فلسفہ عشق اورلگن

62

فلسفہ یونانی زبان کے لفظ (فِلوسوفِیا) سے ماخوذ ہے۔ جس کے لغوی معنی”عشقِ دانش“ کے ہیں۔فلسفے کا علم بنیادی طور پر وجود و عدم، علم، اقدار، سبب و علل، وجوہات، دماغ اور زبان جیسے معاملات سے متعلق عام اور بنیادی مسائل کا مطالعہ ہے۔تاریخ فلسفہ فلسفیانہ افکار کا اظہار، بیان، بحث، رد و قبول، فلاسفہ کے احوال حیات و فلسفہ ذاتی، ان کے مکاتب فکر و فلسفہ حیات و کائنات اور ان فلسفیانہ مکاتب فکر کے باہمی ربط یا اختلاف اور تاریخی شواہد کی روشنی میں ان کے رد و قبول اور نفوذ کی جستجو بھی ہے اور اولین فلسفی کے فلسفے اور داستان حیات سے لیکر معلوم ترین فلاسفہ کی تمام تر ادراکی، وجدانی اور علمی کاوشوں کا باضابطہ اور مسلسل ریکارڈ بھی ہے۔ آسان ترین الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ فلسفے کی تعریف اور فلسفیانہ افکار ان کے تخلیق کرنے والے فلاسفہ کے احوال کو ہی تاریخ فلسفہ گردانا جاتا ہے جو فرد کی خیال میں وسعت پیدا کر کے اسے عقلی طور پر فلسفے کے مطالعے پر راغب کرتی ہے۔
ارسطو اپنی کتاب ”میٹافزکس“ میں سائنس اور فلسفے میں فرق بتاتے ہوئے کہتے ہیں: ”ایک خاص قسم کی سائنس ہے جو ہستی کو بطور ایک شے جانچتی ہے، اور جس چیز کا تعلق خود اُس وجود سے ہے۔ یہ سائنس ان جیسی نہیں، جنھیں خصوصی علوم کہا جاتا ہے؛ کیوں کہ خصوصی علوم وجود کو عموماً وجود کے طور پر نہیں دیکھتے، بلکہ وہ اس کے کچھ حصے کو الگ کرتے ہیں اور ان کے اوصاف پر غور کرتے ہیں، جیسا کہ ریاضی کے علوم کرتے ہیں، لیکن چوں کہ ہم اصل اور بنیادی وجوہات کی تلاش میں ہیں، اس لیے یہ واضح طور پر
ضروری ہے کہ ان علتوں کی ایک خاص نوعیت ہو۔“اگر فلسفے کی باقاعدہ تعریف کی جائے، تو وہ کچھ یوں ہوگی کہ ”فلسفہ عام اور بنیادی سوالات کے مطالعہ اور ان کو حل کرنے کی کوشش کا نام ہے، خاص کرکے وجود، علت، علم، اقدار، ذہن اور زبان کے متعلق۔“ لیکن فلسفہ کی شاید ہی کوئی ایک تعریف ہو جو اس کی وسعت کا احاطہ کرسکے۔ اسی لیے ہر فلسفی نے اپنی سمجھ کے مطابق اس کی تعریف کی ہے۔دو ہزار سال پہلے کا ذکر ہے، مشہور یونانی فلسفی افلاطون نے ایتھنز میں اکیڈمی کھولی جہاں وہ امراوشرفا کے لڑکوں کو تعلیم دینے لگا۔ جب اکیڈمی میں خاصی چہل پہل ہوگئی، تو اس نے روزمرہ کام کاج کی خاطر ایک اٹھارہ سالہ لڑکا بطور خدمت گار رکھ لیا۔ وہ لڑکا مشروبات اور کھانے کا اہتمام وغیرہ کرتا اور دیگر چھوٹے موٹے کام کرتا تھا۔ یہ اکیڈمی صرف امرا کے لیے مخصوص تھی۔ چنانچہ لڑکا اپنا کام کرچکتا، تو باہر چلا جاتا۔ اْدھر جماعت کے دروازے بند کیے جاتے اور افلاطون پھر طلبہ کو تعلیم دینے لگتا۔ وہ لڑکا بھی دروازے کے قریب بیٹھا اندر ہونے والی باتیں سنتا رہتا۔
دو ماہ بعد افلاطون کی جماعت کانصاب ختم ہوگیا۔ اب حسب روایت ایک شاندار تقریب منعقد ہوئی۔ اس میں شہر کے سبھی عالم فاضل شرکت کرتے تھے۔ طلبہ کے والدین بھی شریک ہوتے۔تقریب میں جماعت کے ہرطالب علم کا امتحان بھی ہوتا، وہ یوں کہ ہرایک کو کسی موضوع پر سیرحاصل گفتگو کرنا پڑتی۔ چنانچہ
اس تقریب کا موضوع علم کی اہمیت تھا۔ افلاطون کی جماعت سے حال ہی میں فارغ التحصیل ہونے والے طالب علم ڈائس پہ آتے، موضوع کے متعلق کچھ جملے کہتے اور پھر لوٹ جاتے۔کوئی طالب علم بھی علم کی اہمیت پر متاثر کن تقریر نہ کرسکا۔ یہ دیکھ کر افلاطون بڑا پریشان ہوا۔ اچانک خدمت گار لڑکا اس کے پاس پہنچا اور گویا ہوا کیا میں تقریر کرسکتا ہوں؟ افلاطون نے حیرت اور بے پروائی کی ملی جلی کیفیت میں اسے دیکھا اور پھر لڑکے کی درخواست مسترد کردی۔ اس نے کہا میں نے تمہیں درس نہیں دیا، پھرتم کیسے اظہار خیال کرسکتے ہو؟لڑکے نے تب اسے بتایا کہ وہ پچھلے دو ماہ سے دروازے پر بیٹھا اس کادرس سن رہا ہے۔ تب تک افلاطون اپنے تمام شاگردوں سے مایوس ہوگیا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے نوجوان کو حاضرین کے سامنے پیش کیا لڑکے کو تقریر کرنے کا اشارہ کیا۔ لڑکا بولنا شروع ہوا، تو آدھے گھنٹے تک علم کی فضلیت پر بولتا رہا۔ اس کی قوت گویائی اور بے پناہ علم دیکھ کر سارا مجمع دنگ رہ گیا تقریر بڑی مدلل اور متاثر کن تھی۔ جب لڑکا تقریر مکمل کرچکا، تو افلاطون پھر ڈائس پر آیا اور حاضرین کو مخاطب کرکے بولا آپ جان چکے کہ میں نے پوری محنت سے طلبہ کو تعلیم دی اور دوران تدریس کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتی۔ میرے شاگردوں ہی میں سیکھنے کے جوہر کی کمی تھی، اسی لیے وہ مجھ سے علم پانہ سکے۔ جبکہ یہ (لڑکا) علم کی چاہ رکھتا تھا، لہٰذا وہ سب کچھ پانے میں کامیاب رہا جو میں اپنے شاگردوں کو سکھانا چاہتا تھا۔ آج دنیا اس لڑکے کو ارسطو کے نام سے جانتی ہے جس نے فلسفے سے لے کر سائنس تک میں اپنے نظریات سے دیرپا اثرات چھوڑے۔ اس کا شمار نوع انسانی کے عظیم فلسفیوں اور دانش وروں میں ہوتا ہے۔ دنیا کا کوئی کام چیزوں کی فلاسفی جانے بغیر،عشق اور لگن کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔

تبصرے بند ہیں.