زوال ہی اب ہمارا قومی ورثہ ہے؟

62

یہاں کچھ بھی نہیں بدلا، حالات اور نہ تحریریں ہم وہی کچھ لکھتے آرہے ہیں جو گزشتہ کئی سال سے لکھ رہے ہیں صرف عنوان اور تاریخ بدل رہی ہے باقی سب کچھ ویسے کا ویسا ہی ہے ۔ہمارے ہاں پی ایچ ڈی،ایم فل ،ماسٹر اور گریجویشن کرنے کے بعد بھی نوجوان نسل کوئی ڈھنگ کی جاب یا کام نہ ملنے کی شکایت کر رہی اور ذہنی مریض بن رہی ہے تو ہمیں اپنے تعلیمی نظام اور اداروں کی کارکردگی پر فاتحہ پڑھ لینی چاہیے۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے جس عوام کے لئے آزادی جیسی نعمت ہزاروں جانوں ، مال ومتاع اور دنیا کی سب سے بڑی حجرت کے نتیجے میں حاصل کی وہ عوام آج سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی اپنے بنیادی حقوق کے لئے خوار ہو رہے ہیں۔ ایک الگ مملکت کی ضرورت کا بنیادی مقصد ایک ایسا خطہ حاصل کرنا تھا جہاں خوشحالی امن و سکون کے ساتھ آزاد فضا میں اپنے تمام افعال آزادی کے ساتھ ادا کئے جاسکیں۔ بانی پاکستان کے پیش نظر یہی عوام کے مسائل تھے۔ لیکن بانی پاکستان کی زندگی میں اور ان کی رحلت کے فوری بعد ایسے گروہ اس ملک کے اقتدار ، پالیسی سازی کے اداروں اور تعلیم کے شعبے پر قابض ہوگئے جنہوں نے عوام کو ایسے ’’ نظریات کے خوش نما باغ‘‘ دکھائے کہ وہ باغ اگ سکے اور نہ ہریالی نظر آئی مگر ملک ہر لحاظ سے بنجر بنتا گیا اس وقت ہم ذہنی بنجر پن کا ایک اعلیٰ نمونہ بن کر رہ گئے ہیں جہاں عقل اور شعور کے سوتے نہیں پھوٹتے بلکہ ذہنی وصوتی آلودگی کے نظارے اور مظاہرے بہر حال ہر جگہ نظر آتے ہیں ۔ جس ملک کے ساٹھ ٖفیصد عوام کو روزگار کے مسائل ، چالیس فیصد سے زائد کو صحت اور آدھی سے زیادی آبادی کو تعلیم اور آدھی ہی آبادی کو رہائش کے مسائل نے جکڑ رکھا ہو وہاں کسی ’معاشی و اقتصادی نظریے‘ کے احیا کا دور دور تک نشان نظر نہیں آتا جبکہ اس کے بر عکس ان نظریات کا فروغ روز افزوں ہے جو ان سب مسائل کی جڑ ہیں۔ عوام کے مسائل کے دفاع یا حل کے بغیر ’’تبدیلی کے اکٹھ ‘‘ کے اکٹھ گلی گلی محلے محلے، سمجھ سے بالا تر ہیں۔
خوشی جیسی انمول نعمت(جو کئی لوازمات کا مجموعہ ہے) سے ہم محروم کر دیئے گئے ہیں ۔کسی بھی قوم کی سماجی اور اقتصادی ترقی میں ’’خوشی اور اطمینان‘‘ کا بہت اہم کردار ہے۔ اور یہ خوشی اور اطمینان ویژنری قیادت میں قائم حکومتیں عوام کو مہیا کر سکتی ہیں جو منصوبہ بندی کرتے ہوئے عوام کی خوشی کو خصوصی اہمیت دیتی ہیںفنون لطیفہ کے اداروں کا جال بچھایا جاتا ہے ، جدید تعلیم کا فروغ اور بہتر ہیلتھ کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں اس کے برعکس یہاں تعلیم ہیلتھ اور فنون لطیفہ کا کیا حال ہے یہ بات کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ بے بسی اور مایوسی کا عالم دیکھیے کہ ہماری قوم خوشی اور تبدیلی بھی چاہتے ہیں تو کیسی ؟’’ بس اتنا ہی چاہتے ہیں کہ پانی کے کولر اور مٹکے کے ساتھ رکھا گلاس زنجیروں میں جکڑا نہ ہو، سجدہ کرتے ہوئے اس کا دھیان جوتوں کی چوری کی طرف نہ ہو، دو وقت کی روٹی کی خاطر کسی کو اپنی عصمت نہ بیچنا پڑے، کسی معصوم کے کاندھے پہ بوٹ پالش کا باکس نہ ہو، کوئی بڑا انقلاب، کوئی بڑی تبدیلی نہیں چاہتے‘‘۔
سات دہائیوں بعد بھی صورتحال یہ ہے کہ عوام بجلی ،گیس پینے کے صاف پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، اپنی چھت کا تو خواب بھی نہیں دیکھ سکتے، انسانی جان و مال عدم تحفظ کا شکار ہیں، روزگار کے دروازے بند ہیں، مہنگائی کے باعث خودکشیوں اور جرائم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جبکہ معاشی دہشت گردی ایک اضافی بوجھ بن کر ملک اور معاشرے پر مسلط ہے جس کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں عوام ہی ہار رہے ہیں۔ مگر قومی سطح پر ابھی تک ہم معاشی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بھی کوئی متفقہ لائحہ عمل نا بناسکے یوں لگتا ہے جیسے یہ جنگ صرف غریب عوام کی ہے اور اس نے ہی لڑنی ہے اور وہی اس کا لقمہ بن رہے ہیں۔
آزادی کے بعد گذشتہ سات دہائیوں سے سیاسی حکمران ملک سے غربت کا خاتمہ کرنے کے لیے سیکڑوں سکیمیں، پروگرام اور منصوبے لا چکے ہیں۔ صورتحال میں کچھ تبدیلی ضرور آئی لیکن غربت کی جو مجموعی صورتحال تھی وہ کم و بیش آج بھی پہلے کی طرح اپنی جگہ موجود ہے گذشتہ سات دہائیوںمیں تمام سکیموں، حکومتی پالیسیوں اور پروگراموں کے باوجود ملک کے 70 فی صد عوام غریب ہی رہے۔ اسی مدت میں، انڈونیشیا، ملیشیا، چین، کوریا اور تھائی لینڈ بلکہ بنگلہ دیش جیسے ایشیائی ملکوں نے غربت کے خاتمے میں زبردست کامیابی حاصل کی اور اب ان ممالک کا دنیا کے کامیاب ملکوں میں شمار ہو رہا ہے۔ آزادی کے بعد سیاست پر شہروں کے امیر طبقے اور گاؤں کے زمیندار، جاگیر داروں، وڈیروں اور پیروں کی مکمل اجارہ داری قائم ہو گئی۔ سیاست اس طبقے کے ذاتی مفاد کی تکمیل کاذریعہ بن گئی۔
پاکستان میں ایک نیا سیاسی حکومتی طبقہ بادشاہوں اور انگریزوں کے سامراجی دور سے بھی زیادہ طاقتور اور دولتمند بن گیا۔ ریاستی اور قومی سطح کے کئی سیاسی رہنما اتنے طاقتور اور دولتمند ہو چکے ہیں کہ ماضی میں بڑے بڑے شہنشاہوں کے پاس اتنی طاقت اور دولت نہیں ہوا کرتی تھی۔ نئی نسل کے ان نئے سیاسی بادشاہوں نے جمہوری نظام کا سب سے زیادہ استحصال کیا۔ملک کا سیاسی نظام اب ایک مختلف ڈگر پر ہے۔ ملک کی بے چین اکثریت ایک طویل عرصے سے موثر جوابدہ فیصلہ کن طرز کے نظام کی خواہاں ہے جس کی امید انہیں کہیں نظر نہیں آتی۔ پی ٹی آئی ہو ہو یا کسی بھی پارٹی کی جمہوری حکومت، ایسا کوئی غیر معمولی کام نہیں کیا گیا جس سے عوامی مسائل کے خاتمہ یا انسانی وسائل میں کوئی ترقی ہوتی ہوئی نظرآئی ہو۔
جمہوری حکمرانوں، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے راہنمائوں کو مستقبل کا پاکستان کیسا ہونا چاہئے کے بارے چنداں فکر نہیں۔ حالانکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام کی تمناؤں اور خوابوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ لیکن کسی کو بھی نہیں معلوم کہ وہ مستقبل کے چیلنجز کا کامیابی کے ساتھ سامنا کر نے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں،بدلتی ہوئی دنیا کے جدید تقاضوں کا انہیں فہم و ادراک ہے یا نہیں ۔
مہنگائی بے روزگاری ، صحت عامہ کی بدترین صورت حال تعلیم کی جگہ پر جہالت گھر گھر قیامت برپا کر رہی ہے، جمہوری حکومتیں عوام کو ریلیف دینے کے طریقے ڈھونڈتی ہیں مگر یہ جمہوری حکمران عوام سے ریلیف بھی چھین رہے ہیں۔ مہنگائی کا یہ عفریت غریبوں کا خون خشک کر رہا ہے، مہنگائی کا گراف بہت ہی بلند ہے، خورونوش کی اشیا قوت خرید سے باہر ہوچکی ہیں غریب آدمی کی پریشانیاں انتہا کو پہنچ چکی ہیں، لوگوں کو ابھی دو وقت کا کھانا نصیب نہیں ہو رہا، عوام کی محرومیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ لاکھوں خاندان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔(غربت کی لکیر سے نیچے ہونے کا مطلب حکومتی اشرافیہ میں سے کسی کو معلوم نہیں) مہنگائی کے باعث ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد بچے محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ملک میں لاکھوں محنت کش بے روزگار ہیں ملک کا 45 فیصد پڑھا لکھا طبقہ بے روزگار ہے، اگر مہنگائی کو قابو نہیں کیا جاسکتا تو پھر تنخواہیں اس قدر بڑھائی جائیں تاکہ غریب عوام زندہ رہ سکے۔المیہ دیکھے سات دہائیوں کے بعد بھی ہماری بے حسی میں کوئی فرق نہیں آیا اور ہم آج بھی سوچ کے اس گنبد پر کھڑے ہیں جہاں ماضی میں تھے ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ کیا ہم نے ملک حاصل کرنے کا مقصد پالیا ہے؟آج جس مقام پر ہم ہیں ہم نے یہی راستہ چنا تھا ہمیں یہاں پہنچنا ہی تھا۔ہماری سوچ، ہماری ثقافت، ہماری تہذیب، ہماری تعلیم، یہاں تک کہ پورا نظام گزشتہ ساٹھ ستر سال سے مسلسل زوال پذیر ہے۔ یہ زوال ہی اب ہمارا!قومی ورثہ ہے جس پر ہمیں فخر بھی ہے۔

تبصرے بند ہیں.