”غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ“مستحق اور بے سہارا بچوں کی تعلیم کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ گزشتہ کئی برس سے یہ ادارہ اس کار خیر میں مصروف ہے۔ پاکستان کے مختلف دیہاتوں اور پسماندہ علاقوں میں قائم تقریباً 800 سکول اس ادارے کی زیر نگرانی کام کر رہے ہیں۔ سید عامر محمود اس ادارے کے سربراہ ہیں۔ آپ بذات خود ایک معروف حوالہ ہیں۔ عامر صاحب پاکستان اور برطانیہ کی جامعات سے تعلیم یافتہ ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی محروم طبقات سے تعلق رکھنے والے پاکستانی بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے وقف کر رکھی ہے۔ چند دن پہلے غزالی ایجوکشن ٹرسٹ کی ایک تقریب میں شرکت کی دعوت موصول ہوئی۔ عمومی طور پر غزالی میں ہونے والی محفلوں اور تقاریب میں تعلیم اور اس سے جڑے مسائل پر مبنی موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔ تاہم اس مرتبہ یہ عامر محمود صاحب کی کتاب ”ہنگام سفر“ کی تقریب رونمائی تھی۔ برادرم نور الہدیٰ نے یہ محفل سجائی تھی۔ عامر صاحب کوئی باقاعد ہ لکھاری نہیں ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے وہ مختلف ممالک کے سفر پر تھے۔ فیس بک پر انہو ں نے اپنے سفر کی مختصر روداد لکھنا شروع کی۔ اب وہی روداد یعنی سفر نامہ کتابی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ یہ سفرنامہ فرخ سہیل گوئندی صاحب کی نگرانی میں قائم جمہوری پبلیکیشنز نے چھاپا ہے۔ عامر صاحب کی زبانی پتہ چلا کہ فیس بک پر ان کی تحریریں پڑھنے کے بعد گوئندی صاحب نے ہی لکھتے رہنے اور کتاب چھپوانے کے لئے ان کی حوصلہ افزائی کی تھی۔
غزالی میں ہونے والی تقریب میں فرخ سہیل گوئندی، نجم ولی خان، سلمان عابد، بینا گوئندی، فرخ وڑائچ اور دیگر احباب موجود تھے۔ سب نے اپنے اپنے انداز میں اس کتاب کے متعلق اظہار رائے کیا۔ صاحب کتاب کے انداز بیاں کی تعریف کی۔ کچھ تنقیدی جائزہ بھی لیا۔ کچھ عمدہ تجاویز بھی دیں۔ فرخ گوئندی لکھنے، پڑھنے والے آدمی ہیں۔ کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے بھی معروف ہیں۔ مختلف ممالک کی سیاحت کر چکے ہیں۔ انہوں نے نہایت عمدہ انداز میں بتایا کہ ایک اچھے سفر نامے کی پہچان کیا ہے۔ بتایا کہ عامر محمود صاحب کا ”ہنگام سفر“ اس کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔ میری عاجزانہ رائے یہ تھی کہ سفرنامہ کسی بھی شخص کی ذاتی روداد ہوتی ہے۔ ہر سیاح یا مسافر اسے اپنے زاویہ نگاہ سے لکھتا اور بیان کرتا ہے۔ سو کسی عام سے لکھنے والے کو بھی یہ اجازت ضرور ہونی چاہیے کہ وہ اپنے انداز سے وہ باتیں لکھے جو اس نے دیکھی اور محسوس کی ہیں۔ مطلب یہ کہ سفرنامے کو کڑے عالمانہ اور ناقدانہ پیمانے پر پرکھنے کے بجائے، لکھاری کو کچھ رعایت دے دینی چاہیے۔
یہ تو خیر اس تقریب کا مختصر احوال تھا۔ جہاں تک کتاب کا تعلق ہے تو ”ہنگام سفر“ واقعتاً ایک عمدہ سفر نامہ ہے۔ عامر صاحب نے مختلف شہروں اور جگہوں کا احوال لکھا ہے۔ استنبول، اوسلو، پیرس، روم، ایتھنز، قرطبہ، فلورنس سمیت مختلف جگہوں کا تذکرہ کیا ہے۔ کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا مشاہدہ کتنا گہرا ہے۔ مختلف مقامات کی تفصیلات انہوں نے نہایت خوبصورتی اور باریک بینی سے بیان کی ہیں۔ جن ممالک یا شہروں میں انہوں نے سفر کیا، ان کے بارے میں دلچسپ معلومات قاری کو پڑھنے کو ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر اوسلو کے بارے میں لکھتے ہیں کہ”شہر میں گھومتے ہوئے ایک کارخانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نذر عباس صاحب نے بتایا کہ شہر کی تمام کثافتیں یہاں جمع کی جاتی ہیں اور انہیں جلا کر گرم پانی اوسلو کے تمام شہروں کو مہیا کیا جاتا ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ کئی سالوں سے گند کم ہونے کی وجہ سے یہ کثافتیں اب برطانیہ سے منگوائی جا رہی ہیں۔“
ذاتی طور پر مجھے بھی سفر سے رغبت ہے۔ تھوڑی بہت سیاحت بھی کی ہے۔ پاکستان سے باہر جائیں تو وہاں کا موازنہ ہم پاکستان سے ضرور کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہم سب ہی ایسا کرتے ہیں۔ عامر صاحب بھی آئیس لینڈ میں دوران سفر قومی ائیر لائن پی۔ آئی۔ اے کو یاد کرتے رہے۔ لکھتے ہیں کہ”آئس لینڈ کی ائیر لائن کی بزنس کلاس میں بیٹھا اپنے ملک کی قومی ائیر لائن کو یاد کر رہا تھا۔گزشتہ پندرہ سالوں میں پی آئی اے سے سفر کرنے کو ترجیح دینے کی کوشش کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر دفعہ معیار، خدمات اور رویوں میں تنزلی ہی پائی ہے۔ ہمارے ائیر پورٹ اور ہماری ائیر لائن پاکستان کا پہلا تعارف اور اس کا چہرہ ہوتے ہیں۔ سفارش، اقربا پروری اور رشوت نے اس میں کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا۔“۔۔۔اگرچہ ایسی باتیں پڑھ کر دل دکھی ہو جاتا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ کم و بیش تمام قومی اداروں کی یہی صورتحال ہے۔ بہرحال عامر صاحب کو اس کتاب کی اشاعت پر مبارک باد۔ جو قارئین مختلف ممالک اور شہروں کا احوال جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں، وہ اس کتاب کو ضرور پڑھیں۔ سادہ انداز میں لکھی روداد سفر قارئین کو یقینا پسند آئے گی۔
تبصرے بند ہیں.