انسانی ضمیر اور عدالتی فیصلے

96

جب قانون بنانے، قانون کی تشریح کرنے اورقانون پرعمل درآمد کرانے والی طاقت یا زبان ایک ہی ہوتو سمجھ لیں کہ اُس ریاست میں جبر کا راج ہے ۔اُسے بدترین آمریت بھی کہتے ہیں اوریہ کسی بھی طرز حکومت میں ممکن ہے۔تاریخ کا طالبعلم ہونے کے ناتے میں ایک بات آج تک نہیں سمجھ پایا کہ انسانی تاریخ کے بڑے عدالتی فیصلوں کو انسانی ضمیر نے قبول کرنے سے انکار کیوں کیا ہے؟ نہ سمجھنے کی خود احتسابی کا ذکر صرف اس لیے کر رہا ہوں کہ کسی’’ معززعدالت ‘‘ کی توہین کے زمرے میں نہ آ جائوں۔ مجھے اپنا عدالتی قتل بھی قبول ہے کہ عدالت کومعزز ہی رہنا چاہیے کہ انسان نے اپنے ارتقائی سفرمیں ہی اداروں کو بدسے بہتر یا پھر بہتر سے بہترین بنانا ہے۔ تاریخ کا سفر صرف بہترین معاشی نظام یا بہتر طرز حکومت تلا ش کرنا ہی نہیں ہوتا جیساکہ (End of the History And the Last Man) میں دعویٰ کیا گیا ہے۔انسان کا ذہنی اورروحانی معیار زندگی بلند کرنا بھی اسی سفرکے مختلف مقامات ہیں۔یہاں روحانی سے مراد وہ اعلیٰ ترین اخلاقیات ہیں جوایک انسان کو صرف انسان ہونے کے ناتے دوسرے انسانوں کی مدد کرنے پر مجبور کرے ۔ایک ایسی دنیا کا قیام جہاں سب کو اپنے خیالات اورآزاد روزگار کے مطابق زندہ رہنے کا حق صرف تحریری نہ ہو بلکہ اُس کی عملی شکل دنیا کے ہر معاشرے میں انفرادی طور پر بھی نظر آئے ـ۔جب قانون نہیں تھا انسان اُس وقت بھی تھا اورجب کچھ قوانین وجود میں آ گئے تو انسان اُس وقت بھی زندگی کی دوڑ میں شامل تھا اورآج جب انسان پیچھے اورقانون آگئے نکل گیا ہے تو انسان اپنی ’’اعلیٰ ترین ‘‘ شکل میں آج بھی موجود ہے۔قانون بدلتے رہے لیکن کسی عہد کا قانون بھی سو فیصد انسانوں کو اپنی مرضی اورمنشا ء کے مطابق نہیں ڈھال سکا یااُس قانون کا پابند نہیں کرسکا۔قبل از ریاست بھی ایسا ہی تھا اوربعد از ریاست بھی ایسا ہی ہوا البتہ ریاستی جبر اورسزا کے خوف سے انسانوں کی بڑی اکثریت نے اُن احکامات کو بھی تسلیم کرلیا جو سو فیصد غیر انسانی قوانین تھے لیکن تاریخ کے وہ عظیم لوگ بھی آج ہمارے سامنے ہیں جن کو قوانین کی بھینٹ چڑھا دیا گیا لیکن ایسا کرنے والے خود تاریخ کے گٹر میں جا گرے اور سزا یافتہ مقتول روشن ضمیر انسانوں کے ضمیرکا سب سے روشن حصہ قرار پائے جس سے آج زمین کے ہر خطے پر روشنی کے ہزارو ں مینار نوراپنی مکمل تابناکیوں سمیت نظر آرہے ہیں۔
مزدک کی کھال ایک ایسے حکمران نے اتروا دی جس کا حکم ہی مقننہ ٗ عدلیہ اور انتظامیہ تھا لیکن آج وہ ایرانی شہنشاہ اپنے جاہ و جلال سمیت کسی گمنام مقبرے میں پڑا ہے لیکن مزدک تاریخ کے روشن دان سے آج بھی مسکراتاہوا جھانک رہا ہے۔بوڑھے سقراط پر الزام تھا کہ وہ نوجوان نسل کو بگاڑتا ہے جس پر ایک عدالتی فیصلے میں اُسے زہر کا پیالا پینا پڑ گیا لیکن قدرت سقراط کی سچائی کے ساتھ کھڑی تھی ٗ وہ زہر پی کر بھی نہ مر سکا اور ایسا حکم دینے والوں بارے لکھا جا سکتا ہے کہ وہ کبھی پیداہی نہیں ہوئے تھے، انہیں نسل انسانی نے اپنی نسل سے ہی نکال باہرکیا ہے ۔ جناب مسیح علیہ سلام بھی ایک عدالتی فیصلے کے بعد مصلوب ہوئے لیکن کیا وہ نظام عدل بچ سکا جس نے یہ جسارت کی؟ اللہ رب العز ت نے جناب مسیحؑ کو زمانو ں کے درمیان کھڑا کردیا اورآج تاریخ کا طالبعلم قبل از مسیح اور بعد از مسیح سے باہر نہیں نکل پارہالیکن وہ عدالت نیست و نابود ہوگئی جس نے ایک عظیم پیغمبر کی شان میں میں ایسی گستاخی کی ۔جناب ِحسین ؓ کو آل محمد سمیت گھیر کرکربلا میں لایا گیا اور فتوئوںمیں انہیں باغی قرار دیا گیا ٗجن کے نانا ؐپر سارا قانونِ اسلام نازل ہوا اورجن کی پرورش آغوش مصطفی ؐ میں ہوئی کیا اُس زمانے کے ریاستی ملاں قانون محمد ؐکو اُنؓ سے زیادہ سمجھتے تھے؟ لیکن یہ تاریخی سچ ہے کہ سانحہ کربلا عرب دشمنی کے علاوہ عدلیہ اورانتظامیہ کی سازش کا نتیجہ تھا۔
ہمارے عہد میں ذوالفقار علی بھٹو کو علی الاعلا ن ایک عدالتی فیصلے میں قتل کردیا گیا اور مزیدظلم یہ ہوا کہ اسے عدالتی قتل تسلیم بھی کیا گیا لیکن کسی قاتل کو سزا نہیں دی گئی ۔پس یہ تو ثابت ہوابدنیتی پر مبنی عدالتی فیصلوں اورپھانسیوں سے لوگ زندہ ہوجاتے ہیں مرتے نہیں البتہ ایسا گھنائونا جرم کرنے والے نفرت کا نشان ضروربن جاتے ہیں عدالت معزز ہی رہتی ہے لیکن ایسے فیصلے کرنے والے غیرمعززہوکر آنے والی نسلوں کیلئے قابل تقلید نہیں رہتے ۔ضیاء الحق یا اُس کی آل اولاد نے تو بھٹو کو کیا قتل کرنا تھا یہ کام تو ساری پیپلز پارٹی مل کر بھی نہیں کرسکی ۔ شاید یہی وہ حیات ہے جسے حیات جاوداں کہا گیا ہے ۔بھٹو قبر میں جا کر بھی زندہ رہا اور ضیا ء الحق زمین پر چلتاپھرتا مردہ ہوگیا ۔بھٹو نے ٹھیک کہا تھا کہ ’’ یہ قتل کا مقدمہ نہیں مقدمے کا قتل ہے ‘‘تاریخ نے اُس درویش کی بات کو کتنا سچ کردکھایا ۔موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان عزت مآب قاضی فائز عیسی نے بھٹو کا مقدمہ کھلوا لیا ہے ۔ میری جناب ِ چیف جسٹس سے صرف ایک درخواست ہے کہ اگر بھٹو کو بے گناہ لکھنا ہے اور اُس کے قاتلوں کی سزا کا فیصلہ نہیں ہونا تو پھر پاکستانی قوم کومقتول بھٹو ہی عزیز ہے ۔صرف بھٹو کی قبرکے باعزت قرار پانے سے بات ختم نہیں ہو گی ۔پاکستان میں ہونیوالی چار فوجی بغاوتوں کو دوام بخشنے والے ججوں کو آج تاریخ کے آئینہ میں دیکھیں تو اُن کے چہرے بغیر گوشت کے حیرت زدہ آنکھوں کے ساتھ پاکستانی عوام کو قانون اور نصاب کی کتابوں میں لیٹے شرمندگی سے دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام ہی کیا دنیا کے کسی مہذب انسان نے اِن عدالتی فیصلہ کو نہیں سراہا ٗجز وقتی سیاستدان ہر جرنیل کو میسر آ جاتے ہیں لیکن کل وقتی سیاستدان کبھی اقتدار یا طاقت حاصل کرنے کیلئے عوام کے علاوہ کسی اورکی جانب نہیں دیکھتے ۔ابھی تو کل کی بات ہے کہ ایک سزا یافتہ پاکستانی بغیر کسی عدالتی حکم کے 10 سال کا معاہدہ کرکے رات کی تاریکی میں ملک سے فرار ہوگیا تھا لیکن آج تک اُس پر کوئی کمیشن قائم نہیں ہوا البتہ اُس معاہدے کے فریق اول کو غدار ثابت کرنے کیلئے دن رات ایک کیا جاتا رہا ہے لیکن سوال تو یہ ہے جس وقت وہ معاہدہ طے پایا تھا کیا فریق اول غداری کا مرتکب ہو چکا تھا یا نہیں ؟ اوراگر وہ غداری کا مرتکب ہو چکا تھا تو پھر ایک غدار سے معاہدہ کرنے والے کی قانونی حیثیت کیا ہو گی یہ بھی آئین کی آرٹیکل 6 کی ذیلی شقوں میں واضح طورتحریر ہے ۔ وہی شخص دوبار ہ بیماری کا بہانہ بنا کر یا عمران نیازی کی حکومت سے ساز باز کرکے پاکستان سے نکل جاتا ہے تو واپسی پر اُسے جس طرح ضمانتیں دی گئی ہیں ایسے توغریب کے جھونپڑے پر رحمت ِ باری تعالیٰ بھی نہیں ہوتی لیکن سب چل رہا ہے اورچلتا رہے گا کہ الیکشن سر پر کھڑا ہے اور الیکشن کا ہوناانتہائی ضروری ہے ۔ایمپائر کبھی نیوٹرل نہیں ہوتا خواہ اُس کا تعلق کھیلنے والی دونوں ٹیموں سے نہ ہوالبتہ اُسے نیوٹرل تصورکیا جا سکتا ہے اوراس کو غلطی کہتے ہیں کیوں کہ جج اورایمپائرمیں یہی فرق ہے کہ جج نے شہادتو ں اورثبوتوں پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے جبکہ ایمپائرشہادتی بھی ہوتا ہے اورجج بھی ٗجو انصاف کے منافی ہے کیونکہ چشم دید گواہ جج نہیں ہو سکتا۔ عدالتیں عظیم انسانوں کے خلاف فیصلے دے کر انہیں سولی پر بھی چڑھا دیں تو بھی انسانی ضمیر ایسی عدالتوں کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتا جس سے مقتول کے سماجی رتبے میں کوئی فرق نہیں آتا یہی وجہ ہے کہ انسانی تاریخ عظیم لوگوں کے عدالت قتل عام سے اٹی پڑی ہیں لیکن انسانی ضمیر اصل قاتلوں کو پہچانتا ہے ۔

تبصرے بند ہیں.