ زخم عمر بھر نہیں بھرتا ، دْنیا میں کوئی مرہم ایسا ابھی تک ایجاد نہیں ہوا جو اْس زخم کو بھر دے ، مائیں سب کی بڑی عظیم ہوتی ہیں ، میرے نزدیک ماں کے ساتھ لفظ’’عظیم‘‘ اضافی ہے ، ماں ہوتی ہی عظیم ہے ، مگر کچھ مائیں عظمتوں کے پہاڑ ہوتی ہیں ، خصوصاً وہ مائیں جن کے شوہر دْنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں اور وہ بیوگی کی اذیت میں مْبتلا ہونے کے باوجود اپنے بچوں کی پرورش و تربیت اس انداز میں کرتی ہیں جو اس ظالم و بے حس معاشرے میں ممکن ہی نہیں ہوتا ، گزشتہ ہفتے ایسی ہی ایک عظیم ماں کا انتقال ہوگیا ، مجھے ذرا دیر سے پتہ چلا ، میں ضلع چنیوٹ کی تحصیل بھوانہ میں اْن کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہو سکا ، مگر اطلاع ملتے ہی میں اْسی رات چنیوٹ کے لئے نکلا ، میں نے اپنے محترم بھائیوں سیف انور جپہ اور اسد طاہر جپہ کو میسج کر دیا’’میں آرہا ہوں‘‘ ، برادرم اسد طاہر جپہ فرمانے لگے’’سردی ، سموگ اور فوگ بہت ہے آپ سفر مت کریں‘‘ ، میرے لئے اْن کی یہ بات ماننا ممکن نہیں تھا ، یہ درست ہے جس تن لاگے اْس تن جانے ، مگر احساس کے کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جنہیں کوئی زخم لگتا ہے اْس کی تکلیف آپ کو بھی اْتنی ہوتی ہے جتنی اْنہیں ہوتی ہے ، سو جب تک آپ اْنہیں اپنے سینے سے لگا کر اْن کے دْکھ میں شریک نہیں ہو جاتے آپ کی اذیت بڑھتی جاتی ہے ، بے شمار اندھیرے رستوں سے گزرتے ہوئے تقریباًنصف شب میں جب اپنے محترم بھائیوں سیف انور جپہ ، اسد طاہر جپہ اور ظہیر انور جپہ کی حویلی پہنچا ، مجھے بڑی حیرت ہوئی رات کے اس پہر بھی بیسیوں لوگ تعزیت کے لئے اْن کے پاس بیٹھے تھے ، ہمارے دیہاتوں میں عموماًلوگ جلدی سو جاتے ہیں ، جن دْشوار اندھیرے رستوں سے گْزر کرہم بھوانہ پہنچے ہر جگہ ہْو کا عالم تھا ، میرے ساتھ فیصل آباد سے میرے محترم بھائی اے ڈی ملک بھی تھے ، اْنہوں نے بتایا ان راستوں اور علاقوں میں ڈکیتیاں بہت زیادہ ہوتی ہیں ، سو جب تک ہم سوگوار خاندان کے پاس پہنچ نہیں گئے ہمارے سانس خْشک رہے ، اظہار تعزیت کے لئے آنے والوں کی خدمت میں چائے و کھانا پیش کیا جا رہا تھا ، ہمارے سامنے بھی کھانا لا کر رکھ دیا گیا ، یہ کھانے کا وقت نہیں تھا نہ موقع تھا ، ہم نے معذرت کی مگر جب جناب اسد طاہر جپہ نے یہ فرمایا’’دو نوالے کھا لیں مرحومہ اماں جی کی روح خوش ہو گی‘‘ تو دو کے بجائے کئی نوالے اس لئے بھی ہم نے کھا لئے کھانا بہت ہی لذیذ تھا ، یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے مرحومہ اماں جی نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے ، مرحومہ کے عظیم صاحبزادوں نے بتایا شدید بیماری کی حالت میں بھی ماں جی گھر میں آنے والے ہر مہمان کی خدمت میں کوئی کسر اْٹھا نہیں رکھتی تھیں ، کھانے کے بعد چائے آگئی جو کھانے سے بھی زیادہ مزیدار تھی ، دیہاتوں میں دستیاب خالص دودھ سے بنی چائے کا اپنا ایک لْطف ہوتا ہے ، اس دوران میں نے اپنے محترم بھائیوں سیف انور جپہ اور اسد طاہر جپہ سے کہا ’’ماں جی کی عظمتوں کے کچھ واقعات سْنائیں‘‘ ، ایک عظیم ماں کی یادوں کا پھر ایسا سلسلہ شروع ہوا مجھے واپس لاہور کے لئے نہ نکلنا ہوتا یہ سلسلہ شاید کئی روز تک جاری رہتا ، میرا جی چاہ رہا تھا یہ شب کبھی ختم نہ ہو ، وہ شب کبھی ختم بھی نہیں ہوتی جو ماں کی وفات کے بعد شروع ہوتی ہے ، ایک ایسی عظیم ماں کی یادوں میںہم کھوئے ہوئے تھے اپنے شوہر کی وفات کے بعد اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو جس نے یہ احساس تک نہیں ہونے دیا وہ یتیم ہوگئے ہیں ،اْنہوں نے دہرا رشتہ نبھایا ، باپ کا رشتہ زیادہ نبھایا ، اْن کے شوہر چودھری انور علی جپہ بھی بہت عظیم انسان تھے ، وہ درس و تدریس سے وابستہ تھے ، میری جب سیف انور جپہ اور اسد طاہر جپہ سے شناسائی نہیں تھی تب بھی ضلع چنیوٹ تحصیل بھوانہ کے لوگوں سے اْن کی عظمتوں کے کئی واقعات میں نے سْنے تھے ، اپنے گاؤں کے محروم و مستحق لوگوں کی جس طرح وہ تربیت و مدد فرماتے تھے لوگ آج تک نہیں بھولے ، اْن کی وفات کے بعد یہ ’’کارخیر‘‘ اْن سے بھی زیادہ جوش و جذبے سے اْن کی بیگم صاحبہ نے سنبھال لیا تھا ، ایک طرف اْنہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں رکھی دوسری طرف اپنے عزیزوں رشتہ داروں اور گاؤں کے بیشمار لوگوں کی خدمت بھی اْنہوں نے جاری رکھی ، اصل میں وہ اپنے مرحوم شوہر کا مشن نبھا رہی تھیں ، جو آخری دم تک وہ نبھاتی رہیں ، ہمارے معاشرے میں ’’بیوگی‘‘ باقاعدہ ایک روگ بن جاتی ہے ، اس کے بعد ہماری اکثر خواتین ایسی محرومیوں کا شکار ہو جاتی ہیں جو عمر بھر اْن سے چمٹی رہتی ہیں ، اللہ کا یہ خاص کرم تھا سیف انور جپہ ، اسد طاہر جپہ اور ظہیر انور جپہ کی والدہ ان محرومیوں کا شکار نہیں ہوئیں ، اْنہوں نے زندگی بہت حوصلے و ہمت سے گزاری ، اْن کے مرحوم شوہر کی خواہش تھی اْن کے سارے بیٹے گورنمنٹ کالج لاہور سے پڑھیں ، ایک عظیم ماں نے اپنے مرحوم شوہر کی یہ خواہش پوری کر دی ، اْن کے مرحوم شوہر کی دوسری خواہش تھی اْن کے بیٹے سول سروس جائن کریں ، ایک ہمت والی ماں کی عظیم جدوجہد کے نتیجے میں اس وقت چھ بیٹے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں ، سیف انور جپہ آج کل راولپنڈی ڈویلپمینٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل ہیں ، اْس سے قبل وہ ڈپٹی کمشنر گجرات و راولپنڈی بھی رہے ، اسد طاہر جپہ کمشنر انکم ٹیکس ہیں اورمزید اعلیٰ تعلیم برطانیہ سے حاصل کر رہے ہیں ، ظہیر انور جپہ ڈپٹی کمشنر بہاولپور ہیں ، بہاولپور کی کئی خوبصورتیوں میں مزید اضافے میں اْن کا کردار بہت اہم ہے ، اس کردار کی وجہ سے سب اْن کے گرویدہ ہیں ، جس روز اْن کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا اْس روز نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کا دورہ بہاولپور تھا ، اْنہیں جب یہ پتہ چلا ڈپٹی کمشنر بہاولپور کی والدہ کا انتقال ہوگیا ہے اْنہوں نے فوری طور پر اپنا دورہ ملتوی کر دیا ، محسن نقوی عظیم اخلاقی روایات کے حامل ایک نفیس انسان ہیں ، کوئی اور وزیراعلیٰ ہوتا وہ یہ حکم جاری کرتا’’ڈپٹی کمشنر اپنی والدہ کے جنازے میں میرے دورے کے بعد شریک ہوں‘‘ ، مرحومہ کے ایک صاحبزادے محمد ظفر حیدر جپہ ایف بی آر میں سیکریٹری کوآرڈی نیشن ہیں ، ایک صاحبزادے محمد شکیل احمد جپہ جی ایم این ایچ اے ہیں ، محمد نوید انور جپہ پاک فوج میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے جبکہ ساتویں صاحبزادے محمد سلیم انور جپہ فرانس میں خوشحال زندگی گزار رہے ہیں ، آخر میں ، میں بس اتنا عرض کروں گا ایک عظیم ماں کی دْنیا سے رخصتی پر جہاں میں اْداس ہوں وہاں خوش بھی ہوں ایسے افسر بیٹوں کو اْس نے جنم دیا جن کے دامن پر کرپشن یا نااہلی کا کوئی داغ نہیں ، اسی طرح کی ایک اور خوبی اْن کی یہ ہے وہ جن عہدے پر بھی رہیں جس مقام جس جگہ پر بھی رہیں خلق خْدا کی خدمت جاری رکھتے ہیں ، اپنے عزیزوں دوستوں کے کام آتے ہیں ، یعنی بے شمار افسروں کی طرح وہ ’’بے فیض‘‘ نہیں ہیں ، اور سب سے بڑھ کر یہ اپنے والد اور بزرگوں کی عظیم روایات کو کسی صورت میں بھی اْنہوں نے فراموش نہیں کیا ، کتنے برکت والے کتنی رحمت والے ، اللہ کے کتنے کرم یافتہ یہ لوگ ہیں کہ کسی زمانے میں اْن کا گاؤں جرائم کی وجہ سے بدنام تھا ، آج اس وجہ سے مشہور ہے کہ یہاں کے لوگ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر کے بڑے بڑے افسر بنتے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.