بنگلہ دیش کی ترقی پر شادیانے بجانے والوں کو کیا علم کہ جس دن سقوط ڈھاکہ ہوا تھا،اس دن کتنے گھروں میں کھانا نہیں پکا تھا، لوگ دیوانہ وار روتے اوراپنا سر پیٹتے رہے، دنیا کی پانچویں بڑی اسلامی مملکت دولخت ہو گئی کچھ لوگ یہ سوچ کر ہی سکتے میں آگئے، سپاہ کے وہ لوگ جنہوں نے اس محاذ پر جنگ لڑی ہے، ان سے تذکرہ ہو تو انکی آنکھوں سے آنسو آج بھی چھلک پڑتے ہیں۔یہ وہ قومی زخم ہے جو رستا ہی رہے گا، اس لئے بھی کہ ملک توڑنے میں معاونت کا اعتراف ہمارے دشمن نے سر بازار کیا ہے۔
سقوط ڈھاکہ پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، پھر بھی کوئی مورخ ہماری ریاست کے دو موضوعات کشمیر اور مشرقی پاکستان کو نظر انداز نہیں کر سکتا،یہ اس لئے بھی لازم ہے کہ نسل نوکو اس بابت آگاہ رکھا جائے،تاہم اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا اس کے ذمہ دار زیادہ تر سیاسی، معاشی اور انتظامی اسباب ہیں۔
ہر سال 16 دسمبر کو سقوط ڈھاکہ کا زخم تازہ ہو جاتا ہے، بنگلہ دیش کو معاشی ترقی کے تناظر میں دیکھنے والوں کو یہ بھی سوچنا ہے کہ بہار سے آنے والے اور متحدہ پاکستان کے حامی آج بھی کیمپوں میں تیسری نسل کے ساتھ کسمپرسی کی سی زندگی کیوں گزار رہے ہیں، بنگلہ کی عدالت عظمیٰ کے حکم پر انھیں شناخت تو دے دی گئی ہے لیکن ہم پلہ شہری نہیں سمجھا جارہا ہے، اسی طرح جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی قیادت کو جس نے مشرقی پاکستان کا شہری ہونے کے ناتے دفاع وطن کے لئے شر پسندوں کے خلاف فوج کا ساتھ دیا تھا، اس کے کلیدی راہنماؤں کو کرائم ٹریبونل کے ذریعہ تختہ دار پر لٹکا یا جارہاہے،کہا جاتا ہے بنگلہ سرکار یہ ظلم وستم بھارت کی خوشنودی کے لئے کررہی ہے۔
عمومی رائے یہ ہے کہ 1970 کے انتخابات بڑے شفاف تھے، جس کے نتیجہ میں عوامی لیگ کو اقتدار ملا تھا، یہ بھی ایک بڑی غلط فہمی ہے،سقوط ڈھاکہ پر جید صحافی محترم الطاف حسن قریشی نے”مشرقی پاکستان ٹوٹا ہوا تارا“ کے عنوان ایک ضخیم اور مدلل کتاب رقم کی ہے، نسل نو کو اس کا مطالعہ لازمی کرنا چاہئے، وہ لکھتے ہیں، کہ ”عوامی لیگ مخالف جماعتوں کو سرے سے انتخابی مہم چلانے ہی نہیں دی گئی تھی پولنگ سٹیشن پر بھی ڈنڈہ برداروں کا راج تھا، 18 جنوری کی سہ پہر پلٹن میدان میں جماعت اسلامی کا عوامی جلسہ عوامی لیگ کے مسلح رضا کاروں نے درہم برہم کردیا تھا،پی ڈی پی اور مسلم لیگ کنونشن کے جلسے بھی دہشت گردی کی نذر ہو گئے،یوں غنڈہ گردی سے سیاسی کامیابی حاصل کی گئی تھی“۔
اس جعلی مینڈیٹ کا انجام مجیب الرحمان اور اہل خانہ کو بے دردی سے قتل کرنے کی صورت میں برآمد ہوا تھا۔ سقوط ڈھا کہ میں مظلومیت کا پرچار کرنے والوں کا چہر شرمیلا بوس نے اپنی کتابDead Reckoning بے نقاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہزاروں غیر بنگالیوں کو المناک حیوانیت کے ساتھ ہلاک کیا گیا تھا۔ ان سے نہ تو ظلم کا حساب لیا گیا نہ ان پر بغاوت کے مقدمات چلے۔ محب وطن افراد کو ہر گلی،محلہ میں تختہ مشق بنایا گیا۔
ذیل میں ان سیاسی غلطیوں کا جائزہ لیتے ہیں، جن کی وجہ سے سانحہ مشرقی پاکستان پیش آیا، مذکورہ کتاب میں مصنف لکھتے ہیں، کہ آل انڈیا مسلم لیگ جس کا قیام ڈھاکہ میں ہوا تھا، دوبارہ اس شہر میں کبھی لیگ کا اجلاس نہ ہوا، بانی جماعت پر یو۔پی کی اشرافیہ چھائی رہی اور اسکی قیادت بنگلہ مسلم کس ذہنی تبدیلیوں سے گذ ر رہے ہیں اس سے لاعلم رہی، مسلم لیگ کے مرکزی سیکرٹریٹ میں بیوروکریسی سا چلن رہا۔
جغرافیائی فاصلہ کے باعث دونوں خطوں کے عوام کے درمیان عوامی رابطہ محدود رہا، دستور سے انحراف اور عدم احترام سے بھی فساد پھیلا،1956 کے آئین میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے ساتھ رہنے کا معاہدہ ہوا،سکندر مرزا نے اس دستور ختم کردیا، 1962 کا آئین جو ایوب نے قوم پر مسلط کیا، اس پر بھی صحیح روح سے عمل نہ ہوا، اس میں ایسا ہتمام کیا گیا کہ اقتدار بنگالیوں کو منتقل نہ ہو، ایوب دل کے دورہ کے بعد جب کام کرنے کے قابل نہ رہے تو انھوں نے اقتدار سپیکر کو اس لئے منتقل نہ کیا کہ اس کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ بھٹو کے اسلامی سوشل ازم اور مجیب کے بنگلہ قومیت نے ایسا ہیجان پیدا کر رکھا تھا کہ منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کے امکانات محدود ہوگئے۔
کہا جاتا ہے معاہدہ تاشقند کے رد عمل میں حزب اختلاف نے غیر معمولی کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں سید مودودی، نواب زادہ نصراللہ خاں، خواجہ محمد رفیق، مشرقی پاکستان سے مولوی فرید،عبد الستار نیازی، جنرل اعظم نے شرکت کی، بھاری بھر آواز سے مخاطب کرنے والے شیخ مجیب تھے، جنہوں نے پہلی بار اس کانفرنس چھ نکات پر مشتمل عرضداشت پیش کی، حاضرین نے اس کا جائزہ لے کر اس کو ایجنڈا میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور حزب اختلاف پر مشتمل کمیٹی قائم کر دی گئی، اس کا مقصد مشرقی پاکستان جاکر عوام کوچھ نکات کے نقصانات سے آگاہ کرنا تھا، سید مودودی جانے میں کامیاب رہے، نوابزادہ نصراللہ سمیت دیگر کو مشرقی پاکستان جانے سے قبل ایوب سرکار نے گرفتار کر لیا تھا۔
الطاف حسن قریشی کا خیال ہے سرکار کی طرف سے بیان بازی شروع نہ ہو جاتی، تو سید مودودی، چوہدری محمد علی چھ نکات کی حد تک مجیب کے سامنے ایک بند ثابت ہوتے۔عالمی میڈیا میں چھ نکات کے تذکرہ نے حزب اختلاف کو محتاط کردیا تھا،تاہم ایک رائے بھی تھی اگر کانفرنس ان چھ نقاط کو کانفرنس ایجنڈا میں شامل کرتی تو مجیب سے بارگیننگ ہو سکتی تھی،بعد ازاں بھٹو نے مجیب سے مذاکرات کئے مگر اس وقت کافی تاخیر ہوچکی تھی۔
ڈاکٹر صفدر مرحوم اپنی کتاب سچ تو یہ ہے میں رقم طراز ہیں کہ شیخ مجیب نے برطانوی صحافی ڈیوڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ وہ 1948سے آزاد بنگلہ دیش کے لئے کام کر رہے ہیں ایک رائے یہ بھی ہے ملک کو دو لخت کرنے میں فوج سے زیادہ سیاسی قیادت کے احمقانہ فیصلوں کا عمل دخل زیادہ ہے، ڈاکٹر صفدر مرحوم لکھتے ہیں کہ دنیا میں کوئی ملک یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کی اکائیاں یا صوبے ایک جیسے خوشحال یا سیاسی ڈھانچہ میں ایک جیسا وزن رکھتے ہیں، تو کیا اس سے کسی کو ملک توڑنے کا جواز مل سکتا ہے؟یہ ایک اہم نقطہ ہے،دیکھنا ہے کہ مورخ اس پر کیا رائے رکھتے ہیں۔تاہم تلخ حقیقت یہی ہے کہ اس سانحہ سے ریاست کے کسی سٹیک ہولڈر نے بھی سبق نہیں سیکھا۔
تبصرے بند ہیں.