”ہٹلر کی خودکشی، نامور لوگوں کی اموات اور دماغی لکیر“

49

تاریخ انسانی میں یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تاریخ دان کہتے ہیں ذہنی دباؤ، جنگی جرائم اور اِک ناکام مہم جوئی اور اس کے نتیجے میں اِک قوم کو تباہ کر ڈالا اور دنیا بھر کو طویل بربادی سے بھرپور جنگ کی طرف دھکیل دینے والا اڈولف ہٹلر بھی روپوش ہو گیا اور تاریخ دان بضد ہیں کہ خود کو شرمندگی سے بچانے کے لیے ہٹلر نے خودکشی کی تھی…… وہ شخص جو ذرا سی غلطی کرنے پر اپنے جرنیلوں سے کہتا تھا کہ بہتر ہے تم خودکشی کر لو ورنہ تمہیں تمہارے خاندان سمیت موت کے منہ میں ڈال دیا جائے گا…… اسے کہتے ہیں مکافات عمل…… ایسے جابر لوگ اکثر اپنا انجام بھول جاتے ہیں اور ناکام انسان کے طور پر تاریخ میں یاد رہ جاتے ہیں …… 2014ء میں دنیا کے نامور ترین اداکار روبن ویلیم نے بھی خودکشی کی جو کہ ”جمان جی“ جیسی شہرہ آفاق فلم اور دوسری اہم ترین فلموں میں ہیرو کچھ میں روبن ویلیم نے ولن کا کردار ادا کیا اور پھر امریکہ میں اس نے خود کو پھندا ڈال کر لٹکا لیا۔
مارلن مٹرو جیسی دنیا بھر میں مشہور اداکارہ نے بھی 15 اگست 1962ء میں اس وقت زیادہ مقدار میں نشہ آور ادویات کھا کر خودکشی کر ڈالی جب ان کی عمر صرف 36 سال تھی اور کیلیفورنیا کے لاکھوں لوگوں کو دکھی کر گئی۔
"Father of computer seiences” کہلانے والا ایلن ٹرنک نے 1954ء میں اس وقت جب وہ سنگین جرائم کے باعث جیل میں سزا کاٹ رہا تھا 41 سال کی عمر میں انگلستان میں خودکشی کر لی تھی۔ پاکستان کا چاکلیٹ ہیرو وحید مراد جس کی قبر فردوس مارکیٹ گلبرگ کے قبرستان میں ہے مرحوم اداکار محمد علی کی رہائش گاہ سے چند قدم کے فاصلے پر ہے جو کم عمری میں ہی ڈپریشن، معاشرتی ناہمواریوں، اِک ناکام خاندانی زندگی اور ساتھیوں کی بے رخی کے باعث شدید ترین بیماری کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہوا لوگ وحید مراد کی موت پر بھی منفی گفتگو کرتے ہیں ……؟!
نامور اردو شاعر شکیب جلالی نے سرگودھا ریلوے اسٹیشن کے پاس ریل گاڑی کے نیچے چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ 32 سال کی عمر میں کر لیا دیگر وجوہات کے علاوہ اس خودکشی کی وجہ شکیب کی والدہ کی خودکشی تھی وہ بھی ٹرین کے نیچے
آکر فوت ہوئیں اس وقت شکیب کی عمر دس سال تھی اور اس نے ماں کی موت کا منظر اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ دیکھاتھا۔ یہ شعر اس کاغذ کے ٹکڑے پر لکھا تھا جو شکیب کی جیب سے ملا تھا:
تو نے کہا نا تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نا ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
…………
آکے پتھر تو میرے صحن میں دو چار گرے
جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پسِ دیوار گرے
…………
مصطفی زیدی بھی ادب کی دنیا میں بہت بڑا نام تھا بہت سے ضرب المثل اشعار زبان زد عام و خاص ہیں۔ مرحوم بہت بڑے سرکاری افسر تھے جنہوں نے خودکشی کر لی تھی۔
انہیں پتھروں پہ چل کے اگر آسکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی گلستان نہیں ہے
مصطفی زیدی چالیس سال کی عمر میں کراچی میں فوت ہوئے، ایک خاتون شہناز گل اس کی مردہ باڈی کے ساتھ پڑی تھی جب وہ فوت ہوئے۔ 12 اکتوبر 1970ء کا واقعہ ہے اس دور میں سول سروس والوں کو اک منفرد گروپ سمجھا جاتا تھا، شاید جذبات سے عاری لوگ یا اپنے کام سے کام رکھنے والے…… ایک تو بلند پایہئ شاعر ہونا، پھر اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہنا…… جب مصطفی زیدی کی خودکشی کی خبر آئی تو اعلیٰ عہدوں کے حوالے سے فائز لوگوں کے بارے میں عوام الناس کے ذہنوں میں بنے کئی بت پاس پاش ہو گئے۔ محبت، جذبات پر قابو نہ ہونا اور خود کو بے بس سمجھا جانا…… یہ تو عام لوگوں کے لیے تھا مگر خاص لوگ بھی ان امراض کا شکار ہو سکتے ہیں۔ لوگ یہ سب جان کر سکتے میں آ گئے…… ”بے بسی“ ہی تو ڈپریشن اور موت سے قریب کا دوسرا نام ہے…… یہ شعر میرے ان جذبات کا عکاس ہے اور جب کبھی مجھے زندگی کے معنی و مطالب سمجھ نہ آرہے ہوں اور محسوس ہو کہ فلاں شخص کوئی بہت بڑی ہستی ہے اور وہ ناکامی کے لفظ سے نا آشنا ہے تو میں یہ شعر گنگناتا ہوں:
جو بہار آئی ہے تو پابند خزاں ہوتی ہے
زندگی موت کے سایے میں جواں ہوتی ہے
جدید ترین دور میں بھی انسانوں کی بہت بڑی تعداد ”پامسٹری“ پر اندھا اعتماد رکھتی ہے خاص طور پر خواتین (شادی شدہ کی تعداد زیادہ ہے؟) معاشرے میں اسی فیصد سے زیادہ لوگ سیدھی سادھی زندگی گزارتے ہیں نہ تو کوئی غیر معمولی حرکت سر زد ہوتی ہے اور نہ ہی ایسے لوگوں سے ناقابل معافی غلطیاں سر زد ہوتی ہیں۔ پھر بھی یہ لوگ بھی جب ان کے سیدھے سادھے ہاتھ کے بارے میں گفتگو کریں اور صاف صاف بتا دیا جائے کہ ایسے ہی زندگی کا نظام چلتا رہے گا…… وہ بار بار پوچھتے ہیں، اصرار کرتے ہیں کہ کچھ اور بتائیں کوئی اور بات…… وغیرہ وغیرہ میں تو ایسے لوگوں کو سید ضمیر جعفریؒ کا وہ شعر سنا کر ان کا ہاتھ بند کر کے خدا حافظ کہہ ڈالتا ہوں:
کیا کہوں احباب کیا کار ہائے نمایاں کر گئے؟
بی اے ہوئے، ایم اے ہوئے پنشن ملی پھر مر گئے!
جبکہ چند لوگ وہ ہوتے ہیں جن کی دماغ کی لائن زندگی سے یا تو مل کر دور تک چلتی ہے یا وہ لوگ جن کی زندگی کی لائن کا آغاز دماغ کی لائن سے کافی فاصلے پر ہوتا ہے۔ بہت زیادہ فاصلے سے آغاز ہونا اک ایشو ہے جبکہ زندگی اور دماغ کی لکیروں کا ساتھ ساتھ چلتے ہوئے آغاز ہونا اک قابل اعتماد، اچھی شخصیت کی علامت Full of confidance ایسے لوگ حوصلہ مندی سے اچھے سمجھداری والے فیصلے کرتے ہوئے اگر دوسری علامات اچھی ہوں، اک کامیاب اور معاشرے میں اعلیٰ مقام بنائے رکھتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں، بہت زیادہ فاصلے والے دماغ کی مرضی کے برعکس ”دل کی حکمرانی کے عقیدے“ پر زندگی بسر کرتے ہیں، بڑے بڑے کام کرنے کے بعد ساتھی یا فیملی ممبر یہاں تک کے شوہر سے بھی مشورہ بعد میں کرتے ہیں، کبھی کبھار تو کام بہت اچھا ہو جاتا ہے لیکن اکثر اوقات، پھر بات بات پر مشورے کرنے پڑ جاتے ہیں اور کئی بار تو شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑ جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ”سر پھرے“ کہہ لیں تو بہتر ہے ایسے لوگ عام طور پر اگر اُن کی دماغ کی لیکر پر جزیرے ہوں تو انہیں ڈاکٹر وں کے پاس جاناآنا پڑتا رہتا ہے…… اگر دماغ کی ایسی لکیر کا انجام یعنی جھک کر ابھرا قمر تک جانا ہو تو معاملہ سنجیدہ شکل بھی اختیار کر جاتا ہے۔ ٹونے ٹوٹکے نہیں، ایسے لوگوں کو کم از کم سائیکاٹرسٹ سے رابطہ ضرور کرنا چاہیے۔

تبصرے بند ہیں.