محسن نقوی کو خراج تحسین

80

وقت نے ثابت کیا ہے کہ جو لوگ کہتے تھے کہ موٹر ویز، ہائی ویز، سڑکیں اور پل بنانے سے معاشرے ترقی نہیں کرتے وہ بالکل ٖغلط تھے۔ انہیں اس قسم کے بیانات پر شرمندہ کرنے کے بجائے اگر آگے بڑھیں تو ہم دیکھیں گے کہ آج، حتیٰ کہ، امریکہ سے آئے ہوئے لوگ بھی ہماری ایم ٹو موٹر وے کے معیار کے معترف ہیں۔
اس کے علاوہ جب لاہور میں میٹرو بس کا آئیڈیا پیش کیا گیا تو بہت سے لوگوں نے محض سیاسی مخالفت کی بنیاد پر اس کی ڈٹ کر مخالفت کی بھر اس پراجیکٹ پر کام شروع ہو نے سے لے کر اس کے آپریشنل ہو جانے کے بعد تک اسے خزانے پر بوجھ، جنگلا بس اور جانے کیا کیا کہتے رہے۔ اسی طرح میٹرو ٹرین منصوبہ پر اعتراض اٹھانے والے آج یقینا یہ دیکھتے ہوں گے کہ یہ منصوبہ فیس آف لاہور نہیں بلکہ فیس آف پاکستان بن چکا ہے۔ جب کوئی اہم سڑک یا میٹرو جیسا منصوبہ شروع ہوتا ہے تو پھر اس کے گرد کاروبار کی ہیت اور معیار بھی آہستہ آہستہ تبدیل ہونے لگتے ہیں۔ میٹرو بس اور میٹرو ٹرین منصوبوں کے ارد گرد ہم نے دیکھا کہ کیسے دوکانوں اور کاروباری مراکز کے معیار تبدیل ہو رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ہائی ویز اور بائی پاس جہاں سے گزر جائے اس کے کنارے اور کچھ پیچھے والی زمین کے نرخوں میں زمین آسمان کا فرق آ جاتا ہے۔ ایسے ہی منصوبوں کے بارے میں قبل از وقت معلومات مل جانے کی وجہ سے سرکاری اہلکار، سیاستدان اور ان کے دوست رشتہ دار منصوبہ شروع ہونے سے قبل ہی ارد گرد کی زمینیں خرید کر کروڑوں کا فائدہ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے میں کس طرح اس وقت کے حکمران ٹولے نے کرپشن کا بازار گرم کیا۔ بہر کیف ایک بات تو طے ہے کہ ہمارے ملک میں کرپشن کرنے والے اپنے لیے کوئی نا کوئی راستہ نکال ہی لیتے ہیں۔ لہٰذا کرپشن کے اس گند پر بات کرنے کے بجائے اگر لاہور کی ترقی اور یہاں مکمل ہونے والے اور زیر تکمیل منصوبوں کے بارے میں بات کی جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد نگران وزیر اعلیٰ کی تقرری کے
موقع پر جو نام تجزیہ کاروں کے اندازے کے مطابق سب سے نیچے تھا قرعہ اسی نام یعنی محسن نقوی کے نام کا نکلا۔ ایک پیشہ ور صحافی ہونے کے ناطے ان سے ابتدائی طور پر یہی امید تھی کہ وہ معاملات کو ایمانداری سے چلائیں گے اور وقت پورا کرنے کے بعد چپ چاپ گھر تشریف لے جائیں گے۔ لیکن انہوں نے تو چارج سنبھالتے ہی ایسی تھرتھلی ڈالی کہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر شہباز سپیڈ کا خطاب پانے والے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف بھی ان کے معترف ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
محسن نقوی صاحب اگرچہ لاہور کی صفائی کے نظام میں بہتری لانے کے لیے تو کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کر سکے لیکن فلائی اووراور انڈر پاس بنانے اور اہم شاہراہوں کو سگنل فری بنانے میں انہوں نے بھر پور کردار ادا کیا ہے۔ یہ انہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج لاہور کی سڑکوں پر سفر کرنے والوں کا ناصرف قیمتی وقت بچتا ہے بلکہ پیڑول کے خرچ میں بھی خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ اس کے علاوہ روزگار کے بیشمار مواقع میسر آنے کے علاوہ یہ منصوبے ماحولیاتی آلودگی کنٹرول کرنے میں بھی بہت مدد گار ثابت ہوں گے۔ لاہور میں جابجا فلائی اوور اور انڈر پاس بنانے اور اہم شاہراہوں کو سگنل فری کرنے کے مذکورہ بالا فوائد کا ذکر تو ہر کوئی کر رہا ہے لیکن ایک بہت اہم فائدہ جو ہوا ہے اس کا ذکر کہیں نہیں دیکھا گیا۔ اس لیے سوچا کہ لاہور شہر پر نگران وزیراعلیٰ کے احسانات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس اہم بات کا ذکر بھی کر دوں۔ محسن نقوی صاحب کے اقدامات کے لاہور کے شہریوں کے کو فوائد پہنچے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ جہاں جہاں بھی سڑکیں سگنل فری ہوئی ہیں وہاں وہاں بھکاری مافیا کا عمل دخل بھی ختم ہو گیا ہے۔ مذکورہ ترقیاتی منصوبے پلان کرتے ہوئے نگران وزیر اعلیٰ کے ذہن میں یہ پوائنٹ تھا یا نہیں لیکن اب انہیں اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ اتنے اچھے اچھے کاموں کے ساتھ اگر وہ لاہوریوں کو بھکاری مافیا سے بھی مکمل طور پر نجات دلا دیں تو ان کے اس کام کو صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔ سردست تو ان بھکاریوں نے ٖصرف اپنا طریقہ کار تبدیل کیا ہے۔ اب وہ شاہراہوں کے بجائے چھوٹی سڑکوں اور چوراہوں کے علاوہ مارکیٹوں اور رہائشی علاقوں میں زیادہ متحرک ہو گئے ہیں۔ لیکن اگر جس طرح کم عمر ڈرائیورز اور بغیر لائسنس ڈرائیورز کے خلاف بھرپور انداز میں سرکاری سطح پر مہم چلائی گئی ہے اگر اسی طرح پیشہ ور بھکاریوں اور بھکاری مافیا کے خلاف کریک ڈاون کیا جائے تو یقینا شہری سکون کا سانس لیں گے۔
اسی طرح ہسپتالوں بالخصوص پی کے ایل آئی میں انتظامی معاملات کو بہتر بنایا جائے۔ صرف مریضوں کے تمام تر معاملات ون ونڈو آپریشن کے تحت حل کرنے سے ہی ہسپتالوں میں بدانتظامی اور بدعنوانی کے بے شمار مسائل کا ازالا ہو سکتا ہے۔ امید ہے کہ محسن نقوی صاحب اور الیکشن کے بعد منتخب ہونے والے وزیراعلیٰ صاحب سڑکوں، شاہراہوں، فلائی اوورز اور انڈر پاسز کے ساتھ ساتھ صحت اور تعلیم کے شعبہ پر بھی خصوصی توجہ دیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ صرف معاملات کا ٹریک درست کرنے سے ہی بہتری نظر آنا شروع ہو جائے گی۔

تبصرے بند ہیں.