پچھلی حکومتیں اپنے ادوار میں عوامی خدمت کے دعوے تو بہت کرتی رہیں اور ریکارڈ پر لانے کے لیے باقاعدہ مراسلے جاری کرتی رہیں مگر وہ کبھی ملاوٹ، جعل سازی، دھوکا دہی، رشوت، تھانہ کلچر، پٹوار مسئلہ، تعلیم، صحت اور قانون کی حکمرانی کے لیے کچھ نہیں کر سکیں۔
اب جب ہمیں وہی سیاسی جماعتیں اپنی کارکردگی والے قصے سنا رہی ہیں تو ہمیں ان پر حیرت ہوتی ہے وہ سڑکوں، ندی نالوں، پلوں، پناہ گاہوں اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بارے تو بتا رہی ہیں مگر بنیادی سہولتوں اور بنیادی حقوق سے متعلق بتانے سے گریزاں ہیں۔
اس وقت جو نگران حکومت ہے وہ بھی گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ رہی ہے جبکہ اسے اپنے مختصر دور حکومت میں ایسے سخت فیصلے کرنا چاہئیں جو عوام کو ریلیف دیتے ہوں۔ مثال کے طور سے وہ ملاوٹ، رشوت کو روکنے اور پٹوار و تھانہ کلچر میں تبدیلی لانے کے لیے بہت کچھ کر سکتی ہے مگر ابھی تک اس نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ اسے بھی سیاسی معاملات کی بڑی فکر ہے جبکہ اسے طبقہ اشرافیہ کی پروا کیے بغیر چاہیے تھا کہ وہ ملاوٹ کرنے والوں پر آہنی ہاتھ ڈالتی، رشوت خوروں کا محاسبہ کرتی، پٹواریوں کو راہِ راست پر لاتی،تھانے کے بد عنوان اہلکاروں کو قانون کے کٹہرے لے جاتی مگر مجال ہے اس طرف توجہ کی ہو لہٰذا دودھ جس میں پاؤڈراور کیمیکل ہوتا ہے سر عام فروخت ہو رہا ہے۔ جعل ساز بلاخوف متحرک ہیں۔ دواؤں، غذاؤں سے لے کر اشیائے غیر ضروریہ تک سب میں دو نمبری ہو رہی ہے۔ دھوکا دہی بھی عام ہے مگر نجانے نگرانوں کی نگرانی کیسی ہے شاید وہ یہ سوچ رہے ہوں کہ ہم کیوں کسی سے بگاڑیں وہ چند روز کے مہمان ہیں؟
بہرحال اب جب تمام سیاسی جماعتیں عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں اور کامیاب ہونے پر فلاح وبہبود کے دعوے کر رہی ہیں تو ووٹر ان سے پوچھیں کہ وہ اپنے دورِ اقتدار میں جب ان کے پاس مکمل اختیارات تھے تو عوام کی خدمت میں کیوں سستی سے کام لیتی رہیں ان کی راہ میں کون سی رکاوٹیں تھیں اور انہیں کیوں دور کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ وہ شاید ان سوالات کے جوابات نہ دے سکیں گی اگر دیں گی تو وہ تسلی بخش نہیں ہوں گے۔
دراصل وہ اقتدار میں اس لیے آتی ہیں کہ حاصل اختیارات کے مزے لوٹ سکیں۔ اپنے بینک بیلنسوں میں اضافہ کر سکیں اگر ان کے نزدیک عوام کی خدمت کرنا مقصود ہوتا تو آج جس صورت حال سے چوبیس کروڑ عوام دوچار ہیں وہ نہ ہوتے ستم ظریفی دیکھے کہ آنے والے عام انتخابات میں بھی وہی جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ انہیں کامیاب کرایا جائے تو وہ ان کے لیے خوشحالیوں کے در وا کر دیں گے۔ ہم یہ بات اکثر کہتے ہیں کہ لوگ اب سیاسی جماعتوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں کیونکہ ان کا ماضی وعدہ خلافیوں سے بھرا پڑا ہے ان کے ”کارنامے“ ان کے سامنے ہیں انہوں نے جو لوٹ مار کی اور عوامی سرمائے کو شیرِ مادر سمجھ کر ہتھیایا پھر اسے مغربی ممالک میں لے جا کر عیش و عشرت کی وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لہٰذا صورت حال یہ ہے کہ اب ان سیاسی جماعتوں کو ڈرامے بازی کرنا پڑ رہی ہے۔ ایسا کرتی تو پہلے بھی تھیں اور تاثر کچھ اس طرح کا ابھارتیں کہ عوام اسے سچ سمجھتے ہوئے ان کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا کر لیتے مگر آج ان کو بڑی مشکل کا سامنا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے تو پرانے سیاسی لوگوں کو واضح طور سے کہنا شروع کر دیا ہے کہ ”میں نے انہیں قریب سے دیکھا ہے کہ جس کے ہاتھ صاف ہوں“ ان کے ایسے بیانات ہی سے ان کے والد گرامی ناراضی کا اظہار بھی کر رہے ہیں انہوں نے صاف کہہ دیا کہ بلاول کو ابھی اور تربیت کی ضرورت ہے۔ اس بیان کے بعد ان کو یہ کہنا پڑا کہ میرا بیٹا ”وزیراعظم“ بن کر ملکوں ملکوں گھوما ہے اس کو بڑی پذیرائی ملی ہے۔ ایک طرف اسے کچھ کہتے ہیں دوسری جانب کچھ کہتے ہیں۔ مقصد اس کا یہی ہے کہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوں مگر اب لوگ شعوری دنیا کے لوگ ہیں انہیں آسانی سے نہیں بیوقوف بنایا جا سکتا۔ ان کو بیانات سے نہیں عملی اقدامات جو ان کو ریلیف دیتے ہیں ہی سے اپنا بنایا جا سکتا ہے۔ وہ جو جوڑ توڑ کی سیاست تھی اس سے بھی کسی کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچ سکتا کیونکہ لوگ ووٹ دینے میں اب خود کو آزاد سمجھتے ہیں لہٰذا الیکٹیبل کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ان کے حلقوں میں تبدیلی کی لہر ابھر چکی ہے لہٰذا ہم پہلے بھی کہتے تھے اب بھی عرض کیے دیتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں اور سیاست کاری کے حصول وضع کریں مسائل کے حل کا راستہ تلاش کریں۔
ہماری نگرانوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ ایسے مسائل کو ختم کرنے کی طرف توجہ دیں جو ان کے دائرہ کار میں آتے ہیں وہ بڑے بڑے منصوبے تو نہیں بنا سکتے مگر عام مشکلات کو دور کر سکتے ہیں جیسا کہ ملاوٹ ہے، جعل سازی ہے، محکموں میں موجود رشوت کی دکانیں سجی ہیں۔ ان کو روکنے کے لیے قوانین پر عمل درآمد کرائیں۔ یہ جو ”چھاپہ پروگرام“ ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں اس سے کسی کی ذاتی تشہیر تو ہو سکتی ہے اصل مسئلہ حل نہیں ہو سکتا ویسے بھی ہمارا قومی مزاج تبدیل ہو چکا ہے۔ وقتی طور سے ٹھیک ہے کا وعدہ کرتے ہیں مگر اندر سے ٹھیک ہونے کا فیصلہ نہیں کر پاتے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سختی سے اقدامات کیے جائیں۔ کم از کم ملاوٹ کو جڑ سے ختم کیا جائے اس سے صحت برباد ہو رہی ہے۔ ہم جو دودھ پی رہے ہیں یہ زہر ہے زہر۔
بہرکیف ایک طویل عرصے سے عوام کے ساتھ ”لْکن میٹی“ کا کھیل کھیلا جا رہا ہے ہر بار انہیں نئے نئے منشوروں کے ساتھ اپنا گرویدہ بنانے کی حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے مگر اب کی بار سیاسی منظر تبدیل ہو چکا ہے اگرچہ مختلف حربوں کے ذریعے انہیں ذہنی طور سے بدلنے کی ترکیب نکالی گئی ہے جو کامیاب نہیں ہو گی۔ عوام کی غالب اکثریت اب روایتی سیاست کاری کے شکنجے میں آنے کے لیے تیار نہیں۔ لہٰذا شفاف و صاف انتخابات میں ایک بڑی تبدیلی کا امکان ہے کیونکہ عوام کی دکھ سہتے اور مہنگائیوں کے عذاب برداشت کرتے ہوئے اب بس ہو چکی ہے۔ ان پر آئے روز بجلی گرائی جا رہی ہے۔ ٹیکسوں کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں جس سے ان میں مایوسی گہری ہوتی جا رہی ہے مگر ان پہلوؤں کی طرف ایک بھی جماعت ایسی نہیں جو غور کرے ہر کسی کو اپنی کامیابی کی فکر ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ جب اپنے لیے سوچے گی تو عوام بھی اپنے متعلق سوچنے پر مجبور ہوں گے، کہ کیوں نہ اب کی بار ایک نیا سیاسی منظر نامہ ابھارا جائے جو ان کے ہر دکھ کو مٹا دے!
Next Post
تبصرے بند ہیں.