پاکستان اور امریکہ کے درمیان جب اعلیٰ ترین سطح پر سرکاری دورہ یا مذاکرات ہوتے ہیں تو اس کی تفصیلات سامنے نہیں آتی لہٰذا عالمی میڈیا اپنے اپنے انداز میں اس پر تبصرے جاری رکھتا ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے جب عہدہ سنبھالنے کے ایک سال بعد امریکہ کا پہلا سرکاری دورہ کیا اور وہاں سیکرٹری خارجہ سیکرٹری دفاع اور کمانڈر سنٹرل کمانڈ جنرل مائیکل ایرک سے ملاقاتیں کی تو اس پر ہر طرف سے تبصرے جاری ہیں۔
یہ دورہ ایسے وقت ہوا ہے جب پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے یاد رہے کہ 2021ء میں پاکستان میں 288 دہشت گرد حملے ہوئے 2022ء میں یہ تعداد 425 ہو گئی جبکہ 2023ء بدترین سال تھا جب 835 حملے ہوئے جن میں سیکڑوں شہری اور فوجی شہید ہوئے۔
یہ دورہ خاصی تاخیر سے ہوا ہے اگر پہلے ہو جاتا تو شاید TTP کو مزید حملوں سے روکا جا سکتا تھا امریکی میڈیا نے اس موقع پر امریکی حکام سے چبھتے ہوئے سوالات کیے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ پاکستان نے یو کرائن کو 155 ملی میٹر سائز کے بھاری گولے مہیا کرنیکا خفیہ معاہدہ کیا ہے امریکی حکام نے اس کی تردید کی یہ خبر بی بی سی نے بریک کی تھی دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا امریکہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے TTP حملوں کے بعد دہشت گردوں کے خلاف ڈرون حملوں کے آغاز کا فیصلہ کر چکا ہے تو اس کا جواب بھی نہیں دیا گیا۔ امریکی وائٹ ہاؤس ترجمان نے اتنا کہا کہ پاکستان کے انتخابات میں ہماری کوئی فیورٹ پارٹی نہیں ہے جو بھی جیتے گا امریکہ اس کے ساتھ کام کرے گا۔
یہ بات ایک حقیقت ہے کہ امریکہ نے بوجوہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی گزشتہ کشیدگی کے خاتمے کا عندیہ دیا ہے اور یہ دورہ رفو گری کی ایک کوشش ہے۔ پاکستان میں ترقیاتی اور سرمایہ کاری منصوبے سکیورٹی صورتحال سے مشروط ہیں۔ سعودی عرب کی طرف سے ریکوڈک منصوبے میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں سب سے بڑی رکاوٹ سکیورٹی کی گارنٹی ہے۔ لہٰذا پاکستان نے تہیہ کر لیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ معاملات کلیئر کیے بغیر TTP سے ڈیل نہیں کیا جا سکتا۔
آپ نے دیکھا ہو گا کہ آرمی چیف کے امریکہ میں لینڈ کرنے کے فوراً بعد اسلام آباد میں افغان ناظم الامور نے جے یو آئی ایف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور انہیں اپنی حکومت کا پیغام پہنچایا ۔ اس کے ساتھ ہی کابل میں افغان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے مولانا فضل الرحمان سے درخواست کی ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے معاملے پر اپنا کردار ادا کریں۔ اصل میں گزشتہ ایک سال سے TTP اور پاکستان کے درمیان سیز فائر معاہدہ ختم ہو چکا ہے۔ افغان طالبا ن نے ایک سال پہلے فریقین کے درمیان مصالحت کو جو ناکام کوشش کی تھی اس سے معاملات زیادہ خراب ہوئے۔ TTP کے 6 گروپ پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں جو افغانستان میں مقیم ہیں لیکن افغان طالبان کہتے ہیں کہ یہ حملے پاکستان کے اندر سے ہو رہے ہیں جن میں افغان سرزمین استعمال نہیں ہو رہی مگر پاکستان کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ ان حملوں میں افغان شہری ملوث ہوتے ہیں اور امریکی اسلحہ جو انخلا کے وقت امریکی چھوڑ گئے تھے وہ استعمال ہو رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آرمی چیف کے اس دورے کے بعد ان حملوں میں کمی آتی ہے یا نہیں۔ اور اگر اس میں کمی نہیں آتی تو کیا امریکا TTP کے خلاف پاکستان کو جدید جاسوسی آلات اور ڈرون مہیا کرے گا یا نہیں۔ یا سفارتی طور پر امریکا افغان طالبان کو معاہدہ قطر کی پابندی پر مجبور کرے گا۔
یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ آرمی چیف نے دورۂ امریکہ میں پاکستان کمیونٹی کے چیدہ چیدہ سرمایہ کاروں طور پیشہ ورانہ ماہرین سے خطاب کیا۔ جن کا تعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تھا یہ کوئی 70 کے قریب تھے ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو چیف سے ملنے اپنے پرائیویٹ ہوائی جہازوں میں آئے تھے جس سے آپ ان کی سرمایہ کارانہ حیثیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس خبر کو آپ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے ساتھ ملا کر پڑھیں جس میں کہا گیا ہے کہ 2024ء میں بیرون ملک پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقومات میں کمی کا امکان ہے۔
یہ دورہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب عالمی سطح پر سی پیک کے بارے میں ایک عمومی تاثر یہ ابھر رہا ہے کہ یہ منصوبہ اتنا کامیاب نہیں ہو گا بہت سے ممالک اس میں عدم دلچسپی کا شکار ہیں اور پاکستان اور چائنا کے درمیان بھی اس میں چائنا کو چند تحفظات ہیں اس کی رفتار بھی برقرار نہیں رہی جس میں سکیورٹی خدشات بڑی وجہ ہے۔
شاید پاکستان میں کسی سطح پر یہ سوچا جا رہا ہے کہ ہمیں سفارتی طور پر کسی ایک بلاک کا حصہ بنے رہنے کے بجائے سب کے ساتھ برابری کی بنا پر تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی اثنا میں پاکستان میں انڈیا کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی باتیں ہو رہی ہیں امریکہ کو پتا ہے کہ پاکستان انڈیا کشیدگی کم کر کے پاکستان میں چائنا کا اثر و رسوخ کم کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی نئی اسٹیبلشمنٹ جنرل عاصم منیر کی قیادت میں بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ یعنی امریکا کے ساتھ ہم رکاب ہونا چاہتی ہے پاکستان کا وسیع تر مفاد اسی میں ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے بھی ہم آہنگ رہیں۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ بیک چینل اور آف دی کیمرہ مذاکرات میں پاکستان کے آئندہ انتخابات پر بات نہ ہوئی ہو۔ جتنی مرضی تردید ہوتی رہے عسکری قیادت اور امریکی قیادت میں پاکستان کی سیاست اور مستقبل کی حکومت کی تشکیل کا موضوع بات چیت سے خارج نہیں ہوا۔ اس سلسلے میں تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے۔ ماہرین فلکیات سیاست کے خیال میں ایسے ستارے نمودار ہو رہے ہیں کہ اگلی حکومت ن لیگ کی ہو گی اور نواز شریف اپنی مدت پوری کرنے کی پوری کوشش کریں گے اور ان کی مدت کے خاتمے تک فوجی قیادت میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ یہ محض اندازوں کا کھیل ہے کیونکہ جب حالات تبدیل ہونے لگتے ہیں تو پھر تبدیلی کی رفتار بہت تیز ہو تی ہے۔ اس طرح کی بے یقینیاں ن لیگ کے دور میں زیادہ ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ہر دفعہ نواز شریف کو رائے ونڈ کے حسین اور دلفریب باغوں اور چشموں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ان محلات سے نکل کر وطن بدر ہونا پڑتا ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.